اظہار عظمت
از، نصیر احمد
وہ ایک بھٹکتی ہوئی روح تھی جو بھٹکتے بھٹکتے پہاڑوں سے گھری ہوئی اس وادی میں آ دھمکی تھی جہاں کی صبحیں کسی ماہ رخ کی برقع کشائی کا منظر ہوتی تھیں اور شامیں اسی ماہ رخ کے چہرہ چھپانے کا افسُردہ سین بن جاتی تھیں اور راتیں ایسی پر ہیبت ہو جاتی تھیں کہ نیند نہ آئے تو وجود کا بند بند نے کی طرح صبح کے انتظار کا نغمہ خواں ہو جاتا تھا۔
اسے بھٹکی ہوئی روح کہنا کچھ درست نہیں ہے۔ اسے اپنے مقاصد کا علم تھا لیکن ابھی تک اسے کوئی ایسا جسم اور دماغ نہیں ملا تھا جس کے ساتھ اس کے مقاصد کی ہم آہنگی ہو پاتی جس کے نتیجے میں اس کا اظہارِ عظمت رواں ہوتا۔ پہاڑوں سے گھری ہوئی اس وادی میں اس روح کو ایک فرد میں اپنے اظہار کی روانی کے امکانات نظر آئے تھے۔ اب اس روح نے اس فرد سے گفتگو کرنی تھی کہ کیا وہ اس ہم آہنگی کو کسی نکتہ عروج پر پہچانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
اور وہ فرد وادی کے اکلوتے چھوٹے سے کالج میں اردو ادب کا پروفیسر جمیل تھا۔ وہ وادی کا حسن آشنا مقامی تھا اور ہر وقت وادی کے حسن سے لطف اندوز ہوتا رہتا۔ جھرنوں اور آبشاروں کی روانی میں وہ چھپے ہوئے پیغامات سمجھ کر انھیں اجاگر کرتا رہتا۔ بلند و بالا درختوں کے اسرار رموز سے وہ واقف ہونے کی سعی کرتا رہتا۔
وادی کے وسط میں بہتے دریا کی لہریں جب پتھروں سے جھگڑتی بہتی جاتیں تو وہ زندگی کے آغاز و انجام پر سوچتا رہتا۔ اس کی یہ بڑھی ہوئی حسِ جمال اسے سمجھاتی کہ اس کے ارد گرد کے لوگ کم تر ہیں جو زندگی کی تابانی سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ وہ انھیں اپنی حِسِ جمال کی سطح پہ لانا چاہتا تھا مگر وہ صبح کو شام کرتے ایک چھوٹے سے شہر کے باسی تھے اور اتنی مصیبتوں میں گرفتار تھے کہ وادی کے حسن کی طرف ان کی توجہ کم ہی جاتی۔ جمیل انھیں اس حسن کی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا کہ اس کے خیال میں حسن کا مستحق ہونا انسانوں کا فرض تھا۔
جمیل ایک تنہا انسان تھا جس کی گزر بسر ہو رہی تھی لیکن وہ لوگ بہت سے بکھیڑوں میں الجھے تھے، وہ دھوپ میں چمکتی دمکتی لہروں کے لیے حیرت اور وارفتگی کے چند لمحے ہی صرف کر سکتے تھے۔ پھر کوئی مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا جس کے سلجھاؤ کے لیے وہ حسن سے کچھ غافل ہو جاتے تھے۔
جمیل کو ان سے ہمدردی بھی تھی کیوں کہ حسن سے غفلت کے اسباب وہ جانتا تھا۔ اور ان اسباب کو مٹانے کا خواہش مند بھی تھا کیوں کہ یہ اسباب ان لوگوں کے لیے وہ تکالیف پیدا کرتے جس کے نتیجے میں ان کی زندگیاں بگڑی ہوئی تھیں۔ وہ یہ سب بگاڑ درست کر کے زندگی کو اس کے حقیقی معنوں سے آشنا کرنا چاہتا تھا۔
