اسلام آباد کا سفر ، ڈاکڑ ندیم شفیق صاحب کی لائبریری اور ہماری نشست
علی اکبر ناطق
اسلام آباد کا ذکر آتا ہے تو دل کے تار جُھنجُھنا اُٹھتے ہیں۔ بھائی یہ شہر تو اب اوکاڑہ کی طرح ہمارے اندر بس چکا ہے۔ ہمیں لاہور سے بھی کچھ شکوہ نہیں مگر وہ مولوی مدن کی سی بات کہاں؟ اسلام آباد پہنچتے ہی دھواں دھواں دل اَبرِ نوبہار کی طرح برسنے لگتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے ڈاکڑ ندیم شفیق صاحب نے بلا بھیجا کہ بھیا ناطق آپ کے ساتھ ایک علمی نشست کرنا ہے۔ ہمارے کرائے پر شہِر تازہ میں دو روز کے لیے آئیو۔
علمی کے نام پر تو ہمیں ہنسی آئی کہ کہاں ناطق بغلول میاں اور کہاں علم کی لطافت مگر خوش ہوئے کہ اسلام آباد کے دوستوں سے اِس فقیر کی ملاقات کا سامان ہو گیا۔ فوراً سواری پکڑی اور گوشہ جنت نگاہ میں جا اُترے۔ ٹھہرنے کا بندوبست رائٹر ہاؤس میں تھا اور یہ سرائے اکادمی ادبیات میں ہے ، اس لیے وہیں پہنچے اور ایک کمرے میں جا سامان اُتارا۔ کیفیت اِس کمرے کی یہ ہے کہ بندہ تندرست گھسے اور دمے کا مریض ہو کر نکلے۔ دیواروں میں اور کارپٹ میں ایسی ہمک اور بدبو کہ الامان، اب پتا نہیں یہ بدبو وہاں گاہے گاہے رُکنے والے شاعروں کی تھی یا اکادمی کے یبوست زدہ ماحول کی جو پچھلے آٹھ دس سال سے بن چکا ہے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ لاہور کے کچھ شرابی شاعر اکثر اپنی سستی شراب اور نحوست سمیت شعر کے غیر جمالیاتی سائے پھینک آتے ہیں اِس لیے در و بام سے وحشت ٹپکتی ہے۔ اِس صداقت میں عیب نہیں مگر کچھ تو نا اہلی رئیسِ ادارہ کی بھی ہے، عجب گھسیارا کُرسی پر لا بٹھایا ہے۔ خیر پہنچنے سے پہلے ہم سید منظر نقوی صاحب اور اشفاق عامر کو خبر کر چکے تھے چنانچہ دونوں مہربان احباب ہماری دلداری کو وہاں موجود تھے۔
رات ایک بجے تک یادیں باتیں اور ملاقاتیں ہوئی ۔ باقی رات کاٹی چئرمین کی جان کو روتے ہوئے۔ ابھی تک بیمار ہوں ۔ مزدور اور سخت جان آدمی تھا اِس لیے بچ نکلا ورنہ رائٹر ہاوس تو ہمیں لے بیٹھا تھا۔ قصہ مختصر اگلے دن چھ بجے اٹھے، پورے آئی ایٹ کا گشت کیا اور اشرف ملک صاحب کے ہاں جا ناشتہ کیا پھر قاسم یعقوب کو اُس کے کالج جا پکڑا، مل کر بہت خوش ہوئے۔ کافی دیر گزرے لمحوں کو دہرا کر گلے شکوے گزارے۔
اُس کے بعد وہیں پہنچے جہاں کے لیے بلائے گئے تھے۔ یعنی ڈاکڑ ندیم شفیق ملک صاحب کی لائبریری میں۔ اور ہمارے ساتھ تھے اِس عہد کے سب سے بڑے نثرنگار اور افسانہ نگار سید گلزار حسنین صاحب۔ لائبریری کیا ہے، بھائیو ایک حیرت کدہ ہے۔ ایف ایٹ تھری کی مہنگی ترین جگہ پر ایک کوٹھی میں ندیم صاحب نے ساٹھ ہزار کتاب جمع کر رکھی ہے، اور مسلسل کیے جا رہے ہیں۔ ادب پر کتابیں ، تاریخ پر تابیں ، ثقافت پر کتابیں ، پتا نہیں کس کس موضوع پر ہزاروں کتابیں ایک ہی چھت کے نیچے۔ یا مظہر العجائب ۔ مہمان خانہ بھی ساتھ ہے ،ک ہ جو آئے وہ کتاب بھی پڑھے ریسرچ بھی کرے اور کھائے پیے بھی وہیں سے۔ ڈاکڑ ندیم شفیق ملک صاحب ویسے تو سی ایس ایس آفیسر 22 گریڈ میں کام کرتے ہیں مگر ادب اور علم دوستی اِن کی عجوبہ نکلی۔ پانچ لاکھ ماہانہ خرچ کر رہے ہیں۔ اتنے پیسے اس لیے کہ کھاتے پیتے رئیس بھی ہیں۔ ہمیں ایک ایک کتاب محبت سے دکھاتے گئے اور ہم دیکھ دیکھ حیران ہوتے گئے۔
سب کتابیں نیٹ اور گوگل پہ چڑھانے کا اردادہ بھی رکھتے ہیں، مشین لے آئے ہیں کام شروع کر دیا ہے تکمیل اللہ دے گا۔ اپنی ریختہ بنا کے رہیں گے، اللہ انھیں زندگی دے۔ یہ سب کام وہ اپنی والدہ کے ایصالِ ثواب کو کرتے ہیں۔ ہر موضوع پر اتنی کتابیں دیکھ کر ہماری آنکھیں کھُل گئیں۔ ہم اِس کتاب خانے کا احوال ضرور الگ سے لکھیں گے ۔3 بجے ہمیں اپنے دفتر میں لے گئے، شاہ صاحب بھی ساتھ تھے، وہاں محمد اظہار الحق صاحب کی صدارت میں ہمارے ساتھ نشست ہوئی۔ سیکرٹری سٹیج کے منصب کو سنبھالا سلیم شہزاد نے اور اچھا سنبھالا۔
سب سے پہلے رضا آفندی صاحب نے ایک مضمون پڑھا۔ مضمون کی ںثر کچھ ایسی تھی کہ پڑھ تو وہ رہے تھے اور شرمندگی ہمیں ہو رہی تھی ۔اللہ اللہ کر کے وہ معجز نما نثر ختم ہوئی اور ہماری نشست یعنی تعریف کی شروعات ہوئی جس میں اشفاق عامر ، منظر نقوی ، اختر عثمان ، سید گلزار حسنین ، وفا چشتی اور شیدا چشتی، صاحبان نے ہماری ایسی خوبیاں بتائیں جنھیں ہم اللہ پہلے نہیں جانتے تھے۔
اب پیدا کرنے کی کوشش کریں گے اور جگ سے نہ لڑیں گے۔ راشدہ مہین ملک ، جواد حسنین ، ڈاکڑ سلیم سہیل، یاسر چٹھہ اور کچھ میرے کچھ شاگرد بھی وہیں تھے۔ پھر ہم نے اپنی غزلیں اور نظمیں سنا دیں، اُس کے بعد محمد اظہارلحق صاحب نے خطبہ صدارت میں ہمیں بہت پڑھا لکھا ثابت کیا اور بڑا شاعر اور بڑا نثر نگار اور اچھا انسان ۔ ہم نے اُن سے اتفاق کیا۔ بھئی وہ خود ایک سچے آدمی، معتبر شاعر اور پیشہ ور صحافی ہیں، جھوٹ کاہے کو بولیں گے۔ ہم خود اُن کے شکر گزار ہیں کہ خود آ کر ہماری عزت کو دوبالا کیا۔
اگلا دن سہہ پہر تک ہم نے گزارا شاہ صاحب اور زیف سید کے ساتھ ۔ بھئی زیف تمھیں دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ سہہ پہر وہ تو گئے اپنے دفتر اور ارشد ناشاد صاحب اور عارف تاج سے ملتے ہوئے آخر حسان تک پہنچ ہی گئے۔ شام کا وقت اور کھانا ہمارے قلبی دوست اور اظہار الحق صاحب کے بیٹے حسان نے اپنے ساتھ کھلایا۔ ہم نے اُن سے اور اُنھوں نے ہم سے خوب خوب باتیں کیں۔ پھر ہمیں ملے ہمارے جاوید ملک صاحب، اشرف ملک صاحب، آصف صاحب سے رات گئے باتیں ہوئیں، وقار سپرا صاحب بھی ساتھ تھے۔ اور کمپنی اچھی دیتے رہے ہمارے دوستوں سے مل کر بہت خوش ہوئے۔