جان کی امان پاؤں تو عرض کروں
از، سرفراز سخی
گرتے اٹھتے، چلتے رکتے، ہانپتے کانپتے، رینگتے بھاگتے، انتخابات کے دن جوں جوں قریب سے قریب تر آئے چلے جاتے ہیں، ہمارے مفلوک الحال، بے سر و سامان، تہی دست و فاقہ کش عید کا چاند ہوئے سیاسی راہ نما اتنی ہی شدت سے رونق افروز ہوئے، ہرگلی ہر محلے ہر چوک ہر سڑک پر ایک مسیحا کے طور پر پینا فلیکسز اور پوسٹرز کے ساتھ ساتھ بذاتِ خود، فلم پیاسا میں ہر دل عزیز جناب جانی واکر پر محمد رفیع جی کی آواز میں فلمائے ساحر لدھیانوی صاحب کے گیت کی صورت، عوام سے انواع و اقسام کی تیل کی شیشیاں ہاتھ میں لیے جوش و خروش سے لبریز پرتپاک ہو کر گلے ملتے یہی گیت گاتے نظر آتے ہیں کہ:
مالش، تیل مالش، چمپی
سر جو تیرا چکرائے
یا دل ڈوبا جائے
آ جا پیارے پاس ہمارے
کاہے گھبرائے کاہے گھبرائے
سن سن ارے بیٹا سن
اس چمپی میں بڑے گن
لاکھ دکھوں کی ایک دوا ہے
کیوں نہ آزمائے
کاہے گھبرائے کاہے گھبرائے
https://www.youtube.com/watch?v=rJiohcg-gKo
بادشاہ سلامت ہم تو دیوانہ وار آپ کی طرف دوڑے دوڑے آئے، سر تو ہمارا آپ کے دربار میں آ کر چکرایا، اور واپسی میں اپنے گھبرائے دل کو تھامے “بہت بے آبرو ہو کر، تیرے کوچے سے ہم نکلے” کی مِصداق اپنی مایوسی کے سہارے سنبھلتے سنبھلتے گھر کو پہنچے۔
عطا الحق قاسمی صاحب نے فرمایا کہ “کسی ”چھوٹے“ کو اس بات کی اجازت تو نہیں ہوتی کہ وہ اپنے ”مالک“ کو کوئی ایسا مشورہ دے جو اسے پسند نہ ہو مگر میں نے سنا ہے کہ ماضی کے جابر شہنشاہوں کو اس نوع کا مشورہ دینے سے قبل اگر کوئی چھوٹا ”جان کی امان پاؤں تو عرض کروں“ کہہ کر صرف مدعا زبان پر لے آتا تھا اور اگر وہ مشورہ اچھے لفظوں میں یعنی ایک قصیدہ نما تمہید کے بعد دیا جاتا اور اس سے شہنشاہ کے مفادات پر بھی ضرب لگنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو یہ مشورہ بر داشت کر لیا جاتا لیکن اگر لفظوں کے انتخاب میں قدرے بے احتیاطی ہو جاتی تو مشورہ دینے والے ”چھوٹے“ کی جان کو عالم پناہ اللہ کی امان میں دے دیتے تھے جو ”امان اللہ“ نام کا کوئی جلاد بھی ہوسکتا تھا۔”
تو عالم پناہ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں، وہ بھی لمبی چوڑی تمہید باندھے بغیر کیوں کہ یہ بندۂِ نا چیز آپ کی حکمت و دانائی سے خوب آگاہ ہے!
عالم پناہ آپ ہی کو تو سنا اور یہی تو افسوس ہے کہ فقط آپ نے سنایا کبھی ہم سے پوچھنا تک گوارا نہ کیا۔ یہ لاکھوں دکھ اگر ہیں تو کیوں ہیں؟ اور ان کی یہ دوا کیسی؟ حضور ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دکھ ہی نہ ہوتے، یعنی کہانی اسی تصویر کی سی ہے کہ جس میں “ایک انسان گہرے گڑھے میں پھنسا اپنے مدد گار کی طرف ہاتھ بڑھائے ہوئے ہے اور اس کا مدد گار سیڑھی کے موجود ہوتے ہوئے بھی گڑھے کے دہانے لیٹا اس کی اوور ہاتھ بڑھائے ہے فقط یہ باور کروانے کے لیے کہ میں مدد کرنے کی جی توڑ کوشش کر رہا ہوں۔”
مزید دیکھیے: 1۔ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے طرز سیاست کا موازنہ اور آئندہ انتخابات پر اس کا اثر
2۔ سیاسی نظریات سے عاری انتخابات یا چُنیوں کی جنگ
4۔ انتخابات میں رائے دہی (voting) کا تاریخی خاکہ