متعلقہ: پائیلو کوئیلو کی زندگی کی دل چسپ باتیں از، پیٹریشیا مارٹن مونٹزے بیلسٹروس
کیا ہم کارندے، شہری بننے کو آمادہ ہیں؟ از، نصیر احمد
ایک شام اپنے چھوٹے سے گھر کے باہر جمیل انھی سوچوں میں گُم تھا کہ کچھ کھٹکا ہوا اور جمیل کی نگاہوں نے ایک حسینہ دیکھی۔ جمیل کے موسیقی سے آگاہ دوست اکثر سمپورن راگ کی بات کیا کرتے تھے۔ اس حسینہ کو دیکھ کر جمیل کو لگا کہ وہ حسن کی تکمیل کی کوئی انسانی شکل دیکھ رہا ہے۔ اور یہ منظر دیکھتے ہی وہ وارفتگی، حیرانی اور خوف کی کچھ ایسی کیفیات کا شکار ہوا کہ اس کے پاس لفظ جیسے ختم ہو گئے۔ جمیل کو محسوس ہوا کہ لفظوں کا اختتام آگہی کی حسین ترین صورت ہے۔ اور وہ صورت جمیل سے مخاطب ہوئی۔
اے صاحبِ دل میری تلاش ختم ہوئی اور تیرا انتظار۔ ہم دونوں کا ملنا تکمیل کی ایک ایسی دنیا کے در کھولے گا، جہاں کسی قسم کی کَجی، خامی اور بد نُمائی باقی نہیں رہے گی۔ ہم دونوں ہر چہرے کو تاباں کریں گے اور ہر دل کو فروزاں۔ یہ حسین وادی جس کے حسن کو قدر دانوں کی ضرورت ہے، ہم اس کے حسن میں گم ہو کر اپنا حسن بڑھائیں گے، اس کے حسن میں اضافہ کریں گے اور اس وادی کے ایسے نئے باسیوں کی تعمیر کریں گے، جو وادی کے حسن میں اس طرح رچ بس جائیں گے کہ وادی اور ان میں فرق نظر آتا ہے وہ ختم ہو جائے گا۔ اور اس فرق کا خاتمہ میری جلوہ گری کے لیے اور میری عظمت کے اظہار کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہم سب اس سمپورن راگ کی طرح ہو جائیں گے جس میں کوئی چیز نا مکمل نہیں ہوتی۔
اے صاحبِ دل حیرانی کو شکست دے اور خوف کو پسپا کر دے اور میری ذات میں اس طرح گم ہو جا کہ نہ تو تو رہے اور نہ میں میں رہوں۔ ہم ہی سب کچھ ہوں، یہ گنوار سے لوگ بھی ہم ہوں، مریم و لالہ کے پھول بھی ہم ہوں، فلک کو چھوتی چوٹیاں بھی ہم ہوں، اور یہ بلند قامت درخت بھی ہم ہوں۔ لیکن اے صاحب دل میرا اظہار تب مکمل ہوتا ہے جب تضاد ختم ہو جائے، اختلاف نہ رہے اور بے گانگی مٹ جائے۔ آ، میری ذات میں گم ہو کر روح کائنات کے مقاصد سے ہم آہنگ ہو جا۔ تیری سب، بے کَلی، سب بے چینی، سب پریشانی، سب خوف دور ہو جائیں گے اور تجھے وہ اطمینان ملے گا جو تکمیل کا خاصا ہے۔
یہ جمیل اور اس روح کی پہلی ملاقات تھی اور اس کے بعد یہ بتانا مشکل ہو گیا کہ جمیل کون ہے؟ اور وہ روح کون تھی۔ سب کچھ مل گیا، مدغم ہو گیا اور گم ہو گیا۔ اور ایک نئے لیکن مکمل جمیل کا آغاز ہو گیا۔
