مرنے دو جنہیں شوق ہے مرنے کا
(محمد شہزاد)
ایک سو ساٹھ نادانوں نے پچیس جون کو اپنی قبر خود کھودی۔ خو د تو ڈوبیں گے صنم یار کو بھی لے ڈوبیں گے پر عمل کرتے ہوئے اپنے ساتھ سینکڑوں قبریں اور بھی کھودی تھیں ۔ شکر ہے بچت ہو گئی! احمد پور شرقیہ میں ایک پٹرول سے بھرا ٹینکر الٹ گیا۔ چونکہ قوم کو (ویسے قوم تو کہیں سے بھی نہیں وحشیوں کا بپھرا ہو ا ریوڑ ہے) ابتدا ہی سے جہادسے رغبت ہے سو رستے ہوئے، بہتے ہوئے، کھڑے ہوئے پٹرول کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹنے لگے باوجود موٹر وے پولیس اور ٹینکر ڈرائیور کے سمجھانے کے !
پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ ان ہی کے کسی بھائی بند نے سلگا ڈالی سگرٹ اور جھکاس! !! آناً فاناً 160سے اوپر شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے اور تین سو کے قریب غازی بن گئے جھلس کر!
نادان دوست سے عقل مند دشمن بہتر۔ لہذا ان کے مرنے کا کوئی ملال نہیں ہونا چاہیے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ کسی کو ہوا بھی نہیں۔ دائیں بائیں دیکھ کر اندازہ ہی نہیں ہوا کہ عید میں کسی قسم کا پھیکا پن ہے۔ وہی مسخرہ اور پھکڑپن عروج پر رہا جو ہر سال دیکھنے میں آتا ہے مثلاً موٹر سائیکل کا سائیلینسر اتار کر لوگوں کے کان پھاڑنا عید کی خوشی منانے کا ایک مروجہ طریقہ ہے جس کی ادائیگی پورے خشوع و خضوع کے ساتھ ہوئی۔
افراد کے رویے سے تو یہ پتہ چلانا ناممکن تھا کہ عید سے ایک دن قبل تین بڑے سانحات میں سینکڑوں لوگ لقمہ اجل ہو چکے ہیں۔ فیس بک پر موجود نام نہاد دانشور مگر مچھ کے آنسوں بہاتے رہے اور ساتھ ساتھ اپنی تصاویر بھی اپ لوڈ کرتے رہے جس میں خوب ہنسی ٹھٹھا ہو رہا ہے۔ انواع و اقسام کے کھانے (کھائے کم اور ضائع زیادہ )کئے جا رہے ہیں۔ ہمیں تو ملال ہوا صرف پاراچنار میں دہشت گردی کی وجہ سے 80ہلاکتوں پر۔
جہالت ، بے شرمی اور حماقت اس قوم کی گھٹی میں پڑی ہے۔ ’آ بیل مجھے مار‘ قماش کی بے وقوفیوں کو یہ قوم بہادری سمجھتی ہے۔ روزانہ حکومت اخبارات اور برقی میڈیا کے ذریعے قوم کو متنبہ کرتی ہے کہ ون ویلنگ نہ کرو یہ جان لیوا ہو سکتا ہے۔ پھر بھی باز نہیں آتے کرتے ہیں ون ویلنگ اپنے تئیں ہیرو بن کر اور مرتے ہیں۔
متنبہ کرتی ہے حکومت کے مائع گیس کو ایک سے دوسرے سلینڈر میں منتقل کر کے بیچنا خطرناک ہے۔ ڈی کینٹنگ کہتے ہیں اسے مگر یہ قوم اسی کا کاروبار کرکے نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی بھی جان خطرے میں ڈالتی ہے۔ کئی جان لیوا دھماکے دکانوں میں ہوئے ڈی کینٹنگ کے عمل میں مگر کسی نے کچھ نہ سیکھا۔
متنبہ کرتی ہے حکومت کہ ساحل سمندر پر لہروں سے دور رہیں۔ اگر تیرنا نہیں آتا تو پانی میں پیر تک نہ ڈالیں مگر گاہے بگائے پانی میں ڈوب کر مرتے ہیں لوگ لیکن سبق نہیں سیکھتے۔ اسلام آباد کا راول ڈیم ایک خونی ذخیرہ ہے پانی کا۔ ہمیں تیرنا آتا ہے ۔ کئی بار اسے تیر کر پار کیا ہے یہ کھوج لگانے کے لیے کہ کیوں خونی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ پیالے کی مانند ہے۔ لوگ ایک قدم رکھتے ہیں تو پانی ٹخنوں تک ہوتا ہے اور دوسرے قدم پر غڑپ اندر دسیوں فٹ! اب اگر تیرنا نہیں آتا تو آپ گئے کام سے۔ پھر اوپر سے حماقت یہ کہ ڈوبنے والے کو بچانے والے بھی تیرنا نہیں جانتے لہذا پورے کا پورا خاندان پانی کی نظر ہو جاتا ہے۔ مگر کوئی سبق نہیں سیکھتا۔
پولیو کے قطروں کی اہمیت سے سب ہی واقف ہیں ۔ سرکار کا شکریہ اور آفرین پولیو کارکنان پر اور سپاہیوں پرجو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اس نا سمجھ عوام کے بچوں کو لنگڑے لولے پن سے بچانے کے لیے اور یہ انہیں قتل کرتے ہیں، بد تمیزی کرتے ہیں، بچوں کو قطرے نہیں پلانے دیتے۔ ہونے تو لنگڑا لولا اس قوم کو۔ وقت آنے پر خود دوڑے آئیں گے اور پیسے دے کر پولیو کے قطرے پلوائیں گے۔
متنبہ کرتی ہے حکومت کہ سردیوں میں ہیٹر جلا کر مت سوئیں پھر بھی یہ ہیٹر جلا کر ہی سوئیں گے اور مریں گے۔ متنبہ کرتی ہے حکومت کہ آتشبازی کا سامان مت بنائیںآبادی والے علاقوں میں۔ مگر ان کے کانوں ہر جوں تک نہیں رینگتی۔ درجنوں جانیں جاتیں ہیں اس قسم کے حادثات میں ہر سال۔ متنبہ کرتی ہے حکومت کے بسنت پر دھاتی تار اور شیشہ لگی ڈور نہ استعمال کرو۔ ٹرانسفارمرز جل کر راکھ ہوتے ہیں۔ لوگوں کی شہہ رگیں کٹتی ہیں مگر یہ باز نہیں آتے اور مرتے ہیں حرام کی موت۔ متنبہ کرتی ہے حکومت کہ ہوائی فائرنگ نہ کرو مگر ان کی خوشی کا تو جشن ہی نہیں ہوتا جب تک تین چار بے گناہ لوگ ہوائی فائرنگ سے ہلاک نہ ہوں۔
حکومت آگاہی پھیلاتی ہے کہ سیٹ بیلٹ باندھا کرو۔ ہلمٹ پہنا کرو۔ کم عمر بچوں کے ہاتھ میں گاڑی یا موٹر سائیکل مت دو۔ پھر بھی عمل نہیں کرتے ۔ مرتے ہیں یا زخمی ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شہری کسی کو روکنے کی کوشش کرے تو جواب آتا ہے: ’تو ماما لگدا ایں! جا اپنا کم کر!‘ سو ان کے سامنے دانشمندی کی موتی بکھیرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مرنے دوزخمی ہونے دو انہیں۔ ان کے لیے یہ ہی بہتر ہے۔
اورسادگی ملاحظہ ہو ہمارے حکمرانوں کی ۔ احمد پور شرقیہ کے متاثرین کو بیس بیس، دس دس لاکھ روپے دیے جا رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرِ عام کان پکڑا کر بارہ نمبر کے لتر سے چھترول کرنی چاہیے تھی جیسے ایک سمجھدار باپ ناہنجار اولاد کی کرتا ہے۔ پر چھترول سے بھی کیا سدھرنا اس قوم نے جسے سو جوتے سو پیاز کھانے میں بے حد صواد آتا ہے! حکمرانوں کی بے حسی دیکھیے انہیں پاراچنار کے لوگوں کا خون نظر ہیں نہیں آتا ۔ شاید پانی ہے ان کے لیے!
داؤ لگانے کے چکر میں رہنے والی قوم کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے تو یومِ عاشقِ رسول پر بھی دل کھول کر داؤ لگایا۔ یہ ہماری ہمدردی اور مد د کے ہر گز مستحق نہیں۔ مستحق ہیں وہ لوگ جو دہشتگردی میں ناحق مارے جاتے ہیں جیسے پاراچنار والے۔ یہ تو خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے والے لوگ ہیں۔ دعوی سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر آج پھر ایسا ہی واقعہ ہو جائے تو یہ کل کے حادثے کو یکسر فراموش کر کے پھر سے پٹرول پر ہاتھ صاف کرنے میں مشغول ہو جائیں گے اور پھر مریں گے۔ کبھی نہیں سدھیریں گے چاہے ہرروز ٹینکر الٹتے رہیں۔
اور ایسا بھی نہیں کہ یہ جاہل ہیں، بے وقوف ہیں۔ اپنے مطلب کی باتیں پوری سمجھ میں آتی ہیں انہیں۔ کام کرتے نہیں اور مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں۔ ان سے زیادہ کام ان کی عورتیں کرتی ہیں۔
اس ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی بہت بڑا خطرہ ہے۔ خاندانی منصوبہ آبادی اور بہبود آبادی قسم کی وزارتیں سفید ہاتھی ہیں۔ اب انہیں ختم کر دینا چاہیے اور لوگوں کو اشتہارات کے ذریعے آگہی دینے کا سلسلہ بھی بند کر دینا چاہیے ۔ عقل سے اس قوم کو دشمنی ہے اور جہالت سے عشق لہذا انہیں مرنے دوحرام موت۔ آبادی میں اضافے پر قابو پانے کا اس سے بہتر کوئی اور نسخہ نہیں!