اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور وفاقی تعلیم میں تعلیمی شراکت داری
از، یاسر چٹھہ
وقت کچھ نہیں ہوتا بہ جُز دو واقعات کے بیچ کے وقفے کے، یہ کسی نے وقت کے تصور کہ وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی۔ جو کہنا ہے راست انداز نہیں کہہ سکوں گا، کچھ وقفہ دیتا ہوں۔ بیچ میں کچھ باتیں سن لیجیے۔
چند دن پہلے اپنے ایک دوست، جن کا نجی کوچنگ سینٹر کا اچھا بھلا کار و بار ہے، ان سے بعد شام کے چائے پر ملاقات ہوئی۔ شام کے ان سَموں میں کہ جب اندھیرا ہو چکا تھا۔ انہیں کالج سے چھٹی ہوئے اس وقت تک سات گھنٹے گزر چکے تھے، اور راقم دفتر سے ابھی آ کر ان کے ساتھ ایک مقامی چائے خانے پر ملاقات کے لیے پہنچا تھا۔
دونوں کے چہروں پر، بالوں پر، آنکھوں کی بھنوؤں پر، آنکھوں کے نیچے پڑھے گہرے خاکستری حلقوں کی نیم قوسوں پر، زبان کی تھرتھراہٹ پر، لفظوں کے ذہن سے نکل کر منھ سے ادا ہونے کی سستی کے اندر، اور پورے کے پورے وجود پر تھکن اپنے آثار کی مُُنھ سےکہے بغیر چُغلی کھا رہی تھی۔
مجھ سے پہل ہو گئی، بھول گیا تھا کہ اب دوست کو یہ نہیں کہنا تھا، اور کہنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا۔کہہ دیا کہ یار صبح کے وقت سے پڑھانا شروع ہوئے ہو، پہلے کالج، اس وقت تک کوچنگ سینٹر، کچھ جی لو، اپنے لیے، اپنے بچوں کے لیے، کیسے خَرِ روز گار و دولت بنے ہوئے ہو۔
ایک انگلی سے کسی دوسرے کی جانب اشارہ تھا، معلوم نہیں تھا کہ چار انگلیاں اپنی طرف ہیں۔ دوست فوراً بولے، آپ کا اپنے بارے کیا خیال ہے؟ خود صبح کے نکلے ہو، اور اس وقت گھر جاؤ گے۔ کتنے کمائے اور کس چکر میں ہو؟ اپنے روَیےّ میں کون زیادہ عقل سے تہی معلوم ہوتا ہے؟
بہ ہر کیف، کچھ تعلقات میں نا تو ہارنا، اور نا ہی ہرانا مقصود ہوتا ہے۔ بس نفع و نقصان کی اکائیوں کو ایک طرف کر کے ہنسی میں لمحے کو اڑا دینا ہوتا ہے۔ اڑا دیا، وہ لمحہ بھی اڑا دیا گیا۔ لیکن ساتھ ہی خود ایک بار سوچا کہ اپنے نفع و نقصان کی اکائیاں ہیں کیا؟ یہ بہت سارے دنیا دار دوستوں کو سمجھانے میں لفظوں، اور ان لفظوں کی اولاد، تمثیلوں نے میری کبھی موزوں انداز سے مدد نہیں کی۔
کبھی کسی وقت کسی کو کہا تھا کہ میرے ہر کام سے کشید لطف کی اکائی اس کام سے حاصل شدہ خوشی اور تسکین ہے۔ اس کے چہرے پر سوال قائم رہے تھے، میں نے کہا تھا، کوئی اور سوال کر لیجیے، بس میرے پاس یہ ہی عدم جواب سا جواب ہے۔
کچھ ہفتے پہلے فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر ڈاکٹر علی احمد کھرل کو فائز کیا گیا۔ گو کہ بہت دیر کر دی گئی تھی بہ ہر حال جو حالات کو منظور۔ یہ وفاقی تعلیم کے لیے راقم کے فہم میں ایک بہت بھلا فیصلہ تھا۔ بہت خوشی تھی۔
اگلے ہی دن کالج میں پہلی کلاس لینے کے لیے جانے ہی والا تھا کہ ڈاکٹر علی احمد کھرل صاحب کی موبائل فون پر کال آئی۔ جی، آپ کو اور راشد سلیم کو فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن میں آن ڈیوٹی کیا جا رہا ہے۔
