غزوۂِ ہند کی روایات کی دینیات اور صحافیانہ مقبولیت پسندی کی سیاسیات و سماجیات
غزوۂِ ہند کی روایات ایک بار پھر زیرِ بحث ہیں۔ تحریکی اور صحافیانہ ضروریات کے زیرِ اثر، ان روایات پر جس طرح مضامین باندھے جا رہے ہیں، لازم ہے کہ ان کا علمی جائزہ لیا جائے۔ تحریکیت اور صحافتی مقبولیت پسندی ہیجان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جذبات کا کھیل ایک نقد سودا ہے۔ اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے۔ ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سماج میں غور و فکر کی روایت پنپنے نہ پائے۔ کوئی اس کی جسارت کرے تو اسے، مغرب نواز، یہاں تک کہ منافق بھی قرار دے دیا جائے۔
لوگوں کو القاب سے نوازنے کے لیے دین کی اخلاقی تعلیمات کی طرف رجوع کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہر صاحبِ فرمان بَہ قلم خود دینی حُجّت ہے۔
کتبِ حدیث میں ایسی بہت سی روایات ہیں جن کا مضمون قُربِ قیامت کے واقعات ہیں۔ ان میں چند ایسے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے جو قیامت برپا ہونے سے پہلے، دنیا میں پیش آئیں گے۔ محدثین نے بتایا ہے کہ ایسی اکثر روایات گھڑی ہوئی ہیں۔ ان کی رسالت مآبﷺ سے نسبت ثابت نہیں۔ جن روایات کو روایتاً درست مانا گیا ہے، نفسِ مضمون کے اعتبار سے، دو طرح کی ہیں۔ ایک وہ جن میں متعین واقعات کا ذکر ہے؛ جیسے سیدنا مسیحؑ کی آمد۔ دوسری وہ ہیں جن میں ایسے واقعات کا ذکر ہے جو متعین نہیں۔
تاریخ میں بار ہا لوگوں نے مختلف واقعات پر ان کا انطباق کیا ہے۔ یہ کام بار ہا ہوا ہے اور ایک سے زائد واقعات کو ایک روایت کا مِصداق ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ محض قیاس ہے کیوں کہ ان میں ایک ہی اطلاق درست ہو سکتا ہے؛ مثال کے طور پر ایک روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاجُ النّبوت قائم ہو گی۔ بعض اہلِ علم نے بتایا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا عہدِ اقتدار اس کا مِصداق تھا۔ بعض لوگ اسے آج کے دور میں برپا کرنا چاہتے ہیں۔
اِنطِباق یا اطلاق کا یہ اِختِلاف کیوں ہیں؟ ختمِ نبوت، در اصل، اس بات کا اعلان تھا کہ انسانیت کا سفر تمام ہوا اور اب الٰہی سکیم میں اگلا بڑا واقعہ قیامت کا برپا ہونا ہے۔ یہ قیامت متعین طور پر کب آئے گی، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ یہ بات قرآن مجید میں کئی مقامات پر واضح طور پر بتا دی گئی۔ قرآنِ مجید میں ایک اور نشانی کا بھی ذکر ہے جو یاجوج ماجوج کا اخراج ہے۔ اس کے علاوہ قرآن نے قربِ قیامت کی کوئی نشانی نہیں بتائی؛ تاہم رسالتِ مآبﷺ سے منسوب روایات میں بعض مزید نشانیوں کا ذکر ملتا ہے۔
انسانیت، رسالتِ مآبﷺ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد، قربِ قیامت کے دور میں زندہ ہے۔ آپﷺ نے ایک دفعہ اپنی دو انگلیوں کو اٹھایا اور فرمایا کہ میرے اور قیامت کے ما بین اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا ان انگلیوں کے درمیان۔ اس لیے ایسے واقعات کا ظہور نبیﷺ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہی ہونے لگا جن کی خبر بعض روایات میں دی گئی۔ جیسے بنو امیہ کی بادشاہت میں جب ظلم کا دور تھا، اچانک حضرت عمر بن عبدالعزیز کا حکم ران بننا اور نظمِ حکومت کا ایک بار پھر خلافتِ راشدہ کے طرز پر استوار ہو جانا۔ یہ کم و بیش 100ھ کا واقعہ ہے اور اسے بھی اہلِ علم نے قیامت کی نشانیوں میں شمار کیا ہے۔
اس نوعیت کی بہت سی روایات، جیسا کہ میں نے ذکر کیا، وضع شدہ ہیں۔ لوگ جس بے احتیاطی کے ساتھ انہیں رسالتِ مآبﷺ سے منسوب کرتے ہیں، میں تو اس کے خیال ہی سے لرز جاتا ہوں۔ ان میں سے ایک، غزوۂِ ہند کے بارے میں حضرت ابو ہریرہؓ سے منسوب روایت بھی ہے جو سنداً ثابت نہیں۔ ایک روایت کو محدثین قبول کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ پیش گوئی پوری ہو چکی۔