لیکن وادی کے حسن کو جمیل سے ہم آہنگ کرنے کے لیے فرق اور اختلاف کا خاتمہ بہت ضروری تھا۔ فرق تو تھا، وادی کے حکم رانوں نے وادی کے لوگوں پر تعلیم کی پابندی لگائی ہوئی تھی۔ وہ وادی کے باغوں کے مالک نہیں ہو سکتے تھے۔ وہ وادی میں اپنی مرضی کی فصلیں نہیں اگا سکتے تھے۔ ان میں جو بہت ترقی کرتا وہ منشی بن جاتا، ورنہ سب کے سب مزدوری ہی کرتے تھے۔ جن عقیدوں سے وہ مقصدِ حیات کشید کرتے وہ عقیدے بھی حکم رانوں کے حق میں دلائل تھے۔ ان کے پاس کوئی ایسی بات موجود نہ تھی جو ان کی ہمت بندھاتی کہ وہ مزدوری سے بہتر کسی چیز کی تمنا کر سکیں۔ لیکن جمیل کو ان کی ضرورت تھی کہ ان کے بغیر جمیل کی تکمیل ممکن نہ تھی اور اگر جمیل کی تکمیل نہ ہو پاتی تو روح کائنات تو بھٹکتی ہی رہ جاتی۔
اور جمیل نے اپنی باتیں کہنا شروع کر دیں۔ پہلے تو کسی نے توجہ نہ دی، لیکن جمیل نے ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے روحِ کائنات کے مقاصد کا آسان ترجمہ شروع کر دیا۔ جس میں تعلیم، سڑک، باغ اور حکم رانی کے خواب واضح نظر آتے تھے۔
جب لوگوں کو جمیل کی باتوں میں اپنے مفادات نظر آئے تو ان میں سے کچھ جمیل کی باتوں پر توجہ دینے لگے۔ جلد ہی ایک چھوٹا سا گروہ بن گیا۔
اس گروہ کی کچھ مخالفت ہونے لگی جس کا نتیجہ ان کے درمیان اتحاد اور اتفاق کی صورت میں ظاہر ہوا۔ لیکن جمیل کا اس گروہ پر اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا۔ جتنی مخالفت ہوتی، جتنا اس گروہ میں اتفاق بڑھتا، اتنی ہی گروہ میں جمیل کی طاقت بڑھتی۔ گروہ میں رہنا تھا جو سانس بھی جمیل کے اشاروں کی پابند کرنی پڑتی تھی۔ اور اگر کوئی اس سے تنگ آ کر گروہ سے نکل جاتا، اس کی زندگی پھر بھی آسان نہ رہتی۔
جمیل اور جمیل کے گروہ کے لوگ اختلاف کو برداشت نہ کرتے تھے۔ اور اپنوں کا اختلاف تو وہ غداری، بے وفائی اور بد عہدی سمجھتے تھے اور اس کی جس قدر ان سے ممکن ہوتی، اس قدر سزا ضرور دیتے۔ لیکن ابھی معاملات نے کسی قسم کا کوئی انتہائی رخ نہیں لیا تھا۔
لیکن کچھ عرصے سے جمیل سوچ رہا تھا کہ کم از کم اس کے گروہ میں اس کے خلاف یعنی روحِ کائنات کے خلاف کوئی بات کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ ایک محدود سطح پر اختلاف کا مکمل خاتمہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے وادی کے حسن میں اضافہ ہو گیا تھا اور جمیل اور گروہ کے دوسرے لوگوں کی زندگی بھی پہلے سے بہتر ہو گئی تھی۔
حکم ران اس بہتری کی وجوہات رہزنی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں دیکھتے تھے مگر جمیل اور اس کے ساتھی اسے وادی کی معیشت میں اپنا جائز حصہ سمجھتے تھے۔ اس لیے جمیل نے سوچا کہ روح کائنات اگر اپنے اظہار میں حدود کی پابند رہی تو تڑپتی اور پھڑکتی ہی رہے گی۔ اس کی بے چینی دور کرنے کے لیے ضروری ہے اسے اس کی حدوں سے آزاد کر دیا جائے۔