گو کہ لہجے میں منشاء پوچھنے کا لحن تھا، لیکن منع کرنے کی ہمت کیوں کر ہو سکتی تھی۔ پہلے دو تین مواقع پر فیڈرل ڈائریکٹوریٹ میں کسی ذمے داری لینے سے دیگر احباب کو مختلف وقتوں میں منع کر چکا تھا۔ تو اب کیا؟ اب کہا، جی ٹھیک ہے، جیسے آپ کہتے ہیں۔
نئی ذمے داری پر ابھی پہلا ہی ہفتہ چل رہا تھا۔ جمعہ کے بعد ہفتہ وار دو چھٹیاں آ رہی تھیں۔ لیکن سنیچر کو صبح ساڑھے پانچ بجے شیخوپورہ کے پاس ایک گاؤں میں دو تین سکول دیکھنے ہیں۔
مزید دیکھیے: ہمارا بنیادی نظام تعلیم اور اس کا مستقبل از، فیاض ندیم
صبح صبح اٹھتے ہیں۔ ناشتہ نہیں کرتے۔ سفر بہت ہے۔ موہمن والی گاؤں جانا ہے۔ اسلام آباد سے مُُنھ اندھیرے موٹر وے سے تیزی سے وہاں پہنچتے ہیں۔ سابق چیف آف نیول سٹاف، ایڈمرل آصف سندھیلہ ریٹائرڈ، جیسے درویش صفت انسان ہماری میزبانی کو موجود ہیں۔
چیف صاحب کی بات سنیے۔ ریٹائرمنٹ ہونے کو تھی تو چیف صاحب کو اس وقت کے وزیر اعظم نےکہاکہ سندھیلہ صاحب، کس ملک کا سفیر بننا منظور ہے، بتائیے۔ آپ جواب دیتے ہیں، نہیں سفیر نہیں بننا۔ مجھے اپنےگاؤں کا قرض ادا کرنا ہے۔ مجھے اپنے علاقے کی تعلیم کے لیے کام کرنا ہے۔ مجھے سکول دے دیجیے۔ منظور ہوا۔
راقم کو طاقت ور لیکن مِٹے ہوئے لوگ بہت بڑے قد کے لوگ لگتے ہیں۔ چیف صاحب قرض کی ادائیگی کا بتا رہے تھے، مایوس دل میں جان آتی جا رہی تھی کہ امید زندہ ہے۔ کیسا قرض، کیسی عمدہ ادائیگی… ! دور دراز کے گاؤں کا سکول بچوں سے بھرا ہوا۔ کلاس روموں میں ویڈیو لیکچرز چل رہے ہیں۔ کھلے گراؤنڈ ہیں۔ سولر انرجی کے پینل لگے ہوئے ہیں۔ بچیوں کے لیے الگ ووکیشنل تعلیم کا ادارہ، بچوں کے لیے الگ۔
وہ لڑکیاں جو تعلیم حاصل کیے بغیر صرف شادی کے لیے بڑی ہوتی تھیں، اب کام سیکھ کر معیشت میں اہم فرد بن رہی ہیں۔ اب زندگی، شخصیت و کردار یک رُخا اور خطی نہیں رہا۔
وہ لڑکے جو مشکل بنا دی گئی تعلیم سے بھاگ کر زندگی سے بے زار پھرتے تھے، آج پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر کے گاؤں سے کچھ دور ہنڈا اٹلس کے کارخانے کے لیے ہنر مند افراد کے طور پر روز گار حاصل کر رہے تھے۔ وہ نوکری کا نہیں، اب نوکری ان کا انتظار کرنے لگی تھی۔
آنکھ دیکھ رہی تھے، کان سُن رہے تھے۔ سچ اپنی زبان خود ہوتا ہے۔ سنتے جاتے تھے، دیکھتے جا رہے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ اتر رہی تھی۔ آنکھیں بھیگتی جاتی تھیں۔ دل پسیجتا جاتا تھا۔کیا کیجیے؟ دل زمین بوس کر دیجیے۔ اپنے پسیجے دل کو اپنی آنکھوں میں برستے دیکھ رہا تھا۔ یہ خوشی کی اس اکائی کی تجسیم کا وہ لمحہ تھا، جس کی تصویر کشی کے لیے اکثر لفظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور آنکھوں میں کچھ اُمڈ آتا ہے، جسے چھپانا بھی چاہتا ہوں۔… آگے اس بابت نہیں۔ اب چُپ۔
وقت دو واقعات کے بیچ کے وقفے کو کہتے ہیں، وقت کی تفہیم کرانے کے لیے ایک عالم و حکیم نے کہا تھا۔ ایک واقعہ ابھی کہا بتایا، ایک واقعہ آج کا ہے۔