برادرم عمار خان ناصر صاحب نے ان روایات کا بہت فاضلانہ اور علمی جائزہ لیا ہے۔ عمار صاحب کے رسوخ فی العلم کا میں معترف ہوں۔ استادِ محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے علاوہ، میں جن چند مُعاصِر اہلِ علم کے تعلق باللہ، دینی حمیت اور علمی دیانت و ثقاہت کا قائل ہوں، ان میں سے ایک عمار صاحب بھی ہیں۔ میری یہ رائے برسوں کے مشاہدے اور سماجی تعلق کا حاصل ہے۔ غزوۂِ ہند پر میں ان کی تحریر یہاں نقل کر رہا ہوں:
”بھارتی حکومت کی طرف سے ریاستِ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اقدام کے تناظر میں گزشتہ دنوں… غزوۂِ ہند پھر زیرِ بحث رہا اور حسبِ معمول یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ پیشین گوئی تاریخ میں ابھی تک تَشنۂِ تعبیر ہے اور اسے حقیقت میں بدلنے کا وقت گویا آن پہنچا ہے۔ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ جب حدیث میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی تو مسلمان ابھی عرب کی حدود سے باہر نہیں نکلے تھے۔ اُس وقت انہیں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ روم، فارس، مصر وغیرہ کے علاوہ مسلمان ہند کے علاقے پر بھی حملہ کریں گے۔
“اُس وقت کی جغرافیائی اصطلاح کے لحاظ سے موجودہ افغانستان کا کچھ حصہ، پاکستان اور ہندوستان کا سارا علاقہ ہند کہلاتا تھا۔ یہ پیشین گوئی تاریخِ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں پوری ہو چکی ہے؛ چُناں چِہ علامہ ابنِ کثیر نے البدایۃ و النہایۃ (طبع دار ہجر، ۱۴۱۸ھ بَہ تحقیق الدکتور عبداﷲ بن عبدالمحسن الترکی) کی نویں جلد میں دلائلِ النبوۃ کے تحت، جہاں نبیﷺ کی دیگر متعدد پیشین گوئیوں کا ذکر کیا ہے، جو تاریخ میں سچی ثابت ہوئیں اور یوں آپﷺ کی نبوت کی دلیل ہیں، اسی طرح غزوۂ الہند کی حدیث کا بھی ذکر کیا اور اس کی صداقت کے طور پر سیدنا معاویہؓ کے دور میں ہندوستان کی طرف بھیجے جانے والے لشکر اور اس کے بعد خاص طور پر محمود غزنوی کے حملوں کا حوالہ دیا ہے۔
“غزوۃ الہند سے متعلق مروی احادیث کا اسنادی جائزہ لیا جائے تو ان میں سے ثوبانؓ سے مروی حدیث سنداً صحیح ہے، جب کہ ابو ہریرہؓ سے مروی احادیث کے طریق کم زور ہیں۔ خاص طور پر ایک طریق جس میں ذکر ہے کہ ہندوستان سے کامیاب لوٹنے والا لشکر وہاں سے شام جائے گا اور اس کی ملاقات حضرت مسیحؑ سے ہو گی، محدثانہ معیار کے لحاظ سے بالکل نا قابلِ اعتبار ہے، کیوں کہ اس میں حضرت ابو ہریرہؓ سے اس کو نقل کرنے والا ایک شیخ مجہول ہے، یعنی اس کے نام اور اوصاف کا کچھ پتا نہیں۔
“بعض اہلِ علم نے اسی طریق کی روشنی میں یہ لکھا ہے، اگر یہ حدیث صحیح ہو (ان صح الحدیث بذالک) تو پھر یہ پیشین گوئی ابھی پوری نہیں ہوئی، بَل کہ نزولِ مسیحؑ کے زمانے میں پوری ہو گی۔ ہمارے ہاں بعض قصہ گو حضرات اس واہمی روایت کی محدثانہ حیثیت اور اگر صحیح ہو کو نظر انداز کر کے اس پر ایک نئے جہادی بیانیے کی عمارت کھڑی کرنا چاہ رہے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ، اکتوبر2019ء)
یہ ایک صاحبِ علم کا تجزیہ ہے۔ اس سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ایک عالم جب دینی احکام و روایات پر غور کرتا ہے تو وہ تحریکی یا صحافیانہ ضروریات سے کس طرح مختلف ہوتا ہے۔ عالم اپنے تصورات و خیالات کی تائید میں یابِس و رَطب جمع نہیں کرتا، بَل کہ دین کو خالی اُلذّہن ہو کر نصوص سے بَہ راہِ راست سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، اور پھر ان کی بنیاد پر اپنے خیالات کی عمارت تعمیر کرتا ہے۔
یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ایک عہد پر ان روایات کو مُنطبِق کرنے کوشش کی گئی ہے۔ تاریخ میں اس اِنطِباق کے بے شمار واقعات نقل ہوئے ہیں۔ اس دور میں ان روایات کو افغانستان کے مجاہدین پر بھی منطبق کیا گیا تھا، جنہوں نے خانہ جنگی میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل، اور ایک مسلم معاشرے کو برباد کر دیا۔ جو لوگ ان کی بنیاد پر ایک بار پھر مسلمانوں کے جان و مال کو ارزاں کرنا چاہتے ہیں، انہیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ وہ اس کے لیے اپنے پروردگار کے حضور کیا جواز پیش کریں گے؟
ایک انسانی جان کی حرمت غیر معمولی طور پر حساس معاملہ ہے۔ از، خورشید ندیم