جب اسلام آباد والے لاہور آتے ہیں
از، یاسر چٹھہ
موٹر وے سے تیز تیز بھاگتے آؤ۔ ایسے کہ جیسے راوی ٹَول پلازہ ان کے لیے وی آئی پی رُوٹ لگا کے بیٹھا ہو۔
کچھ مت سوچیے کہ راوی ٹَول پلازہ پر پہنچتے پہنچتے پہلے صرف کردہ وقت کا 30 فی صد اضافی وقت آپ کو ٹَول پلازہ والوں کو اس بڑی سڑک کا کرایہ دینے پر لگتا ہے۔
یہ کرایہ پچھلے کچھ برسوں میں 300 سو فی صد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ تو پھر کیا ہے، تیر والے جن کے پاس توپ اور تفنگ ہے انہیں تو معاف ہے۔ باقیوں کے سب بد عنوان، غداروں وغیرہ اور گھاس پھونس ماندوں کی کیا ہے؟
انتظار بھی کرو اور زیادہ پیسے بھی دو: ڈبویا ہم کو ہونے نے، نا ہوتے ہم تو کیا بڑی سڑک ہوتی! نہیں ہوتی۔
چھوڑ آتے ہیں اب ہم وہ پکی گلیاں، یعنی سڑکیں… ٹھوکر نیاز بیگ سے مُڑیے کہ آگے جواب ہے: موٹر وے ختم…
زاویاتی حرکت کیجیے، آتے جائیے۔ پولیس والے آپ کی آنکھ میں جھانکتے ہیں، مُبادا کہ کوئی غلط سلط لاہور داخل ہو رہا ہو۔ شکریہ، جانے دیا ہے۔
لاہور نہر کے ساتھ چلتے جائیے۔ لاہور کی خوب صورتی کا چاند، لاہور کی نہر کا پانی بہتا ہے، اور ساتھ آپ ہیں۔ بچپن میں ہم جن کے گاؤں کے پاس سے بہت بڑی سندھ طاسی معاہدے کے نتیجے کی رابطہ نہر بہتی ہے، کہتے تھے کہ لاہور والے اِس راجباہ کو نہر بولتے ہیں، بس مرضی والے ہیں لاہور والے جو ہوئے۔ بہ ہر حال اب اسلام آباد میں جگہ جگہ قدرتی نالے دیکھ دیکھ کر جنہیں ہم اب بھی نہر نہیں کہہ پاتے، اس لاہور والی نہر کو نہر پکارتے ہیں۔ منظور تھا، ہے اور رہے گا پردہ تیرا۔
رُومان البتہ ہے۔ لیکن اس رُومان میں زیادہ مت رہیے کہ نہر، پانی اور چاند تو دھیرج رہتے ہیں، پر ساتھ ساتھ چلتے موٹر سائیکل سوار، دائیں چلتا رکشے والا بھائی اور آس پاس گھورتا گھارتا کار والا کرم اللہ چودھری/ملک/بٹ/جٹ یا کوئی جھٹ پَٹ بہت جلدی میں ہیں۔ کہیں آپ کی سواری کی پُشت والی بَتّی کرچیاں نا ہو جائے؛ یا کہ مولا نا خواستہ… ہمارے مُنھ میں خاک!
مزید دیکھیے: پطرس بخاری نے کہا، راوی کیا آج بھی مُغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے از، عبدالقادر حسن
ایک راہیِ بیزار کا پبلک ٹرانسپورٹ کا suffer نامہ از، شہریار خان
چلتے آئیے، چلتے آئیے، اشارہ کھل بھی جائے تو کچھ درجن بھر سیکنڈز اس کے کھلنے کا یقین مت کیجیے۔ یقین کو ریزہ ریزہ رکھیے، بھلے آپ ما بعد جدیدیے نا بھی ہوں اور ایمان کو ہی اپنا چہرہ، وجہ، اور دیگر ظواہرات باور کراتے ہوں۔
ابھی کچھ اور بھی ہوتا ہے، راقم الآخرین نے نہانا ہے، اور جبھی بارات کے لیے جانا ہو گا جس کے لیے وہ یہاں آیا ہے۔ بارات میری نہیں، وہ تو کب کی چڑھ چکی اور جس کے ساتھ چڑھ چکی وہ کب کی کہے جا رہی ہیں کہ گیزر کا پانی اچھا آ رہا ہے، نہا لیجیے۔
لیکن کچھ گزری رات کا تو بتا دوں۔ رات گزر بھی جائے، تو قطعی ضروری نہیں کہ بات جائے۔
اسلام آباد میں جہاں گھر ہے، وہاں وہ خاموشی ہوتی ہے کہ جسے پنجاب یا کراچی سے آیا پہل پہلیا شروع میں تو زندگی کی وفات سے تعبیر کرتا ہے، لیکن اگر وہ کچھ مہینے برس گزار لے تو یہ ہی اسلام آباد کا نشہ ہوتا ہے۔
لیکن، لیکن آپ لاہور آ جائیے تو یہاں رکشوں کی کُڑ کَڑ کَڑ کَڑاں، کاروں کی پِیں پِیں، اور بسوں ٹرکوں کی پاں پاں صبح، دو پہر، شام، رات کے وقت شور کا روزہ توڑنا گناہِ اکبر ترین جانتی ہیں۔ اسلام آباد والے وہ ساٹھ مسکین ہوتے ہیں جو اونٹ کے نچلے لَب کے گرنے کا انتظار کرتے دیکھتے رہتے ہیں۔ کام، آنکھیں اور فکر اس پر رکھتے ہیں کہ جیسے ہی ان کی سپر طاقت کا روزہ ٹوٹے اور ہم زمین والوں کے جگر میں کچھ سکوت اور سکون کے لمحے جائیں۔ پر نہیں، مسکین کب مؤمن ہوتا ہے کہ جس پر بھی کرم ہو! ایمان والے زیادہ غصہ مت کیجیے گا۔ مطلب یہ کہ مزید غصہ…. ۔
بہ ہر حال اس کُڑ کُڑ کُڑ کڑاں، پِیں، پِیں، پِیں، پاں پاں کے پاپی میوزک کے اندر و اندر اور آس پاس بہ شکرِ مولائے کل کائنات کچھ پرندے باقی ہیں۔ مدھر گیت، اور لاہور نہر کا چاند… ۔
[ڈاٹس رکھتا ہوں کہ خالی جگہ پر خود سوچیے۔]
پیارے پرندو شکریہ، تم بہت بھلے ہو؛ اور تم سے محبت ہے۔ مجھے معلوم ہے، یہ محبت یک طرفہ بہ ہر طور نہیں۔
[سوچ…، آواز… اچھا ٹھیک… آیا]
اچھا…، آتا ہوں کہ، ابھی پانی گرم ہے اور لوہا ٹھنڈا… یہاں وہ مقام ہے جہاں، اسلام آباد اور لاہور کئی ڈگری سنٹی گریڈ کے فاصلے پر موجود ہیں۔ مولا کرم۔