(ذوالفقار علی )
یہ سوال بہت سادہ سا ہے مگر پھر بھی اس سوال کا جواب دینا کافی جان جوکھوں کا کام ہو سکتا ہے۔ سوال کا جواب معروضی حالات کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھتے ہیں۔ ذرا ٹھہریے سوال پرکھنے سے پہلے کچھ بنیادی اصول پر بھی سوال کر لیتے ہیں تاکہ معترض حضرات کُھلے دل کے ساتھ بات سُن سکیں اور پھر اپنی بھی بات رکھ سکیں۔
سوال اُٹھانا بنیادی حق نہیں ہے؟ سوال اُٹھانے سے کوئی غدار وطن ہو سکتا ہے؟ سوال کی چوٹ سے بند دروازے وا نہیں ہو سکتے؟ کیا کچھ ادارے یا شخصیات سوال کی گانٹھ میں نہیں سما سکتے؟ کیا سوال کی نوعیت سے کسی کے اچھے یا بُرے ہونے کا معیار طے کیا جا سکتا ہے؟ کیا سوال کرنے والے کو دبا کر مسئلے کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے؟
جو لوگ میرے اوپر والے سوالوں کی معتبر حیثیت سے متفق نہیں ہیں وہ بے شک آگے کا حصہ نہ پڑھیں کیونکہ ہو سکتا ہے اُن کو غصہ آ جائے یا اُن کا دل دُکھے۔!!
اب آگے بڑھتے ہیں اور اپنے عنوان کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ تین چار بنیادی چیزوں کے حوالے سے پرکھا جا سکتا ہے۔
1۔ سیاسی حالات
2۔ سماجی ڈھانچوں کی نوعیت
3۔ ثقافتی طور اطوار
4۔ معاشی سر گرمیاں
مندرجہ بالا نکات کا جائزہ لیں تو بات سمجھ آتی ہے اور جب بات سمجھ آنے لگتی ہے تو پھر سوال اُٹھانا بھی آ جاتا ہے۔ آئیے پہلے ذرا سیاسی حالات کا جائزہ لیں اور سوال اُٹھائیں۔
سیاسی حالات
سیاست کا سادہ سا مطلب ہے اپنے اپنے نظریات یا نقطہ نظر کو پھیلانے کیلئے لوگوں کو قائل کرنا اور جوڑنا۔ اس طرح کی کوشش کو مختلف طریقوں سے کیا جا سکتا ہے ہر کسی کی اپنی اپنی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ مگر سیاست کے بُنیادی اصول انسانی بنیادی حقوق یا اصولوں سے ہرگز متصادم نہ ہوں کیونکہ انسان نے لاکھوں کروڑوں سال کے سماجی ارتقاء کے بعد کچھ اصول طے کیے جن کے پیچھے ہر دور کے اپنے اپنے معروضی حالات اور تقاضے تھے۔ اُن حالات اور تقاضوں سے سیکھ کر وہ اصول طے پائے۔
جیسا کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی بنانا میرا حق ہے۔ ہاں اُس کا منشور آئین سے متصادم نہ ہو۔اپنے طبقے یا لوگوں کو منظم کرنا اور پُر امن تحریک چلانا بھی میرا حق ہے۔ میرے حق پہ ڈاکہ ڈالنے والے کا محاسبہ کرنا اور اُن کے خلاف قانونی کاروائی کرنا بھی میرا حق ہے۔ مُجھے لوٹنے والے، مجھے مارنے والے یا مجھے خوف زدہ کرنے والے کو روکنا اور عدالت سے انصاف پانا بھی میرا حق ہے۔
اس طرح بہت سارے حقوق ہیں جو ریاست اور اُس کے اداروں سے وابستہ ہیں کیونکہ ہم ریاست کے بندوبست کا حصہ ہیں۔ جب حقوق کی بات ہوتی ہے تو پھر فرائض بھی لازمی طور پر نبھانے ہوتے ہیں۔ جب میں ریاست سے حقوق مانگتا ہوں تو بدلے میں ریاست کی حیثیت اور اُس کے آئین کی عزت کروں اور اُن پے تہہ دل سے عمل بھی کروں۔
اب ہم نے ایک چھوٹا سا خاکہ دماغ میں بٹھا لیا کہ حقوق اور فرائض آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان ریاست کے آئین جس میں سب کے حقوق اور ریاست کے امور بذریعہ پارلیمنٹ اتفاق رائے سے پاس ہو چُکے تو پھر آئین کو پھاڑ کے پیروں تلے روندنے والے کس حیثیت سے آج تک پاکستان سے مراعات لے رہے ہیں؟ کس حیثیت سے اپنے آپ کو عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ اور کس حیثیت سے عدالتوں کا سامنا کرنے سے عذر کرتے ہیں؟ اور کس حیثیت سے وہ سب سے زیادہ محب وطن ہونے کے دعویدار ہیں؟ اُن سے سب کو ڈر کیوں لگتا ہے؟ اُن سے سوال پوچھتے ہوئے ہمارے ہاتھ پاوں کیوں پھول جاتے ہیں؟
