آئین کی شق اسلام : جواب حاضر ہے
از، صفدر رشید
حمزہ عباسی نامی ایک ایکٹر نے جو رمضان ٹرانسمیشن کر رہا تھا ایک پروگرام میں ختمِ نبوت کے حوالے سے احمدیت کو ریاست کی طرف سے کافر قرار دیے جانے پر علما اکرام سے سوال کیا۔ حمزہ عباسی کے سوال کرنے پر اتنا ہنگامہ مچا دیا گیا حالانکہ سوال کا مناسب جواب نہ دینے پر زیادہ ہنگامہ ہونا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر خالد صاحب نے تو مکمل ہی اُن کی حمایت کر دی اور کہہ دیا کہ ریاست کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو کافر قرار دے۔
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
ہمارا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ احمدیت یا کسی بھی کونے سے اسلام کے خلاف یا اُس پر اٹھائے جانے والا سوالات کا موثر جواب دیا جانا چاہیے ورنہ اُس ایک سوال کی کئی شاخیں جنم لیتی رہتی ہیں۔ حمزہ عباسی نے یہ سوال ہی کیوں کیا۔ اس پر واویلا مچانا یا اس کی مذمت کرنا دوسرا مسئلہ ہے ۔سردست ہم حمزہ عباسی کے سوال کا جواب دینا چاہیں گے جنھیں ہمارے دیسی لبرل بھی خاموشی سے قبول کئے ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے۔ جب آئین کی بات کی جائے گی تو سب چیزیں اب قانون اور آئین کے مطابق زیرِ بحث آئیں گی۔ آئین میں یہ سب چیزیں ہی کیوں ہیں تو یہ دوسری نوعیت کا سوال ہے۔ جس کی بازپرس الگ ہونی چاہیے۔ پاکستان کے تہتر کے آئین میں کہہ دیا گیا کہ پاکستان کا مذہب اسلام ہوگا۔ اور کسی بھی قسم کی قانون سازی اسلام کے خلاف نہیں ہوگی۔ اب اگر کوئی کام یا قانون سازی اسلام کے بنیادی قوانین کے خلاف ہوتی ہے تو وہ آئین کی خلاف ورزی کہلائے گی۔ اب جب احمدیت کی آواز زور پکڑنے لگی تو سب سے پہلے یہ سوال کھڑا ہو گیا کہ کیااحمدیت بھی اسلام ہے؟ یاد رہے کہ اسلام ایک آئینی شق ہے۔ آئین نے اپنی شقوں کو مذہبی نہیں آئینی طور پر لینا ہوتا ہے۔ لہٰذا جب آئین کی’’کور شق‘‘ ہی پر سوالیہ نشان پڑ گیا تو وضاحت کے بغیر آئین کیسے آگے چل سکتا ہے؟
جنابِ حمزہ عباسی!
ریاست نے اپنے آئین کی شق کی توضیح کی تھی کہ بتائیں کہ اسلام ہے کیا۔ کیا ایسا اسلام ہے ،کیا یہ اسلام ہے، کیا وہ اسلام ہے؟ کیا آئین اپنی بنیادی شق اسلام کی وضاحت کے بغیر ہی اُسے اپنا مرکزی حصہ بنائے رکھ سکتا تھا؟اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر سمجھنے کے بعد بھی سمجھ نہ لگے تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے؟
لہٰذا احمدیت کے لیے یہ وضاحت مانگی گئی تو علما کرام نے اسے اسلام کی ایک شاخ کی بجائے ایک الگ سے اختراع قرار دیا اور اسے اسلام سے فاصلہ رکھنے کا کہا۔اور اسلام اور احمدیت کو ایک سمجھنے سے خطرات سے آگاہ کیا۔ یہ سب باتیں ایک آئین کی ضرورت تھیں۔عدالت میں بعض اوقات جائیداد کے مالکان کی پوری وضاحت مانگی جاتی ہے کہ بتائیں کون اس کا اصلی وارث ہے تو وکلا پورے دلائل سے بتاتے ہیں کہ یہ جعلی ہے اور یہ اصلی ہے۔ عدالت کا نہ جائیداد اور نہ جعلی سے اورنہ اصلی مالک سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ وہ تو قانون کی وضاحت چاہ رہی ہوتی ہے۔
میرے خیال میں دیسی لبرل آج کل جس گھیرے میں لینے کی کوشش میں ہیں انھیں چاہیے کہ دلائل اور بحث مباحثہ کا سامنا کریں۔ اور پھرسوال اٹھانے کے بعد مطمئن ہونا بھی سیکھیں۔