کیا اسلام ایک ضابطہ حیات ہے؟
از، ڈاکٹرعرفان شہزاد
اسلام کیا ایک ضابطہ حیات ہے؟ یہ بحث اسلامیان کے درمیان کچھ عرصہ ہوا پھر سے شروع ہوئی، جو دو طرفہ دلائل میں کافی طویل ہوگئی۔ اس پر میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتا ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بیانیے میں اس بحث کا حل موجود ہے۔
فریقین کا موقف میرے سامنے ہے۔ اور میرا تاثر ہے کہ یہ اختلاف ضابطہ حیات کی مختلف تعریف اور تعبیر کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، عملاً اور نتائج کے اعتبار سے ایک ہی ہے۔ بہتر ہے کہ ایک دوسرے کا موقف اچھی طرح جان لیا جائے تاکہ وقت اور توانائی بے جا خرچ نہ ہوں، اور طویل بحث و مباحثہ کے بعد معلوم ہو کہ دونوں درحقیقت ایک ہی صفحہ پر تھے۔
میں اس قضیے، کہ اسلام ضابطہ حیات ہے یا نہیں، کو اس انداز میں دیکھتا ہوں کہ انسانی زندگی کی اقدار کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جو ناقابلِ تغیر یا مستقل نوعیت کی ہیں اور دوسری وہ جو تغیر پذیر ہیں۔ مستقل اقدار کے لیے اسلام نظام یا ضابطہ دیتا ہے لیکن متغیر اقدار کے لیے اصول دیتا ہے، نظام بنا کر نہیں دیتا۔ بہت سے فکری مسائل اس بنیادی فرق کو ملحوظ نہ رکھنے سے پیدا ہوتے ہیں کہ اسلام انسانی زندگی کی ان دو مختلف اقدار کو دو مختلف انداز میں دیکھتا اور حل کرتا ہے۔
اسلامی احکامات اور تعلیمات اپنے اطلاقات میں اقدار کے اس فرق کو ملحوظ رکھتی ہیں۔ مثلاً عقائد مستقل قدر ہے۔ چنانچہ اس کی تعلیم بھی مکمل طور پر مستقل نوعیت کی ہے اس میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا۔ دوسرے درجے میں عبادات کا نظام ہے جو بنیادی طور پر مستقل نوعیت کا حامل ہے لیکن تغیر پذیر انسانی زندگی سے عملاً متعلق ہونے کی وجہ سے تغیر بھی قبول کرتا ہے۔ سماجی سطح پر نکاح و طلاق کے احکام، مرد و عورت کے اختلاط کے حدود، خورونوش، وراثت اور حدود کی سزائیں مستقل نوعیت رکھتی ہیں، اور ایک نظام کی صورت میں ہمیں ملتی ہیں، تاہم ان کے اطلاق میں بھی تغیرات کا لحاظ رکھا گیا ہے، کیونکہ اطلاق تغیر پذیر حالات اور سماج پر ہو رہا ہوتا ہے۔
اس کے ہٹ کر، تمدنی مظاہر مثلاً سیاست، معیشت، ثقافت وغیرہ ، مکمل طور پر تغیر پذیر اقدار ہیں، اس لیے ان سے متعلق احکامات بنیادی طور پر صرف اصولی نوعیت کے ہیں ، نظام یا ضابطہ کی شکل میں نہیں ہیں۔ تمدن انسان کا ذہنی اور مادی ارتقاء ہے، جس میں تمام انسانیت برابر کی شریک ہے۔ اس کے ارتقاء میں اچھے اور برے ، پسندیدہ اور ناپسندیدہ اور باہم اختلافی اقدار سب نمو پاتی اور وقت کے ساتھ اپنی افادیت کی وجہ سے ترقی کرتی یا اپنی کم مائیگی کے وجہ سے مٹ کر دوسری اقدار کے لیے جگہ خالی کر جاتی ہیں۔ اس تغیر پذیر تمدن کے لیے اسلام اپنے پیروؤں کو چند اصولی احکامات دے کر باقی سب ان کے عقل اور تجرباتی فہم پر چھوڑ دیتا ہے۔ یہاں صرف دو مثالیں دی جاتی ہیں
