کالج کا پہلا دن، جب مجھے انگریزی بولنا پڑی
از، اظہر حسین
یہ بیسویں صدی کے آخری برس کا ستمبر ہے۔ ان دنوں ستمبر اتنا نہیں جلتا جلاتا تھا جتنا کہ آج۔ میں نے دسویں پاس کرکے، فارمن کرسچن کالج میں گیارہویں جماعت کے لیے تازہ تازہ داخلہ بھرا ہے۔ میٹرک کی پڑھائی لاہور کے مذہبی ادارے جامعہ نعیمیہ، گڑھی شاہو سے کی ہے جہاں اِن دنوں صرف آرٹس مضامین ہی رکھنے کی اجازت ہے۔ ایک طرح سے یہ مدرسہ انیسوں صدی کے یورپی مدرسوں کی طرز کی محدود تعلیم دینے کا پابند ہے۔ جی ہاں، انیسوں صدی کے یورپی اور یوریشیائی مدرسے اپنی قومی زبان پر اطالوی اور یونانی زبانوں میں تعلیم دینے کو ترجیح دیتے، مذہبی تعلیم کو کورس میں اغلب رکھتے، خواتین کے تحصیلِ علم کو کم اہم گردانتے، بل کہ تقریباََ نہ مانتے ہیں۔
کیمبرج یونیورسٹی میں خواتین لیکچر لینے نہ جاسکتی ہیں۔ اُدھر روس میں، خواتین کے لیے پیٹرزبرگ میں تعلیم لینا اٹھارہ سو ستاون میں ممکن بنایا گیا ہے۔ انگلستان میں دنیوی و مذہبی تعلیم، عورت اور مرد دونوں کے لیے، ملکہ وکٹوریہ کے اخیرلے برسوں یعنی اٹھارہ سو ننانوے میں سہل انداز ہوئی ہے۔ اس کے پورے سو سال بعد، یعنی انیس سو ننانوے کے ستمبر میں، میں اس وقت ایف سی کالج کے پی بلاک کے باہر، پریشان کھڑا ہوں۔
آج کالج میں پہلا دن ہے۔ مجھ ایسے سٹوڈنٹ کا، جس نے کبھی کسی اسکول کا مُنھ نہ تاکا ہو، ساری عمر مذہبی مدرسوں کی خاک چھانی ہو، آج کچھ زیادہ ہی پہلا دن ہے۔ اوپر سے کالج اتنا وسیع، اتنا کشادہ: یہ بڑے بڑے گھاسی میدان، گرد جن کے کھلی کھلی صاف روشیں، کنارے کنارے جن روشوں کے گھنے سبز اونچے لمبے پیڑ، جن پربیٹھے کوؤں کی کائیں کائیں، چڑیوں کی چوں چچوں، کبوتروں کی غٹرغوں، ہر دم آپ کو سنائی پڑے، قریب و دور پتھریلے بینچوں پر بیٹھی رنگ رنگ کے قیمتی کپڑوں میں ملبوس نازک خلقِ خدا آپ کو دکھائی پڑے۔ اور اگر آپ ٹھیرے ہوں ان تنگ دماغ مدرسوں کی منیوفیکچر، تو یہ سب دیکھ، سُن احساسِ کم تری کا آپ پہ چھا جانالازم آ جاتا ہے۔
تو حضورِ والا، میں پریشان کھڑا ہوں کہ پی بلاک کا کمرہ نمبر ۱۷ معلوم نہیں۔ پھر میری مدد کو وہ آتا ہے، جو بعد میں اپنا نام فرقان تنویر بتاتا ہے اور چند مہینوں میں میرا سب سے قریبی ساتھی بن جاتا ہے۔ فالسے کی شاخ کی طرح نرم اور لچکیلا، پر اعتماد صورت یہ لڑکا مجھے اپنے ساتھ انگریزی ادب کی جماعت میں لے آیا ہے۔ کھچا کھچ بھرا یہ کمرہ، جن روحوں کو سمائے ہوئے ہے، ان میں زیادہ تر کا تعلق بڑے گھروں سے ہے، نرم نرم مگر مضبوط خال و خط، چمکتے دمکتے چہرے، ایک ایک حرکت سے جھلکتا امیرانہ اعتماد۔
سب اک دُوجے سے یوں باتیں کرتے ہیں جیسے ان پر پہلے دن والے خوف کا سایہ بھی نہ پڑا ہو۔ بولتے جاتے ہیں، ہنستے جاتے ہیں، ہنستے جاتے ہیں، بولتے جاتے ہیں، پھر پروفیسر داخل ہوتے ہیں۔ اخروٹ کے چھلکے کی طرح کی سخت مگر پیچ دار صورت لیے، سنجیدہ سا بولتا ہے مگر واہ کیا انگریزی بولتے ہیں۔ پھر فرمان جاری ہوتا ہے۔ سب اپنا اپنا تعارف کرائیں: نام، بیرونِ لاہورسے ہونے کے صورت میں شہر کا نام، انگریزی ادب کا مضمون کیوں چنا۔
مزید ملاحظہ کیجیے: عمرے پر گئی حکومت پاکستان: اللہ میاں ہے نا
سب نارمل اور خوش خوش تعارف کراتے جاتے ہیں۔ انگریزی میں! میں کیسے بولوں گا انگریزی! دل کی دھڑکن قابو سے باہر ہوئی جاتی ہے۔ پراسپیکٹس سے مضامین کا یہ سیٹ اختیار کرتے سمے تو یہ سوچا ہی نہ تھا کہ انگریزی ادب کی کلاس میں انگریزی بولنا پڑے گی۔ حال آں کہ مدرسے میں عربی ادب کے لیکچر میں مناسب انداز میں عربی بول، سُن اور لکھ سکنے کی مشق تھی۔ تب عربی بولتے ہوئے خیال بھی کب آتا کہ عربی بول رہے ہیں۔ اور پھر فارسی کی جماعت میں، فارسی سننا، پڑھنا، اور کچھ کچھ بولنا بھی قدرتی سا تھا۔
