عرفان مسیح کے سامنے مسیحائی مر گئی
(رضا علی)
سنا تھا کے پچھلے دور میں کوئی مسیحا ہوتا تھا- وہ مُردوں کو زندہ کر دیتا تھا- کوڑھیوں اور بیماروں کو شفا دے دیتا تھا- سنگساری کے جنوں میں مبتلا ہجوم سے کہتا تھا کے وہ پتھر اٹھائے جو خود گنہگار نہ ہو۔ مجسّم خدائی صفات اور مجسّم انسانیت تھا- قانون سے بڑھ کر محبّت پر زور دیتا تھا۔ پھر نیا دور آ گیا۔
سنا ہے کے نئے دور کے مسیحا ڈاکٹر ہوتے ہیں- یہ بھی زندگی اور موت کا خدائی کام کرتے ہیں۔ کوڑھیوں اور بیماروں کو شفا دیتے ہیں- پانی پر تو نہیں چل سکتے مگر ڈوبتے ہوں کو بچا لیتے ہیں- یہ بھی مجسّم خدائی صفات اور انسانیت ہوتے ہیں- لیکن پھر کہیں اس مسیحائی کی بھی موت ہو گئی۔
عرفان مسیح کو عمرکوٹ کے کسی ہسپتال میں لایا گیا- وہ گندے نالے کی صفائی کے لئے اترا اور وہاں سے اٹھنے والی زہریلی گیس کی وجہ سے بیہوش ہو گیا- اس کا بھائی کسی رکشے میں اس کا تڑپتا ہوا جسم لے کے ہسپتال پہنچا، اس امید میں کے یہاں اسے مسیحا بچا لے گا- لیکن مسیحا نے کہا کے میرا روزہ ہے- اس آدمی کی غلاظت سے میرے کپڑے خراب ہو جائیں گے- اندازہ تو یہی ہے کے اسے اپنی اگلی نماز کی پرواہ تھی- گندے کپڑوں میں نماز نہیں ہوتی۔ لیکن ایمرجنسی میں تو نماز بھی توڑنا جائز ہے- اور یہ تو انسانی جان کا معاملہ ہے- یہاں نماز بعد میں اور جان پہلے آتی ہے۔
جس خدا کے سامنے نماز کے لئے کھڑا ہونا ہے، اس نے تو کہا ہے کے ایک انسان کی ناحق موت ساری انسانیت کی موت ہے- تو پھر کیا ساری انسانیت کو قتل کر کے اس کے آگے ہاتھ باندھ کے کھڑا ہونا جائز ہے؟
میں نے تو یہ بھی سنا ہے کے اپنی ڈیوٹی پوری کرتے ہوئے جو شخص ہلاک ہو جائے وہ شہید ہوتا ہے- وہی گندگی جو لوگوں کے جسموں سے نکلتی، اور جس کی کراہت میں وہ اس سے دور بھاگتے ہیں، کوئی کمتر انسان ان کے لئے صاف کرتا ہے۔ عرفان تو اپنی ڈیوٹی کر رہا تھا- جس بنانے والے نے اسے بنایا تھا اس نے تو اسے مکمّل اور قابل عزت انسان بنایا تھا- اس کی نظر میں نہ تو وہ کمتر تھا نہ اس کی زندگی کا مقصد اوروں گندگی سے نمٹنا- لیکن دنیا میں رہنے والے خداؤں نے یہ تفریق پیدا کر دی۔
دنیا کے سنگدل اور کم ظرف مسیحاؤں نے اپنی موت کے بعد جنّت کی امید میں الٹا اس کے لئے شہادت کی موت لکھ دی- وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا جو رحمن اور رحیم ہے- جس کا دامن بہت وسیع ہے اور جس کی رحمت کسی کے جسم پر لگی گندگی سے بے نیاز ہے۔
سنا ہے شہیدوں کا حساب نہیں ہوتا- ایک دن قیامت کا آئے گا جس دن تمام انسانیت کو اٹھایا جائے گا- اس دن کوئی نہ چھوٹا ہوگا نہ بڑا- نہ چوڑا نہ چمار، نہ ڈاکٹر نہ زمیندار۔ اس دن سب کو پورا پورا حساب ملے گا- جس نے نماز پڑھی ہو گی اسے اس کی نماز ملے گی- اور جس نے انسانیت کی ذلّت کی ہوگی اسے اس کی ذلّت بھی اٹھانی ہوگی- جس نے اپنا کام سمجھ کر دوسروں کا گند اٹھایا ہوگا وہ بھی اپنا اجر لیگا- جس نے مظلومیت کی موت پائی ہوگی وہ بھی سرخرو ہوگا- جس ہستی کا اس دن دربار لگے گا وہ بہت اعلی اور عظمت والی ہے۔
اس دن سب فقیر کی طرح سامنے کھڑے ہونگے۔ ہو سکتا ہے کے اس دن دنیا کے مسیحاؤں سے کہا جائے کے جاؤ اپنی معافی کسی ایسے شخص سے لے کے آؤ جس کو ہاتھ لگانا بھی تم گوارا نہ کیا- جس کو دنیا میں تم حقارت سے دیکھتے تھے۔ جس کا نہ تم جھوٹا کھا سکتے تھا نہ اس کا پانی پی سکتے تھے۔ اور آج تمہاری قسمت اس کے ہاتھ میں ہے۔ کہیں وہ آج تمہیں نہ رد کر دے۔