اس سوچ کا عملی نتیجہ جمیل کے گروہ کی ایک مجلس میں لیے گئے چند فیصلوں میں ظاہر ہوا۔ جمیل کے گروہ نے کالج کی عمارت پر حملہ کیا۔ کالج پر حملہ اس لیے ضروری تھا کہ کالج سے ہی حکم رانوں کے غلام پیدا ہوتے تھے جو سر جھکائے ہر ظلم کا اثبات کرتے تھے۔ آتش زدگی کی اس واردات میں جمیل کا گروہ جنھیں خاک نشین کہتا تھا، مارے گئے تھے۔ دو چوکیدار اور ایک چپراسی۔ لیکن جمیل اور اس کا گروہ اب انھیں ظلم کے معمولی کارندے ہی کہتا رہا جن کے وجود سے وادی کا پاک ہونا بہت ضروری تھا۔
اس آغاز کے بعد جمیل اور اس کے گروہ کے حملے بڑھتے گئے۔ کالج، سکول، شفا خانہ حیوانات پر حملے ہوئے۔ لوگ ان حملوں میں مرتے رہے لیکن شفا خانہ حیوانات پر حملے کے بعد کچھ لوگوں نے جمیل کے لوگوں سے پوچھا کہ بے چارے جان وروں کا کیا قصور تھا؟
جمیل کے لوگوں نے جواب دیا تمھیں معاملات کی پیچیدگی کا کچھ علم نہیں ہے، یہ معمولی مویشی نہیں ہیں، یہ ظلم کے حمایتی مویشی ہیں، اگر ان کے دل میں مظلوم عوام کا کچھ درد ہوتا، تو یہ رسی تڑا نہ لیتے، ظالم مالکوں کو اپنے سینگوں پر دھر نہ لیتے۔ ان کی سزا ہی ان میں انسانیت اجاگر کر سکتی ہے اور انسانیت جو وادی کی تکمیل کے لیے بہت ضروری ہے۔
اس کے بعد باغوں اور کھیتوں کی باری آئی۔ اموا ت میں جتنا اضافہ ہوتا، جمیل کے گروہ کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا۔ لیکن اس کے ساتھ حکم ران بھی حرکت میں آ گئے تھے۔ اب وہ جمیل کے گروہ کے لوگوں کو گرفتار کرتے، تشدد کرتے اور ایک آدھ دفعہ حراست میں جمیل کے کسی گرگے کو قتل بھی کر دیتے۔
ہر طرف بد امنی سی ہو گئی تھی۔ جمیل نے سوچا کہ انتشار اور بد امنی سے تنگ آئے ہوئے لوگ اس کا ساتھ ہی دیں گے۔ اس لیے ایک کوشش کر کے وادی کے نظام پر مکمل قبضہ کر لیا جائے۔ ادھر سے مرکزی حکومت نے ایک قابل افسر عباس صاحب کو یہ شورش دبانے کے لیے بھیج دیا۔ وہ واقعی ہی ایک قابل افسر تھے اور جمیل کی وادی کی حکومت پر قبضے کی کوشش نا کام ہو گئی۔ جمیل اور اس کے سر کردہ گرگے گرفتار ہو گئے۔
عدالت میں مقدمہ چلا، سب کو سخت سزائیں ہوئیں۔ جمیل کو سزائے موت ہو گئی۔ اب موت سے پہلے جمیل نے روحِ کائنات سے گفتگو کرنے کی بہت کوشش کی مگر یہ گفتگو ممکن نہ ہو سکی۔ جمیل کا حوصلہ کچھ ٹوٹ گیا۔ لیکن جمیل نے روح کائنات کے غیاب کو روح کائنات کا حضور سمجھ لیا اور موت کو پا مردی سے قبول کر لیا اور وادی میں ہر طرف جمیل شہید کا شور برپا ہو گیا۔ اور وہ سب بے گناہ جو جمیل کی روح کائنات کی ہم آہنگی کا شکار بنے تھے، ان کا ذکر صرف ان کے گھر والے اور عزیز ہی کرتے تھے۔
شورش کے بعد شورش کی رپورٹ دینے کے لیے وہ قابل افسر عباس صاحب اپنے سے بڑے افسر کے سامنے پیش ہوئے۔ ان بڑے افسر نے عباس صاحب سے کہا:
ویل ڈن عباس، مگر تم ایک شہید چھوڑے جا رہے ہو، لونڈے لپاڑے ہی تو تھے، اتنی سختی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
عباس صاحب نے کہا:
