اقتدار کی شعریات اور میشل فوکو
از، معراج رعنا
مجرد علوم کے مطابق چونکہ کائنات اور انسانی تمدن کا ارتقا ء قوت کے تصادم کا نتیجہ ہے۔ اس لیے انسانی تمدن کے ہر دور میں مخاطبۂ قوت یعنی discourse of power کو تخاطبی نظام میں کلیدی مقام حاصل رہا ہے۔ تاہم دنیا کی مختلف حکومتوں ،قوموں اور اداروں میں قوت کی متعدد تعبیریں اور تفسیریں موجود ہیں جو ایک دوسرے سے مماثل کم اور مخالف زیادہ ہیں۔ جدیدی زمانے میں میشل فوکو (1926.1984) کی اہمیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ اُس نے قوت کے اثباتی نتائج نمایاں کیے۔ فوکو کی نظر میں قوت کا مزاج ہمیشہ منفی نہیں ہوتا۔ اس لیے قوت کا پھیلاؤ انسان کو محدود کرنے کا وسیلہ نہیں، اور نہ ہی یہ انسان کو اُس کی خواہشات کے خلاف عمل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
فوکو کے فلسفے کی بنیاد ی بات یہ ہے کہ قوت بھی ددسری اشیاء کی طرح پیداواری صفت سے متصف ہوتی ہے۔فوکو کے نزدیک بیان (statement) خواہ وہ سماجی ہو یا تاریخی، ادبی ہو یا تہذیبی ،مکالمت کی ایک بنیادی اکائی ہے۔ اس لیے وہ اپنے تجزیاتی عمل میں بیان کو خاص اہمیت دیتا ہے۔
یہاں فوکو بیان کو اس کے روایتی تصور سے منہا کرکے ایک بالکل انوکھے معنی میں استعمال کرتا ہے۔ énoncé (بیان) فوکو کے لیے ایک دلچسپ معنی کا ذریعہ ہے۔ جو قول، لہجہ اور تقریری افعال (speech acts) کو با معنی بناتا ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ ’بیانات‘ اپنے آپ ہی تلفظ، لہجہ اور تقریری افعال کی خود مختارانہ صفات سے متصف ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ ایک نوع کا اصولی دائرہ بناتے ہیں جو یہ ثابت کرتا ہے کہ کیا بامعنی ہے اور کیا مہمل۔ یہی وہ اصول ہیں جو قول، لہجہ اور تقریری افعال کو معنی کے جوہر سے ہم کنار کرتے ہیں۔
فوکو’بیانات‘ کو وقائع سے بھی تعبیر کرتا ہے جو ان اصولوں کے رہین منت بھی ہوسکتے ہیں اور نہیں بھی۔ وہ کہتا ہے کہ بعض قواعدی اعتبار سے درست جملے بھی معنی کے محتاج ہوسکتے ہیں وہیں بعض قواعدی لحاظ سے غلط جملے بھی بامعنی ہوسکتے ہیں۔ بیانات کا انحصار اس کلامی صورتِ حال پر ہے جس میں وہ ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لیے مکالمت کو فوکو بیانات کا ایک بڑا ذخیرہ تسلیم کرتاہے۔ یہی مکالمت اس کے تجزیے کا مرکزی موضوع ہے۔ لیکن وہ تجزیے کے د وسرے عوامل سے بھی انکار نہیں کرتا۔
فوکو صرف جملے میں پوشیدہ صداقت کو نمایاں نہیں کرتا بلکہ اس کے گم شدہ معنی کا بھی سراغ لگانے کی سعی کرتا ہے۔ اس کے اس عمل میں سطحی معنویت کی جگہ مکالمے کے تہہ نشین معنی نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں جو اپنی نوعیت میں حد سے زیادہ افضل واقع ہوتے ہیں۔ فوکو وجودِ معنی کی عملی اوراستدلالی صورتِ حال کو بھی موضوعِ مطالعہ بناتاہے۔
