اقبال، فیض ایک تقابلی جائزہ اور پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق خان (تیسری قسط)
تبصرۂِ کتاب از، افضل رضوی
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است
اس طویل لیکچر میں جو تنتیس صفحات پر پھیلا ہوا ہے اس تصنیف کا سب سے بہترین باب ہے جسے بے شمار مستند حوالہ جات سے آراستہ کیا ہے۔ مزید یہ کہ انہوں نے ان وجوہات کا بھی احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے جن کی بَہ دولت ملتِ اسلامیہ آئینِ اسلام سے منحرف ہو کر انحطاط کا شکار ہوئی نیز علامہؒ نے ملتِ اسلامیہ کی بیماری کی تشخیص کے بعد جو دوا تجویز کی اس پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
اس لیکچر کے مطالعے سے قاری علامہؒ کے فلسفۂِ خودی اور فلسفۂِ عقل و عشق کو بہ آسانی سمجھ سکتا ہے، کیوں کہ اندازِ تحریر logical ہے اور آج کے پڑھے لکھے طبقے کے لیے نہایت موزوں ہے جو ہر بات کی دلیل مانگتا ہے اور منطق چاہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب چوں کہ منطق سے کلیتاً واقف ہیں اس لیے اس کی reflection ان کے دیگر مضامین اور لیکچرز میں بھی دیکھی جا سکتی ہے لیکن اس لیکچر میں خاص طور پر نمایاں ہے۔
اس لیکچر کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں انہوں نے عشق اور عقل کا موازنہ فکرِ اقبال کی روشنی میں کامیابی سے کیا ہے۔ حوالہ جات کی ایک طویل فہرست ہے جس کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں لہٰذا اصل تحریر ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اس لیکچر کو دنیا بھر کے موقر رسائل جرائد کی زینت بننا چاہیے کیوں کہ یہ ایک ایسے شخص کی تحقیقی گفتگو ہے جس کی چھے دَھائیاں تحقیق کے دشت میں گزری ہیں۔
نویں باب کا عنوان ”فلسفہ اقبال کی سائنسی بنیاد“ ہے گویا اس باب میں مصنف نے علامہ اقبال کے سائنسی علوم سے آگہی کو موضوع بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں علامہ اقبال ؒ اگر چِہ سائنس سے بَہ راہِ راست واقفیت نہ رکھتے تھے تاہم فلسفے کے طالب علم کی حیثیت سے انہوں نے مغربی اور مشرقی حکماء کے افکار کو گہرائی میں جا کر پرکھا اور نتیجہ یہ اخذ کیا کہ مشرقی علماء یعنی اسلامی فکر سے آراستہ علماء و حکماء کے افکار چوں کہ قرآن و سنت کے تابع ہیں اس لیے انہیں پر انحصار کرتے ہوئے اپنی فلسفیانہ فکر کو اشعارمیں بیان کر دیا۔
چلنے والے سوشل میڈیا کی زینت بننے والی ہر پوسٹ پر یقین کر لیتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس کی logical اور scientific بنیاد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسے درست یا غلط مانتے ہیں۔ چناں چہ جب ڈاکٹر صاحب نے یہاں پہلی بات جس کا ذکر اپنے لیکچر کے آغاز میں کیا ہے وہ ہے مغربی حکماء اور ان کے فطرت یعنی nature کے متعلق نظریات۔
اس ضمن میں انہوں نے اختصار کے ساتھ Thoms Hobbes, John Lock, Montesquieu, Sean Jaques Rousseau, David Hume, Hegel اور Carl Marxکے فلسفۂِ فطرت کو بیان کرنے کے بعد بتایا ہے کہ ”علامہ اقبال ؒ کا فطرت کا مشاہدہ مغربی فلسفیوں سے کہیں مختلف تھا کیوں کہ اس میں روحانیت اور اسلام کے زریں افکار کا بہت زیادہ دخل تھا“۔ مزید یہ کہ جب علامہ ؒ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہر شے قدرتی صفات کی حامل ہے تو وہ در حقیقت اخلاقیات یعنی Ethics کی بات کرتے ہیں جسے اب با قاعدہ سائنس تسلیم کر لیا گیا ہے، اوراس کا مقصد بنی نوعِ انسان کو راہِ راست پر رکھنا ہے۔
چناں چہ اگر علامہؒ کی ابتدائی دور کی نظموں کا مطالَعَہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے اپنی نسلِ نو کے لیے اسی آہنگ اور پیرائے میں بنیادی ماڈل فراہم کر دیا ہے۔ بچوں کی نظموں کا تذکرہ کرنے کے بعد علامہ ؒ پند و نصائح کا دائرۂِ کار بڑے بوڑھوں تک بڑھاتے ہیں۔ اس سلسلے میں مصنف نے ان کی نظم ”عقل و دل“ کی مثال پیش کی ہے۔