دفتر گئے کہ آج اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری جانا ہے۔ تاجر اور صنعت کار طبقے سے ملاقات کرنا ہے۔ وقتِ مقررہ سے دس منٹ قبل ہم وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر علی احمد کھرل، ڈائریکٹر جنرل فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ہم راہ محترمہ سعدیہ عدنان، ڈائریکٹر ٹریننگ، محترم محمد راشد سلیم، ڈائریکٹر کوالٹی انہانسمنٹ سیل، جبناب سہیل خان ایریا ایجوکیشن آفیسر نیلور اور یہ سطر کار ہے۔ جن کے پاس گئے تھے، وہ عزت والے تھے، اس لیے انہیں کسی کو عزت دینا لیے مشکل معلوم نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے وہاں جانے پر بے حد عزت دی۔
ملاقات شروع ہوتی ہے۔ صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری جناب احمد حسن مغل افتتاحی کلمات ادا کرتے ہیں۔ نہایت ضروری نِکات اٹھاتے ہیں کہ تعلیم کا شعبہ زندگی اور صنعت و معیشت کے لیے ہنر مند افراد پیدا کرے۔ اس وقت بہت کمی ہے۔ کتاب و تعلیم دنیا کی اور زندگی کی بات کرے۔
عمدہ بات ہے، عمدہ طلب ہے۔ کیا سوال ہو سکتا ہے۔ بعد میں ڈاکٹر علی احمد کھرل بات کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے نے تعلیم کو مسجد سے جُدا کر کے اسے نظر انداز کر دیا ہے۔ ہمارے سارے معاشرے کا تعلیم کے سلسلے میں بہت کردار بنتا ہے۔ تاجر اور صنعت کار کو تعلیم کو اپنانا ہو گا۔ اس میں ذمے داری لینا، انسانی ترقی اور انسانی خدمت کا اہم ذریعہ ہے۔ یہ صدقۂِ جاریہ ہے۔ یہ کئی نو جوان خوابوں کو نئی تعبیریں دینے کا عمدہ اظہار اور فلاح کا زادِ راہ ہے۔
تاجروں کے نمائندہ کے طور پر جناب اجمل بلوچ کو اسلام آباد مین کون نہیں جانتا۔ انہوں نے کئی برس قبل اسلام آباد میں ایک چھوٹی سی بچی کو مفت کتابیں اور بستہ دینے سے اپنی سماجی خدمت شروع کرنے کی عبادت کا لطف بیان کیا تو ان کی آنکھیں نم تھی۔ اس نم آنکھ نے دل پسیجے۔ وہاں موجود ہر دل کو بتایا کہ ہم سب فرشتے نہیں انسان ہیں، اور انسان کا مادہ انس سے ہے۔
لوگ بولتے گئے۔ بھلی باتیں کرتے گئے۔ ایک نو جوان کار و بار کرنے والے، سب کی ساری باتیں یں غور سے سُن رہے تھے۔ برطانیہ سے پڑھ کر آئے ہوئے ہیں۔ وہاں پڑھنے سے سیکھی اہم بات کہ انڈسٹری اور تعلیمی ڈگری کے باہمی تعلق کی بابت عمدہ اور قابل عمل تجویز دی۔ بعد ازاں اعلان کرتے ہیں کہ ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا، ہم نے اس ملک کے حال اور مستقبل کے لیے ذمے داری لینا ہے۔ ان نو جوان کا نام محمد احمد تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ صدرِ اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی اجازت سے 50 سکولوں کو گود لینے کا اعلان کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک سکول کی بالکل اپنے ذاتی خرچے سے تزئینِ نو اور اس میں نا موجود، لیکن انتہائی ضروری سہولتوں کا بِیڑہ اٹھاتے ہیں۔
یہ کچھ دنوں کے بعد دوسرا واقعہ تھا۔
وقت دو واقعات کے بیچ کے وقفے کو کہتے ہیں۔ یہ وقت کی ماہیت کے عالم نے کہا تھا۔ بیچ کی تھکاوٹ کچھ نہیں ہوتی۔ خوشی کی اکائی وقفے کے نتائج پر منحصر ہوتی ہے۔ بندہ کچھ نہیں کمات، بہ جُز کیفیتوں کے۔ صرف دو واقعات کے بیچ کے لمحوں کی کیفیت کماتا ہے۔