عدالتیں انصاف دیتی ہیں؟ عوام کے فیصلوں کو دل سے قبولا جاتا ہے؟ عوامی لیڈران کو وہ اختیارات استعمال کرنے دئیے گئے جو آئین میں درج ہیں؟ ہر شخص کو آزادی سے بولنے، لکھنے اور رہنے کا حق دیا جا رہا ہے؟ مذہب فرقے اور سیاسی وابستگیوں کی بنا پر آزادی ہے؟ میرے خیال میں نہیں۔
تو کیا سیاسی طور پر یہ ریاست اُس نہج پر نہیں پہنچ سکی۔ جہاں 70 سال کی زندگی میں دوسری ریاستیں پہنچ پائیں؟ میرے خیال میں نہیں۔ بس ریاست کے حکمرانوں نے پہلا سبق سیاست سے نفرت کرنا سکھایا۔ وسیع عوام سیاست کو قابل نفرت سمجھتے ہیں۔ یہ ہم جیسے عام لوگوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس صورتحال میں یہاں رہنا کافی مُشکل کام ہے اور دن بدن مُشکل سے مُشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
سماجی ڈھانچوں کی نوعیت
سماجی ڈھانچے سیاسی ڈھانچوں سے شدید طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ ہماری سیاست کی گاڑی انفرادی طاقت کی پٹڑی پر دوڑ رہی ہے۔ کچھ ادارے بہت طاقتور ہیں وہ سب کو اپنے تابع رکھتے ہیں اور اُن کی منشا یا مرضی کے بغیر کُچھ کرنا “اوکھا” کام ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے سماجی ڈھانچے بھی طاقت کے سروں سے اپنا سرا جوڑنے کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔ چھوٹا گودا بڑے گودے سے جُڑے گا، چھوٹا سرمایہ دار بڑے سرمائے دار سے جڑے گا، چھوٹا بدمعاش بڑے سے اور ” نکا ” تھانیدار ” وڈے ” تھانیدار سے یہ سلسلہ اب اتنا مضبوط و منظم ہو چُکا ہے کہ ہر کوئی ایک دوسرے کا محتاج ہو گیا۔ مگر اس کے منفی اثرات ہمارے پورے سماجی ڈھانچوں پر پڑے جن کی وجہ سے اب لوگوں کے لوگوں سے رشتے اور دُکھ درد نبھانے کے دن جاتے رہے۔ اب کمیونٹی کی سطح پر ملنا بیٹھنا یا آپس میں وقت گُزارنا ” اوکھا ” ہو گیا ہے۔ تو ادھر رہنے کا کیا فائدہ۔
ثقافتی طور اطوار
ثقافتی گُھٹن دن بدن کھائے جا رہی ہے۔ جو چیز عام لوگوں کو آپس میں جوڑ کے رکھتی ہے اُس سے حُکمران ڈرتے ہیں پھر وہ اپنے ڈر کو قابو کرنے کیلئے لوگوں کو ثقافتی طور پر ” کھیرو کھانڈ ” کرتے ہیں۔ عام طور پے وہ ایک آزمودہ نسخہ آزماتے ہیں۔ لوگوں کو مذہب کی بنا پر تقسیم کر دیتے ہیں اور ایسی ثقافتی رسموں ریتوں کو جو لوگوں کو ملاتی ہیں خوشی دیتی ہیں بذریعہ مذہب گُناہ کی تہمت ٹھوک کر متروک کروا دیتے ہیں۔ بس رہے نام اللہ کا۔
اب ثقافتی گھٹن کی یہ حد ہے کہ میری ماں اپنے بیٹے کی شادی پر سہرا نہیں گا سکتی۔ کیونکہ گانا گناہ ہے۔ جہاں سہرے گانا بھی گُناہ ٹھہرے اُس دھرتی پر کیسے رہا جائے مجھے سمجھ نہیں آتا۔
معاشی سرگرمیاں
کہتے ہیں ہمارے بچے قرض دار ہیں۔ ہم نے ورلڈ بینک اور دوسرے ممالک و اداروں کے لگ بھگ 120 ارب ڈالر دینے ہیں۔ چلیں کوئی بات نہیں دے دیں گے۔ مگر یہاں تو لوٹ کھسوٹ رُکے۔ پانامہ کا ذکر تو ٹھہرے، آڈٹ سے مُبرا ملکی ادارے کسی قانون میں تو آئیں، کمیشن مافیا کا قلع قمع تو ہو، کرپشن سے کمائے گئے پیسوں میں پلی بارگیننگ کی رسم تو ٹوٹے، سسٹم کے اندر کی کرپشن کا کوئی حل تو نکلے، بجٹ کی تقسیم پر دھرے سوال تو ادھر ادھر ہوں، کشکولوں کے منہ تو بند ہوں، سرکار کی جائیداد کی عوام وارث تو ٹھہرے، اسلحے پر لاگت تو کم ہو، تجارت کا پہیہ تو گھومے۔
صاحب کس کس زخم کو جھیلیں، یہاں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں