ہیں؟ یہ تو پُر امن لوگ ہیں؟
آزادی مارچ 2019 کے شُرَکاء کے ساتھ… زیرِ نظر تصاویر میں ضلع بدین سے آئے لوگ ہیں۔ بلوچستان کے ضلع لورالائی سے آئے قافلے والوں کا کہنا تھا کہ سندھ سے آزادی مارچ شرکاء کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ان لوگوں میں سیاسی شعور اسلام آباد شہر میں اپنے ملنے والوں، اور فیس بک ٹویٹر پر قوالیاں کرنے والی کی اکثریت سے زیادہ پایا۔
یہ دہقانی مزاج، برانڈڈ گلاسِیز سے سیاسی، تزویراتی و معاشرتی مظاہر کو دیکھنے والی نظر کے لیے گلیمر سے تہی دامن ہیں۔
You guess, they’re no glamorous, Shani, Manni, (… aspirated accented English, and codes cluttered Urduish guys)
یہ ٹوٹی جوتیوں والے، در آمد شدہ پرفیوموں کو ساری زندگی بالکل شعور نا رکھنے والے آئین کا نام لیتے ہیں… پورے آئین کا… یہ حاشیہ بُرد اس آئین کو کاغذ کا ٹکڑا نہیں سمجھتے، بَل کہ، وفاقِ پاکستان کی کڑیوں کا جوڑ مانتے ہیں۔ یہ ہی مجھ ایسے جاہل کا ان سے سیاسی ناتہ ہے، ویسے تو ہم احساسی کا انسانی ناتہ بھی تو سب ناتوں سے بڑا ناتہ ہے۔
ان کی باتوں میں جمہوریت لفظ بار بار آتا ہے۔ یہ جمہوریت کو طعنہ نہیں سمجھتے؛ رنگ بَہ رنگے موسمی مسیحاؤں کی سیاست نہیں، ریاست بچاؤ، (یہ سیاست کو احساسِ گُنہ سے جوڑنے والے نہیں) یہ تعلقاتِ عامہ کے محکمہ کی فلموں سے ہیرو اور آخری آس کی تصویروں کے پجاری نہیں۔ پھٹے پرانے کپڑوں والے John Steinbeck کی کہانی The Breakfast کے وہ غریب ہیں جن کی عزتِ نفس ہے، جو چندے کی بیٹری پر نہیں چل رہے۔
چرب زبانوں کے سایے میں پلی بڑھی اس قوم میں ایسا رویہ کیا کوئی کم چیز ہے؟
اور ہاں، انہیں ڈانس نہیں کرنا آتا، مگر آپ ان کے پاس جا کر بیٹھیے، یہ آپ کو اپنے پاس قہوہ پلانے کی دعوت دیں گے؛ ان سادہ لباسوں اور سادہ برتنوں میں کھانا اور قہوہ پکانے والوں کو سرکاری مَیسوں سے کوئی ترچھے بدن والا انہیں تیر والی گاڑیوں پر کھانا دینے نہیں آتا۔ یہ غریب نظر آتے ہیں، وہ غریب جن کی تصویریں لے کر، اور ان کو اپنے four coloured brochures جگہ دے مستقبل قریب و بعید میں کئی ایک این جی اوز والے اپنی برانڈڈ پتلونوں اور آئی فون ایکس ایکس ایکس کا اہتمام کریں گے۔
ہاں، انہوں نے بڑے شہروں والوں کی کار و باری اسطورہ، یعنی business myth، کو توڑنے کا اہتمام کیا ہے کہ یہ دہقانی، یہ چہرے پر دھاڑیں سجائے، یہ تو صرف دہشت گرد ہوتے ہیں؛ ان سے خوف وابستہ کر کے بڑے بڑے ملکوں کے بے چارے ٹیکس دینے والے کے پیسے سے NSA جیسے ادارے کھڑے ہوئے ہیں، Brooklyn Institutes، Centre for bla bla Studies وغیرگان کھڑے ہوئے۔
ان لوگوں نے اپنے پر امن احتجاج سے دکھا دیا ہے کہ وہ سیاست، آئین، اور جمہوریت کا پاس رکھتے ہیں؛ احتجاج کا حق برتتے ہیں، پُر امن رہ کر…
کیا یہ اپنے وطن میں عام ہے…
ہم سٹیریوٹائپس کی موتیا اتری آنکھوں والے ہر کسی کے ہر لمحے کو اپنے مستقل مزاج تعصب کے کنویں میں رہ کر دیکھنے کے عذابِ الیم میں مبتلا لوگ ہیں۔ لوگوں کے وجود، فکر اور عمل کے لمحات کو تقسیم، تجزیہ و تحلیل کر کے دیکھیے… اناء پگھلے گی تو درُون کی انسانیت بھی پسیجے گی، اور علم اپنے دروازے کھولے گا۔
از، یاسر چٹھہ