سَر، سختی کی ضرورت اس لیے تھی، کہ وہ لوگ حکومت کو نہیں مانتے تھے۔ سکول، کالج، تھانہ، عدالت، ہسپتال یہاں تک کہ شفا خانہ حیوانات ان کے حملوں سے محفوظ نہ تھے۔ یہاں پر بھی شاید کچھ نرمی کی گنجائش بنتی تھی مگر روح کائنات کے مقاصد سے ہم آہنگ ہونے کے لیے وہ خود کو نہ صرف قانون، بَل کہ اخلاقیات اور انسانیت سے بھی بالا تر سمجھتے تھے۔ ان سے کسی بھی انسانی حوالے سے گفتگو ممکن نہ تھی۔ کوئی اصلاح انھیں اعتدال کی طرف راغب نہیں کر سکتی تھی۔ ویسے میں نے ایک اصلاحی پروگرام کی سفارش بھی کی ہے جو وادی میں امن کے لیے ضروری ہے۔ وادی میں رہنے والوں کی وادی کی معیشت اور معاملات میں ایک مثبت شمولیت بہت ضروری ہے۔ اور وادی کے لوگوں کے حقوق بحال کرنا بھی لازمی ہے۔ اور وادی کی معاشی ترقی کے لیے انفراسٹرکچر، تعلیم اور صلاحیت کے مفید پروگرام بنا کر انھیں نافذ بھی کرنا ضروری ہے۔ لیکن اگر یہ سختی نہ ہوتی تو حکومت، قانون، اخلاقیات اور انسانیت مذاق بن جاتے۔ حکومت میں بہتری حکومت کی موجودی سے متعلق ہے اگر حکومت ہوگی ہی نہیں تو حکومت بہتر کیسے ہو گی۔ پھر آپ یہ سوچیں، اگر یہ روح کائنات ارادۂِ ازلی بن کر خود کو مذہب سے منسلک کر لے، پھر حکومت کا کیا بنے گا؟
بڑے صاحب نے کہا:
شاید تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن قصور تو ہمارا ہی ہے، پہلے ہی ہمیں اتنی بھی زیادتی نہیں کرنی چاہیے تھی کہ مذاکرات کی گنجائش ہی نہ رہے۔ امید ہے حکومت تمھارے اصلاحی پروگرام کی تجویز قبول کر لے گی۔ لیکن ابھی جو خدشہ تم نے ظاہر کیا ہے، اسے اس کیس کی فائل میں درج ضرور کر دینا کہ بعد میں آنے والوں کی رہنمائی ہوتی رہے۔
عباس صاحب کو جیسے کہا گیا، انھوں نے ویسے ہی کیا۔ لیکن بڑے صاحب جو رہنمائی چاہتے تھے وہ ممکن نہیں ہو سکی اور ارادۂِ ازلی نے خود کو مذہب سے منسلک کر ہی لیا اور حکومت، قانون، اخلاقیات اور انسانیت مذاق ہی بن گئے کہ ارادۂِ ازلی کا اظہار بننے کے بعد کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ حکومت، قانون، اخلاقیات اور انسانیت کے حوالے اس پر کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں جس کے نتیجے میں مسلسل بد امنی اور انتشار کی وجہ سے زندگی کا معیار مسلسل رو بہ زوال ہے۔
اگر چِہ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ارادۂِ ازلی کا انسانی روپ ہے مگر ارادۂِ ازلی کیا ہے؟ اس کے بارے میں معاشرے میں گفتگو ہی ممکن نہیں رہی؟ اس لیے ہر شخص کی آرزو ہی ارادۂِ ازلی بن جاتی ہے جب بھی اس نے حکومت، قانون، اخلاقیات اور انسانیت کی خلاف ورزی کرنی ہوتی ہے۔ اور جمیل ابھی تک مشترکہ شہید ہے جس کا مزار ہر وقت آباد رہتا ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.