سب کچھ پاس موجود ہوتے ہوئے بھی یہ ہی بناوٹی کوشش تو کی جا رہی ہے برس ہا برس سے۔ جس کی بدولت آزمائے ہوئے کو ہی بار بار آزما لینے کی وجہ سے آج ہم اس قدر تنگ، دل بر داشتہ و مجبور ہو چکے ہیں کہ ہر اک سیاسی ادا کار سے بخوبی واقف ہوتے ہوئے بھی کسی ایسے ادا کار کی ادا کاری دیکھنا چاہتے ہیں جسے اب تلک موقع نہیں ملا، جی ان ہی سیاسی ادا کاروں میں سے کسی ایک کی جنہیں اگر کوئی دو فقرے لکھ کر نہ دے تو ان کا حال ان سے بھی بد تر ہو جو قوتِ گویائی سے محروم ہوتے ہیں، بَل کِہ وہ پھر بھی ہاتھ کے اشاروں سے اک طویل و با معنیٰ اور ڈھنگ کی گفتگو تو کر لیتے ہیں۔
مگر انہیں با معنیٰ اور ڈھنگ کی گفتگو سے کیا لینا دینا؟ جن کا ہر جلسہ ہی اپنے مخالف کے نام ہوتا ہے، جن کی تقاریر کا لبِ لباب بھی اسمِ مخالف کے بجز کچھ اور نہیں ہوتا ہے، ایسے سیاسی ادا کار کیا ہی ملک کے حالات کا جائزہ لیں گے اور کیا ہی تجاویز پیش کریں گے۔ اور کوئی بتائے کہ یہ کون سی تقاریر ہیں بھلا جن میں ذرا ذرا سی دیر کے بعد میاں ڈی جے کھلبلی مچا دیتے ہیں؟
ہم نے تو خطیب کے سِحَر کا عالم یہ دیکھا ہے کہ تقریر کا لفظ لفظ سامعین کو اپنے سِحَر میں جکڑے رکھتا ہے، اور اس کی جوشِ خطابت کا سامعین پر اثر یہ ہوتا ہے کہ اک جمِ غفیر یک سماعت ہوئے ہمہ تن گوش نظر آتا ہے۔ تو پھر یہ تقریر کے دوران میاں ڈی جے کا ٹانگ اڑاؤانا کیسا؟ جناب آپ کو یقین ہے کہ قوم سے ہی خطاب کر رہے ہیں؟ حضرت مرزا اسد اللہ خاں غالب نے کہا کہ:
دیکھنا تقریر کی لذت، کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا، یہ بھی میرے دل میں ہے
فی الحال تو ان کے تقاریر میں ان کی معصوم سی انا اور ان کے انگنت روپوں کے مفاد کی لذت ہے۔ اور ساتھ میں اک طرف میاں “ڈی جے” ہیں جو جلسوں میں کی جانے والی تقریروں کی باگ تھامے ہوئے ہیں، تو دوسری طرف میرے شہر کی سیاسی جماعتیں، جو الیکشن کی خوشی میں ہندی گیتوں کے طرز پر متشاعروں کو چار آٹھ روپے دے متشاعری لکھوا، اور اسے بھانڈ قسم کے مصنوعی گویّوں سے گوا کر طرزوں کا بلاتکار کرنے میں شب و روز مصروفِ کار ہیں، اور باقی اطراف میں ان سیاسی رنگ برنگی نغموں سے بے زار آتی آدھی عوام جسے یہ بار بار کہا جا رہا ہو کہ “اجی روٹھ کر اب کہاں جائیے گا، جہاں جائیے گا ہمیں پائیے گا۔”
ان رنگ برنگی نغموں سے جماعت کے لیڈر خود بھی شاذ و نادر ہی واقف ہوں، شاید بہ مشکل ہی کوئی ایک آئٹم انہوں نے غور و غوض سے سنا ہو، ذرا سوچنے کی بات ہے جو اپنی اوٹ پٹانگ حرکتوں کو نظر انداز کرتے ہوں، وہ کیا خاک شہر اور شہر والوں کے حامی و ناصر ہوں گے؟ یہ اپنی غیر ذمے داری کا بھرے ہجوم میں چیخ چیخ کر ثبوت دیتے سیاسی ادا کار کیوں کر ہماری ٹھمکتی، جھومتی، ناچتی، گاتی آدھی عوام کو نظر نہیں آتے؟
کہیں پڑھا تھا کہ “جمہوریت کا مطلب یہی ہے کہ عوام سوال اٹھائیں۔ وہ حکمرانوں سے پوچھ سکیں کہ آپ کا منشور کیا ہے، منصوبے کیا ہیں اور کیوں نہیں آپ پچھلے منشور پر پورا اترے”۔ میں پورے وثوق سے یہ بات کہتا ہوں کہ یہ عوام جس دن ٹھمکنا بند کر دے گی اس دن سوال کیا سوالات اٹھیں گے۔ جیمس فریمین کلارک نے کہا
A politician thinks of the next election. A statesman of the next generation.
ایک سیاست دان آنے والے انتخابات کے لیے سوچتا ہے اور ایک صاحبِ فراست و تدبیر آنے والی نسل کے لیے۔ خیر انتخابات میں باقی چند ہی روز رہ گئے ہیں، یعنی ان سیاسی ادا کاروں کے مفادی شور شرابوں سے آدھی عوام کو جلد ہی چھٹکارا ملنے والا ہے، اور آدھی عوام اپنے اپنے سیاسی راہ نماوں، مسیحاؤں کو ایک بار پھر عید کا چاند ہوتے دیکھنے والی ہے۔