آگے چل کر انہوں نے بانگِ درا کی غزل کا حوالہ دے کر یہ بتایا ہے کہ علامہؒ چاہتے تھے کہ انسان عقل و دل کے ذریعے کائنات کے پوشیدہ رازوں کو جاننے کی کوشش کرے۔
گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستئِ نا پائیدار دیکھ
بَہ ہَر حال، یہ تو اشیاء کو پرکھنے کا عقلی پیمانہ ہے لیکن ایک دوسرا پیمانہ بھی ہے جو روحانیت کا ہے اور اس کا تعلق عقل کے بَہ جائے عشق جیسی لا زوال قوت سے ہے۔ ایک بات جس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر خان صاحب نے کسی دوسری جگہ ایک بڑا باریک نکتہ بیان کیا ہے کہ لفظ ”عشق“کا ترجمہ love نہیں ہو سکتا، کیوں کہ عشق ایسی قوت کا نام ہے جس کے سامنے love کی کوئی حیثیت نہیں۔ میں ان کو ان کی اس فکر پر داد دیے بغیر آگے چل نہیں سکتا تھا اس لیے ضمناًً اس بات کا ذکر آ گیا۔
روحانیت جسے اہلِ مغرب تھیالوجی سے تعبیر کرتے ہیں۔ علامہؒ کا کہنا یہ ہے کہ اگر اللہ سے لو لگانا چاہتے ہو تو قرآنِ حکیم فرقانِ مجید میں اس کے پیغامکو پڑھو اور اسے سمجھنے کی سعی کرو۔ اس سلسلے میں مصنف نے علامہؒ کی نظم” انسان اور قدرت“ کا حوالہ دیا ہے اور پوری نظم درج کر دی ہے۔
صبح خورشیدِ درخشاں کو جو دیکھا میں نے
بزمِ معمورئِ ہستی سے یہ پوچھا میں نے
پر توِ مہر کے دم سے ہے اجالا تیرا
سیمِ سیال ہے پانی ترے دریاؤں کا
گل و گلزار ترے خلد کی تصویریں ہیں
یہ سبھی سورہ والشمس کی تصویریں ہیں
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ لیکچر ایک خاص ربط کے ساتھ آگے بڑھتا ہے جس سے قاری اور سامع کو ایک ایک بات ذہن نشین ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ راقم الحروف نے بھی علامہؒ کے افکار کو پڑھنے اور سمجھنے میں ایک عرصہ صرف کیا ہے چناں چہ اپنے مطالعے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک کامیاب لیکچر ہے۔ اگر چِہ میں نے یہ لیکچر نہ سنا اور نہ ہی ڈاکٹر صاحب سے کبھی اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی، لیکن اس لیکچر کے سکرپٹ نے راقم الحروف کوبے حد متاثر کیا ہے۔ اس لیکچر میں انہوں نے علامہؒ کی فطرت سے محبت، فلسفۂِ خودی کا سرسری جائزہ، نظریۂِ تحرک اور عشقِ رسولﷺ بیان کیا ہے اور پھر آخر میں آئن سٹائن کے نظریے کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی فکرِ اقبال کی سپورٹو ہے۔
’’فلسفہ اقبال: میری نظر میں‘‘ یہ ہے اس تصنیف کا دسواں باب، جس میں ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ وہ حکیم الامت کے فلسفے کو کس طرح سمجھتے ہیں اور ان کے کلام اور خطبات سے کیا اور کس طرح اخذ کرتے ہیں نیز اس کو نسلِ نو تک پہنچانے کا ذریعہ کیا اور کیسے ہونا چاہیے؟ یہ بھی ان کا ایک لیکچر ہے جو انہوں نے پاکستان اور امریکہ میں ڈیلیور کیا۔ اس کے ابتدائیے میں انہوں نے اپنی سوانح بیان کی ہے جو سچائی اور دیانت داری کی عمدہ مثال ہے اور اس کے بعد فلسفہ اقبال ؒ کو قدرے وضاحت وصراحت کے ساتھ پیش کیا ہے لیکن اس لیکچر میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو پچھلے لیکچرز کا بھی حصہ ہیں لہٰذا ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اورانتہائی اختصار کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے راقم الحروف بس یہی عرض کرے گا کہ دیگر لیکچرز کی طرح یہ بھی ایک کام یاب لیکچر ہے جو نسلِ نو کے لیے ایک عمدہ مثال ہے نیز یہ فکرِ اقبالؒ کو سمجھنے میں بہت ممد و معاون ہو سکتا ہے۔
زیرِِ نظر تصنیف کے گیارہویں باب کا عنوان مصنف نے فیضؔ کے ساتھ منائی گئی اپنی دو یاد گار شاموں کے حوالے سے ’’فیض احمد فیض ؔکے ساتھ دو یاد گار شامیں‘‘ رکھا ہے اور اس کا آغاز مرزا اسداﷲ خاں غالبؔ کو خراجِ تحسین پیش کر کے کیا ہے: ع
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
مصنف کی یہ دونوں ملاقاتیں ان کے قیامِ یورپ کے زمانے میں میں لندن میں ہوئیں۔ اس باب میں مصنف نے اپنی شخصیت اور فنِ شاعری پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے، مثلاً، وہ گلاسگو کے مشاعرے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں،’’ہم نے بھی اس مشاعرے میں بَہ حیثیت شاعر حصہ لیا اور گلاسگو میں خوب متعارف ہوئے‘‘۔ اس کے بعد ایک اور مشاعرے کا ذکر ہے جو لندن میں صد سالہ تقریباتِ اقبالؒ کے موقع پر منعقد کیا گیا اور اس میں فیضؔمہمانِ خصوصی تھے اور بَہ قول مصنف انہیں بھی سفارت خانۂِ اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ایک شاعر کی حیثیت سے مدعو کیاتھا۔ اس مشاعرے میں ڈاکٹر صاحب نے فیضؔ کی موجودگی میں اپنی نظم ’’احساس‘‘ پیش کرنے سے پہلے جو قطعہ پیش کیا وہ ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔
یاد رفتہ کو باز آنے دے
فکرِ شاعر کو پیچ کھانے دے
مجھ سے خوابوں میں کھیلنے والے
ایک لمحہ تو مسکرانے دے
ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں کہ فیضؔ نے نظم کو پورے انہماک سے سماعت کیا اور کئی بار دل کھول کر داد دی۔ اس مشاعرے کے زیرِ اثر اور فیضؔ سے فیض لے کر مصنف نے اپنی ایک اور نظم ’’کتنی صدیاں بیت گئی ہیں‘‘ لکھی۔ یہ دونوں نظمیں بھی اس باب کا حصہ بنائی گئی ہیں۔ اسی طرح انہوں نے فیضؔ سے اپنی دوسری ملاقات کی تفصیل بھی فراہم کی ہے جو ایک بار پھر لندن ہی میں ایک دوسری تقریب میں ہوئی جس میں مصنف اور فیضؔ کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس باب میں انہوں نے دیگر تاثرات کے علاوہ فیضؔ کے فن و فکر کو بھی اجاگر کیا ہے۔ علامہ اقبالؒ، فیض احمد فیضؔ اور مصنف کی علمی و ادبی کاوشوں، حقائق اور فنی تاثرات پر مشتمل اس خزینے کا آخری باب ’’علامہ اقبالؒ اور فیض احمد فیضؔ کے حوالے سے بیرونِ ملک سر گرمیاں‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس عنوان کے تحت انہوں نے گلاسگو میں گزرے ایام اور ادبی سر گرمیوں کا احاطہ کیا ہے اور اپنی ایک نظم ’’عقیدت کے پھول ‘‘بھی اس باب میں شامل کی ہے، جسے بہ قول مصنف مغرب میں بے حد پسند کیا گیا اور چوں کہ اس نظم میں حکیم الامت ؒ کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے اس لیے با وجود اس کے کہ مضمون طوالت اختیار کر رہاہے، چند اشعار درج کیے جا رہے ہیں:
چشمِ بینائے ملت ہے اقبال تو
جس نے رو رو کے لکھے فسانے نئے
رنگ لائے گا، یہ میرا سوزِ دروں
اور بجیں گی مرے گھر میں شہنائیاں
مندرجہ بالا خراجِ عقیدت پیش کرنے کے بعد مصنف نے گورنمنٹ کالج لاہور (جی ۔سی ۔یو) میں اپنی مصروفیات اور طلبہ سر گرمیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس باب میں راقم الحروف کے تحقیقی مقالے ’’در برگِ لالہ و گل‘‘ کی جلدِ اول پر لکھا گیا ڈاکٹر صاحب کا ریویو بہ عنوان ’’دربرگِ لالہ و گل- اردو ادب میں ایک اہم تحقیق کا اضافہ ‘‘بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے اس باب میں دبئی اور امریکہ میں منعقد کی جانے والی ادبی سر گرمیوں کو خاص طور پر موضوع بنایا ہے۔
آخر میں اس تصنیفِ خوش نما کے بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبالؒ اور فیضؔ کے فن و شخصیت کو ایک ہی وقت میں پیش کی جانے والی یہ پہلی کامیاب کوشش ہے۔ جیسا کہ اوراقِ گزشتہ میں اس بات پر روشنی ڈالی جا چکی ہے کہ مصنف کا انداز ایک رُوداد نویس کا ہے اور اس پوری کتاب میں مصنف نے نہایت کامیابی سے اقبالؒ، فیضؔ اور اپنی زندگی کی رودادیں بیان کی ہیں۔ زبان سادہ بھی ہے اور شستہ بھی۔ راقم الحروف کے نزدیک اس کتاب کے مطالعے سے علمائے اردو ادب کے ساتھ ساتھ طلبہ اور عام قاری بھی مستفید ہو سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ استادِ مکرم محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق خان صاحب کو صحت و تن دُرُستی کی نعمت سے مالا مال رکھے تا کہ ان کے قلم سے ایسی کئی اور نایاب اور ریفرنس کی مطبوعات منشۂِ شہود پر آ سکیں۔ آمین