اسلام پر ملائیت کے اثرات ، از رانا تنویر عالمگیر
تبصرۂِ کتاب از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
ہرمذہب اپنے ارتقائی مراحل میں اس مرحلے میں ضرور داخل ہوا ہے جب اس کا مقصد فراموش کر دیا جاتا ہے اوراسے گروہی شناخت اور مسلکی و ذاتی مفادات کا اسیر بنا لیا جاتا ہے۔ مذاہب میں سے یہود یعنی اہل کتاب کے ان سارے ارتقائی مراحل کو ایک طرف معلوم تاریخ کے صفحات میں اور دوسری طرف قرآن میں بیان کر کےخدا کے دین کی آخری قسط بنام اسلام کے پیروکاروں کے لیے محفوظ صورت میں پیش کر دیا گیا ہے کہ وہ اس آئینے میں اپنی بدلتی بلکہ بگڑتی صورت دیکھتے رہیں اور احساس کرنے والے فیصلہ کر سکیں صورت کتنی بگڑ چکی ہے۔
اسلام کے پیروکاروں نے بھی مذاہب کی تاریخ کےان تمام مراحل کو گزارا ہے۔ دین اپنے مقصد یعنی افراد کے تزکیہ نفس کی بجائے، گروہی، جماعتی، مسلکی بلکہ مشربی مفادات کے تحفظ اور انھیں پورا کرنے کا آلہ بنا دیا گیا ہے۔ رسمیت، ظاہریت، ریاضیاتی فقاہت، منطقی استدلالات میں امت مسلمہ، یہود کے قدم بقدم چلی ہے۔ مسیحؑ کے مقابل فقیہوں اور فریسیوں کا احوال پڑھیے آپ کو اس میں آج کے صاحبان جبہ و دستار کے چہرے واضح نظر آئیں گے۔
رانا تنویر عالمگیر اپنی مٹی سے جڑا، آزاد فکر پیروِ مسیح ہے، جو اس ہمہ گیر بگاڑ پر نوحہ کناں ہے، اس کا اظہار اس کے قلم سے کہیں دکھ، کہیں غصے، تو کہیں فریاد کے لہجے میں ابل پڑتاہے۔
ہمارا نوجوان جب دین کی طرف راغب ہوتا ہے تو بد قسمتی سے اسے دین کی کھلی اور سیدھی شاہرہ نہیں، بلکہ ان پگڈنڈیوں کے جال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو دین کی فرنچائز کھولے ملاؤں اور صوفیوں نے اپنے مسلک کی ترویج کے لیے بُن رکھا ہے۔ ان بھول بھلّیوں میں گم ہو کر یا تو یہ نوجوان ہمت و حوصلہ ہار دیتا ہے اور دین سے ہی بے زار ہو جاتا ہے، یا دین کو غور و فکر کے دائرے سے نکال کر، محض رسمیت پر عمل پیرا رہ کر اپنے روحانی وجود کی سکون آوری کی کوشش کرتا رہتا ہے، یا پھر وہ کسی نتیجے تک پہنچنے کی جلدی میں کسی ایک پگڈنڈی سے وابستہ ہو کرکنویں کا مینڈک بن جاتا ہے اور پھر وہ ساری دنیا کو اس کنویں میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس چکر ویو سے بہت کم نکل کر دین کی کھلی اور سیدھی شاہراہ تک پہنچنے کا حوصلے کر پاتے ہیں۔ رانا تنویر اسی کھلی اور سیدھی شاہراہ کا مسافر ہے، اسے دین سے محبت ہے اور وہ اس پر لگے ان بد نما داغوں کو دھونا چاہتا ہے اورجب دھو نہیں پاتا تو ان بھول بھلیوں میں بھٹکتے دوسروں مسافروں کو متوجہ کرتا ہے، انھیں شاہراہ کا رستہ دکھاتا ہے تاکہ ان کا یہ سفر رئیگاں نہ جائے اور وہ کسی ٹھکانے لگ سکیں۔
سماج سے وابستگی اور گہر ے مشاہدے اور قلم کی ہنر نے اسے وہ صلاحیت بخشی ہے کہ سماج کے ان ناسوروں پر اپنا نشتر رکھتا ہے اور بے دریغ رکھتا ہے۔ رانا تنویر ایک بیدار مغز، پرعزم نوجوان ہے، جس کو عقل و فکر کی وافر توانائی عطا ہوئی ہے، دکھائی دے رہا ہے کہ وہ سماج کے لیے عصائے موسوی کا کام تو کر رہا ہے، ان مسائل کا تریاق بھی اس کے ید بیضا میں دستیاب ہے جو کتاب میں جابجا تو بیان میں آیا ہی ہے، آخری ابواب میں متعین طور پر بھی موجود ہے۔ کئی جگہ رانا صاحب کے تبصروں، نتائج یا تجاویز سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے لیکن یہ علم و فہم کا سفر ہے، اس راہ کے مسافر کا ہر دن گزشتہ دن سے بہتر ہونا چاہیے۔ یہی امید ہمیں جناب رانا تنویر عالمگیر سے بھی ہے۔
خدا انہیں کامیاب کرے۔