اسلام، معیشت میں، لین دین میں ایمان داری اور دوسرو ں کے حقوق کا لحاظ کرنے کی آفاقی تعلیم دے کر سود ، جوا، غرر وغیرہ کو حرام قرار دے کر انسان کو بنیادی اصولی رہنمائی دینے پر اکتفا کرتا ہے کہ اپنے تمدن سے ارتقاء پانے والے معاشی نظاموں میں ان اصولوں کو مدّ نظر رکھ کر جو بھی معاشی قوانین اور نظام بنانے ہیں بنا لیے جائیں۔
یہی معاملہ سیاست کا ہے۔ تمدنی تغیر کی حقیقت کے پیشِ نظر یہ ضروری تھا اور نہ ہی قابلِ عمل کہ ایک بنا بنایا نظامِ سیاست مسلمانوں کو تھما دیا جاتا کہ تا قیامت اس پر عمل کریں۔ اسی لیے عدل و انصاف کی آفاقی اقدار کی تاکید کے بعد، شورائیت کا اصول دے کر انہیں ہدایت کر دی گئی کہ تنازع کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کریں اور اجتماعیت سے متعلق اسلامی احکامات اختیار کریں۔
عام لوگوں کے لیے اس سے بہتر کوئی ہدایت ہو نہیں سکتی کہ وہ آپس کے معاملات مشورہ سے طے کریں۔ اور اس لحاظ سے ان میں کوئی چھوٹا بڑا نہ ہو۔ مشورہ میں برابری کا اصول خود بخود موجود ہے۔ مشورہ اہل رائے سے لیا جائے گا یہ عقلی اصول پہلے سے طے شدہ ہے۔ یوں دیکھیے تو مشورہ کرنے میں حکمران کے نصب و عزل سے لے کر مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا ہر پہلو شامل ہے۔
اب یہ انسانی عقل اور تمدنی حالات کا معاملہ ہے کہ لوگ مشورہ کرنے کے لیے کون سا طریقہ اپنے حالات کے مطابق اپناتے ہیں۔ اگر آبادی کم ہو جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مدینہ کے قبائلی دور میں تھی تو ‘الصلوۃ الجامعہ’ کا اعلان کر کے سب کو بلا یا جا سکتا ہے، اور اگر آبادی بہت زیادہ ہو جائے تو عوام کی طرف سے ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعے بھی مشورہ کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ جمہوریت کے موجودہ نظام میں کیا جاتا ہے۔
اب اگر کوئی اسلام کی اصولی تعلیمات کو انسانوں کے بنائے جانے والے نظاموں کی تشکیل میں بنیادی حیثیت کی وجہ سے ضابطہ ہی شمار کرتا ہے تو کر سکتا ہے اور جس کے نزدیک ضابطہ سے مراد ایک بنا بنایا نظام ہے تو وہ اسے ضابطہ قرار نہیں دیتا، تو بھی حق بجانب ہے۔ لیکن نتیجہ کے اعتبار سے بات یکساں ہے، کہ دونوں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان شتر بے مہار نہیں کہ اپنے لیے جو چاہیں نظام بنا لیا کریں، وہ اپنے بنائے ہوئے نظاموں میں بھی خدائی ہدایات کے پابند ہیں۔
عمدہ تحریر ڈاکٹر صاحب.
عمدہ اور عام فہم مضمون ہے اور ضرورت اسی امر کی ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو اسی طرح عام فہم اور سادہ زبان میں بیان کیا جائے۔ سارا معاملہ خراب ہی لفاظی اور علمیت کی جھاڑ چھنکار کی وجہ سے ہوتا ہے۔
پسندیدگی کا شکریہ حضرات