مکالمت کے درون میں پوشیدہ گہری معنویت کی تلاش فوکو کو ساختیاتی فکر کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن عام ساختیاتی مفکرین کی طرح وہ مکالمے کی استدلالی تشکیل کو یکسانیت پر استوار نہیں کرتا بلکہ تفریق کو اس کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ اس لیے فوکو استدلالی تنظیم میں کسی بیان کو اس کی عملی کارکردگی کے باہر جانچنے اور پرکھنے کاقائل نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں فوکو ایک مورخ کی حیثیت سے نمایاں ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ ہر نوع کے بیانات کا تجزیہ ان کے تاریخی پس منظر میں کرنے کا حامی نظر آتا ہے۔
اس کی یہ مکمل تنظیمی ساخت اوراس کے استدلالی اصول مکالمے کی بنیادی اکائی ’بیان‘ کو ایک منفرد شناخت عطا کرتے ہیں۔ فوکو کے یہ نظریاتی مباحث جہاں خاطر خواہ سراہے گئے وہیں بعض دانش وروں مثلاً دریدا، ہیڈن وایٹ، نوام چومسکی وغیرہ نے ان نظریاتی مباحث کی تنقید بٓھی کی ہے۔ فوکو پر ان کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ وہ جہاں Enlightenment سے متعلق قدروں اور فلسفوں کو مسترد کرتا ہے وہیں راز دارانہ طور پر ان پر اعتماد بھی کرتا ہے۔ فوکو نے متعدد موقعوں پر یہ بات دہرائی ہے کہ وہ انسانی آزادی کا زبردست حامی ہے۔ اس لیے اس کا فلسفہ ہمیشہ optimistic نوعیت کا حامل رہا ہے۔
دنیا کی بیش تر ترقی یافتہ زبان کا ادب اپنی ہزار ہا خود مختاری کے باوجود کہیں نہ کہیں اُس سیاسی نظام ،جسے فوکو اقتدار کا منبع تسلیم کرتا ہے، کا اسیر ضرور دکھائی یتا ہے۔جو حاکم و محکوم کے بیچ ایک واضح خطِ تفریق کھینچتا ہے۔مطلب یہ کہ ادب اپنے آپ میں اتنا خود مکتفی نہیں ہوتا جتنا کہ وہ بظاہر نظر آتا ہے۔ادب کی عدم مکتفیت کے سوال سے کئی ایسے جواب سر اُٹھاتے ہیں جن سے ادبی معاشرے کے تحفظات شکوک کے دائرے میں آنے لگتے ہیں ۔ شکوک کے نقصانات جو بھی ہوں لیکن اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے وسیلے سے ہم اپنے ادبی معاشرے کی کی تیرہ چشمی کو خیرہ چشمی میں تبدیل کرنے پر قادر ہو جاتے ہیں۔مثال کے لیے اردو کی کی قدیم ترین مثنوی قدم راؤ پدم راؤ (1421) کا یہ شعر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
سُجات ایک ناگن کُجات ایک سانپ
اسنگت دیٹھیں کھیلتے لانپ جھانپ
یہاں سُجات اور کُجات کے حوالے سے نسلی بر تری اور نسلی کمتری کا احساس نمایاں ہے۔سُجات اور کُجات کے اتصال کے عمل کو اسنگت یعنی غیر موزوں بتایا گیا ہے۔اس لیے یہاں عصبیت اور نسلی بر تری یعنی race superiority کا اقتداری رویہ ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح داغ کا ایک شعر ہے:
تم نے جادو گر اُسے کیوں کہہ دیا
دہلوی ہے داغ بنگالی نہیں
یہاں بھی حقیقت اور جادوگری کے حوالے سے دہلی اور بنگال کی علاقائی افضلیت اور اسفلیت کا میلان غالب ہے۔مذکورہ مثالوں سے اس نتیجے پر پہنچنا آسان ہو جاتا ہے کہ شعریات کا رشتہ جس قدر خلقی ذات سے ہوتا ہے اُس سے کہیں زیادہ وہ اپنے اقتدار کی پابندِ وفا ہوتی ہے۔