ہمارا معاشرہ اور عدم برداشت

لکھاری کی تصویر
عافیہ شاکر

ہمارا معاشرہ اور عدم برداشت

از، عافیہ شاکر

ہم اکثر اوقات باتوں باتوں میں اپنی قوم کو اقوامِ ترقی یافتہ کی نسبت سو سال پیچھے کہہ کے اپنے لوگوں کی جذباتی تشریح کر جاتے ہیں۔یہ صرف جذباتی اظہار ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک طرح کی سچائی بھی ہے۔ ایک قوم کی بظاہر ترقی کا دارومدار معیشت پر نظر آرہا ہوتا ہے مگر درحقیقت اُس کی ترقی اُس کی معاشرت یا Social Behaviour سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ہم معاشرتی بحران کا شکار کیوں ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے درمیان ’’عدم برداشت‘‘ کا پیدا ہوجانا ہے۔

عدم برداشت کا بڑھتا ہُوا رجحان ہماری مجموعی معاشرت کاعکاس ہے۔ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ ہماری تہذیب اسلامی تہذیب تو کہلائی جاتی ہے مگر اسلامی تہذیب کا بنیادی عنصر برداشت اب ہم میں نہیں ہے۔چند دن پہلے ٹی وی پر مولانا حضرات کو ایک ’’اہم‘‘ مسئلے پر بحث وتکرار کرتے پایا۔مسئلہ تھا ’’چھپکلی کو مارناجائز ہے یا حرام‘‘_____ چھپکلی بھی ثواب دینے یا چھیننے کی متحمل ہو سکتی ہے یا نہیں۔بات تُو تکرار تک جا پہنچی اور عدم برداشت کا وہ مقام آ گیا ہے کہ میں نے ٹی وی چینل بدل دیا۔کیا ہمارے درمیان اب یہ مسائل رہ گئے ہیں؟ اور کیا اس قدر عام سے مسئلے پر بھی ہم تحمل سے بات نہیں کر سکتے؟ میں اس شو کو دیکھ کر نہایت پریشان رہی۔اگر اس طرح کے ثانوی مسئلے پر کوئی پیغام نہیں دیا جا سکتا تو مولانا حضرات فرقوں کے بیچ برداشت کیسے قائم کر پائیں گے۔
چند ہفتے پہلے ایک خبر گردش کر رہی تھی کہ ایک لڑکی کو بوڑھے سے شادی سے انکار پر زندہ جلا دیا گیا۔کیا یہ عدم برداشت کی انتہا نہیں؟ عورت اس سارے کھیل میں پس رہی ہے۔ وہ آج بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔برداشت کی ایک اور سطح ہماری اٹل سوچ کے زاویے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک سمجھتے ہیں۔ ہم اپنی اصلاح نہیں کریں گے۔ ہم نے جو سوچ رکھا ہے وہ ہر صورت ٹھیک ہی ہوگا۔یہی رویے عدم برداشت پیدا کرتے ہیں۔جیسے پیدائش کا مسئلہ ہے۔ آج بھی عورت ہی بچے کے جینڈر کی ذمہ دار ہے۔ لڑکا پیدا ہُوا تو عورت نے کیا ہے اور اگر لڑکی پیدا ہوئی ہے تو عورت نے کچھ کر دیا ہے۔حالاں کہ طبعی طور پراس کی وجوہات  دریافت ہوئے بھی زمانہ ہو گیا ہے کہ مرد ذمہ دار ہے جینڈر کی تقسیم کا۔اسی طرح تیسری مخلوق کی پیدائش کی ذمہ داری بھی مرد پر ہے۔ Turner syndrome یا Klinefelter syndrome میں مبتلا انسان نارمل ہوتے ہیں۔ انھیں کسی قسم کے Differenceکا سامنا نہیں ہوتا۔اصل میں ہم دیگر تہذیبوں کے نقشِ قدم پر اپنی تہذیب کے اچھے خواص کو بھلا بیٹھیں ہیں۔نوبت یہاں تک آئی ہے کہ اب ایک دوسرے کو انسان بھی نہیں سمجھتے۔
عدم برداشت کی ایک اور شکل آزادی اظہار پر پابندیاں ہیں جو عورتوں کے لیے خصوصی طور پر کام کرتی ہیں۔ایک وقت تھا جب مذہبی فرقے ہی ایک دوسرے کی سننے کو تیار نہیں تھے مگر اب تو سیاسی جماعتیں بھی ایک دوسرے کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ کوئی لمحہ نہیں جانے دیا جاتا کہ دوسری پارٹی کو ذلیل کر دیا جائے۔آپ نے حال ہی میں خواجہ آصف کے وہ الفاظ نہیں سنے جو دہراتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔یہ کیا ایک دوسرے کے لیے احترام کے جذبات کا خاتمہ ہے؟ کیا ہم بحیثیت قوم ختم ہو چکے ہیں؟
ہمارے درمیان سب سے پہلے برداشت کا وجود قائم کرنا ضروری ہے۔ہم ایک دوسرے کو سنیں اور ایک دوسرے کو سنا سکیں۔ایک دوسرے کے قریب جانے اور دوسروں کے احترام کوبحال کرنے کا یہ واحد ذریعہ ہے۔اس کا آغاز سب سے پہلے سیاست دان اور مذہبی علما کی طرف سے ہونا چاہیے جو لوگوں پہ بہت اثرات رکھتے ہیں۔

About عافیہ شاکر 7 Articles
عافیہ شاکر میڈیکل کی سالِ اول کی طالبہ ہیں۔ سائنس اور سماجیات دونوں میں دل چسپی لیتی ہیں۔ فطری اور سماجی سائنس کو میڈیکل کی تعلیم کے لیے ناگزیر سمجھتی ہیں۔ مستقبل میں سائنسی فورم بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں اس کے لیے اچھی کتابوں کے تراجم میں بھی دلچسپی لیتی ہیں۔

6 Comments

  1. Zabardast..! Muashry ko kch esi tabdeli ki zada fikar krni chiye na k imran khan ki “tabdeli “per..khud ko bdlna hoga..great effort!

Comments are closed.