میٹرک میں، سب مجھے انگریزی میں اچھا ریٹ کرتے۔ میں لکھنے میں بہترین، اور اپنے تئیں “فر فر” بولنے پر قادر تھا۔ مگر یہاں، اصل والی انگریزی بولی جارہی ہے۔ مدرسوں والی نہیں۔ “رفت: گیا” اور “بود: تھا” سے کئی گز آگے کی زبان۔
تعارف چلتے چلاتے مجھ تک پہنچتا ہے۔ مجھے ناول اور شاعری پڑھنے کا شوق ہے، جبھی یہ مضمون رکھا۔ میں خوف پر کچے اعتماد کی تہ چڑھا کر بولتا ہوں۔ انگریزی میں کس لکھاری کا ناول پڑھا آج تک؟ پروفیسر کا مُضحِکہ خیز انداز میں میری کم اعتمادی پر سوال اٹھانا مجھے اور الجھن میں پھینک دیتا ہے۔
جناب اظہر حسین، سوچنے کا نہیں، عزت بچانے کا وقت ہے، میرا جی مجھے سمجھاتا ہے۔ شیکسپئرکے دو ناول پڑھے ہیں۔ ساری کلاس ہاہاہاہا، ہی ہی ہی کے شور سے بھر جاتی ہے۔ میں فوراََ سمجھ نہیں پاتا کہ کیا ماجرا ہے، بولا تو میں نے سچ ہے کہ میں شیکسپئر کی تلخیص شدہ کہانیوں کی ایک کتاب “شیکسپئر آسان” میں سے دو ایک کہانیاں پڑھ چکا ہوں۔ یہی نہیں، آکسفرڈ کی گریڈ اول کی کئی ناولوں کی تلخیص بھی پڑھ رکھی ہے۔
پھر یہ سب ہنسے تو کیوں ہنسے۔ ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ پروفیسر نے دوجا سوال داغا: کتاب کھولو اور دیکھو، پہلے سبق کا عنوان ہے “spoon feeding”، اس کا مطلب واضح کرو، نو جوان۔ میں سمجھ گیا کہ یہ سراسر پھنسانے والی بات ہوئی۔ کسی اور سٹوڈنٹ سے تو ایسے مغرور طریقے سے بحث نہیں کی گئی تو میں ہی ان کا نشانہ کیوں بن گیا ہوں۔ کیا یہ پروفیسر جان گئے ہیں کہ میں کسی مذہبی مدرسے کی پیداوار ہوں، یا میری ڈاڑھی کے نکلتے ہوئے اَن مُنڈھے بال مجھے مولوی سا جھلکا رہے ہیں، یا میرا پنجابی لہجے میں انگریزی بولنا انہیں ناگوار احساس دے گیا ہے جس کے تلے دب کر یہ غصیلہ اور ظالم ہوا جاتا ہے۔
مگر مجھے جواب تو دینا ہی تھا، سو میں نے دیا: ا س کا مطلب ہے چمچے سے کھلانا! ہاہاہاہا، ہی ہی ہی، پوری کلاس ایک بار پھر ہنسی۔ اس بار زیادہ حقارت سے، البتہ میرا مدد گار وہ لڑکا، نہایت سنجیدہ، بل کہ میرے درد میں برابر کا شریک دکھائی دیا۔ اس جواب کے ساتھ ہی مجھے بٹھا دیا گیا۔ کلاس جاری رہی مگر میرا ذھن پوچھے گئے ان سوالوں کے دُرست جوابوں کی ڈھونڈ میں الجھا رہا۔ آخر میں غلط ہوا تو کہاں اور کیسے ہوا۔
لو جی یہ بات ہے! شیکسپئر شاعر اور ڈرامہ نویس ہے کوئی ناول نگار نہیں۔ دُوجا، شیکسپئر کو پڑھنے کا مطلب ہے اس کے ڈراموں کے متن کو پڑھنا، جسے پڑھنے کا گیارہویں جماعت کے پہلے دن میں بیٹھا کوئی سٹوڈنٹ دعوٰی دار نہیں ہو سکتا۔ مجھ ایسا پنجابی لہجے اور برے تلفظ میں انگریزی بولنے والا تو بالکل بھی نہیں۔ اور spoon feeding کا لغوی نہیں اصطلاحی مطلب واضح کرنا تھا۔
جماعت اور پروفیسر کے مجھ پر ہنسنے کی وجہ تو مجھے معلوم پڑ ہی گئی تھی مگر اس وجہ نے احساسِ کم تری کے کُنویں میں دھکیلنے کے بجائے، مجھے انگریزی کے معروف مصنفوں اور کتابوں کی ڈھونڈ، پڑھت اور تحقیق پر مجبور کر دیا۔ پہلا دن تو جیسے تیسے گزر گیا۔ مگر آنے وانے دن میرے لیے ایسے آسان، زندہ، دل چسپ اور خوش گوار کر گیا کہ میرا دل ایکڑوں پھیلے کالج کے کسی اور کونے میں اتنی طمانیت محسوس نہ کرتا جتنی اسے کالج کے کتب خانے میں ملتی۔ یوں کالج میں پہلے دن نے میرے کالج کے آنے والے دن یاد گار بنا دیے۔
شیکسپئر کے ناولوں کی خیر!