امکان سے کوئی الجھے کیوں
از، یاسر چٹھہ
عرفان صدیقی جس چیز کے لیے بھی stand لیتے رہے، اس stand کے خلاف ہم ہو سکتے ہیں؛ پر ہم ان کے بات کرنے کے حق کو مقدم سمجھیں گے، بہ شرط یہ کہ، وہ hate speech، اور فوری طور پر مُضِر نہ ہو۔ (میں ویسے انہیں کبھی نہیں پڑھتا تھا۔ وجہ شاید یہ تھی کہ مجھے قطعی طور پر سپرد داری (aligned) لوگ دل چسپ نہیں لگتے۔ ان سے سیکھنے کو بہت کم ملتا ہے۔ یہ تو خیر کالم کاری ہے، مجھ ایسوں سے تو ایسی شاعری، کہانی بھی نہیں پڑھی جا سکتی، جس کی شروعات و انجام اور موضوعات، اور مضوعات کی بَرَت پہلے ہی سے معلوم ہو۔)
اسی بات کی توسیع میں عرض ہے کہ آج اگر کسی کو حسن نثار، دونوں بھٹیز، یا مبشر لقمان جمع سارے موجودہ سرکاری کار گزاریے پسند نہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ کل کلاں کو انہیں کوئی نجم سیٹھی اور حامد میر کے ساتھ ہونے والا، 90 کی دھائی والا حال کرنے کا لائسنس حاصل کر لے گا۔
دیکھیں، میرے خیال میں تو یہ بہتر رہتا ہے کہ ہم اس چیز پر حقائق (facts) جمع کریں، مشاہدہ کریں، اور اس میں ربط ڈھونڈیں، کہ کوئی لکھاری، کوئی سیاست دان اب کہاں کھڑے ہیں، یا کس طرف کی جانب چل رہے ہیں، سرک رہے ہیں، move کر رہے ہیں۔
اگر ہم کسی کے ماضی کو، اپنے ہر تجزیے کا زیادہ وقت اور سپیس time and space دے دیں گے، تو شاید ہم موجودہ وقت کے لیے اپنی کسی پیش کاری اور سوچ کی پیدا وار (product) کے لیے خسارے کا سودا کریں گے۔ بن جانا، یعنی becoming، بَہ ہر حال being سے افضل و بَر تر ہے۔ وہ معاشرے اور تہذیبیں اور ان کے تخیل کی بانجھ کوکھیں بانجھ ہی رہ جاتی ہیں، جو اساطیری متنوں پر الہامیت کے غلاف چڑھا کر، کاملیت پرستی کے وہ جھوٹے نمونے اور اصنام گھڑ لیتی ہیں، وہ کسی کو بھی “بننے”، کی اجازت نہیں دے پاتییں، وہ انہیں “ہونے” کے گرفتہ جبر میں اسیر رکھنا چاہتے ہیں۔ بننے اور ہونے میں بیت فرق کیجیے، ورنہ بیڑیاں نسل در نسل منتقل ہوتی جائیں گی، پہلے کی طرح۔
آپ کے سامنے دنیا کی معاشرت و تہذیب گواہ ہے، غیر حقیقی اور لا یعنی کاملیت پسند معاشروں میں انسان کبھی بھی زمین پر نہیں اتر پاتا، اور عجب ہے کہ نا ہی زمین پر رہ پاتا ہے۔ وہ زمین کے نیچے دفن کر دیا جاتا ہے؛ یا، اگر وہ اونچا ہونے کی جسارت کی کونپلوں کو بہار آشنا کرتا ہے، تو نیچے سے زمین کھینچ لی جاتی ہے، بَہ ظاہر مُنھ سے کہتے کہتے کہ یہ لا شریکیت پر کمند ڈالنے لگا ہے۔
انسانی امکانات کی جس قدر توسیع کا موقع و امکان ہو، اور بھلے جتنے بھی لمحوں کی اکائیوں کے لیے ہو، ہم ان امکانات کی وسعت پذیری پر یقین رکھ سکیں، اتنا بہتر ہوتا ہے۔
اس امکانات کی لمحاتی وسعت پذیری میں ہماری اپنی زیادہ بہتر ذہنی صحت (mental health) بھی بنتی ہے، اور ہمارے سیکھنے کی curve بلند تر سَمت میں بڑھتی رہتی ہے۔ اور، شاید، بَل کہ، یقیناً یہ ہی زندگی کا وظیفہ ہے۔
اگر تو ہم چند ایک آلات (tools) کی جبریہ عینک میں ہی اَڑ جائیں، تو خود اپنے مشاہدے اور تجزیے کے امکانات کو اپنی رضا و مختاری سے محدود سے محدود تر کرتے جاتے ہیں۔ پس، ایسا رویہ اور ذہنی محنت کا چلن نا اپنے لیے بھلا، نا تخلیقِ علم و تجزیہ کے لیے بھلا۔
ہمیں اپنے یہاں کی معاشرت و سیاست میں ہَمہ دَم دیکھنا ہوتا ہے کہ جو نہال اوپر سے نیچے آیا، وہ نیچے کو دو بارہ کتنی بار لپکتا ہے، اور اوپر جانے کے لیے کتنی بار قدم بڑھاتا ہے۔ ہر امکان پر نظر رکھنے کو شیوہ بنانا ہے، بھلے جس قدر ہو سکے۔ اور ہر امکان کو شرفِ قبولیت و دل کا بوسہ دینے کی ہمت جمع رکھنی ضروری ہے۔
اسی سیاق و سباق میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ، “استاد کارڈ”، “ضعیف کارڈ”، وغیرہ جذبات کو اپیل کرنے والے نعرے تھے، جن کا سیاسی اطلاق ایک ایسی آبادی پر بہت ضروری ہے، جن میں یہ قدریں اہمیت رکھتی آئی ہیں؛ اور ایسی قدریں اور نعرے فروغ بھی پانے چاہییں، کہ ہر بار غدار اور بلاسفیمی کے tools کے ذریعے عوامی سیاست میں جذباتیت کا فائدہ اٹھانے (exploit) کے چلن کے متوازی قدروں کی سیاسی لفظیات میں آنے اور، شمولیت اختیار کرنے کو خوش آمدید ہی کہنا چاہیے۔ یہ تنوع اور political repertoire کی وسعت کے امکان کا کسی قدر مثبت اظہار ہے۔