اے ووٹر! جب وہ سبز باغ دکھائیں تو ذرا رکیو
از، وسعت اللہ خان
میں بھی ایک ووٹر ہوں اور اس ناتے اپنے کروڑوں ووٹر بھائیوں، بہنوں سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں تاکہ پچیس جولائی کو انتخابات ہونے کی صورت میں آپ بلا کسی کنفیوژن، لارے لپے یا سماجی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر ووٹ کا حق استعمال کرنے کی کوشش کر سکیں۔ سیاسی جماعتوں کا تو کام ہی وعدے کرنا اور پھر ان وعدوں کی تکمیل کے بدلے ایک لمبی تاویلاتی بریانی کھلانا ہے۔ اس بار بھی اگر آپ یہ بریانی کھانا پسند کریں تو بصد شوق مگر با ہوش و حواس تناول فرمائیں، کسی لاعلمی، خوش گمانی، سبز باغ، یا راتوں رات حالات بدل جانے کے دھوکے میں آ کر نہ کھائیں۔
کیا آپ کے علم ہے کہ پچاس فیصد شادیاں کیوں ٹوٹ جاتی ہیں یا نہیں بھی ٹوٹتیں تو تلخ کیوں ہوجاتی ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ محبوبانِ کرام فرطِ جذبات میں ایک دوسرے سے وہ وعدے کر بیٹھتے ہیں کہ نشہ اترتے ہی خود ہی حیران و پریشان ہو جاتے ہیں کہ اچھا یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے ایک دوسرے کو یہ یہ وچن دیا تھا؟ اگر دونوں میں سے کوئی ایک بھی جذبات میں مکمل اندھا نہ ہو تو رشتہ بننے سے پہلے ہی دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوسکتا ہے اور اس کے بعد دونوں جو بھی فیصلہ کریں گے وہ زیادہ بااعتماد و پائیدار و خوش گوار ہوگا۔
مثلاً اگر ظفر کی تنخواہ بیس ہزار روپے ہے مگر وہ وعدہ کر بیٹھتا ہے کہ شادی کے بعد ہنی مون ماریشس میں منایا جائے گا۔ یہی مقام ہے کہ اس کی محبت میں ڈوبی ناہید کو کھٹک جانا چاہیے کہ ظفر جو وعدہ کر رہا ہے عملاً کیسے نبھا پائے گا۔ پر کیا کیا جائے۔ اس کم بخت لگن، ضرورت، سیاست اور محبت میں دھوکا کھانا بھی اچھا لگتا ہے۔
اس اصول کی بنیاد پر میں پھر کہہ رہا ہوں کہ ووٹر دھوکا ضرور کھائیں لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جان بوجھ کر بے وقوف بن رہے ہیں۔ لاعلمی میں مارے جائیں تو پھر اگلے انتخابات تک حالات و بے وفائی کا مرثیہ پڑھنے کے بجائے اپنے لیے سوز خوانی کا اہتمام کر لیں۔
مثلاً اگر کوئی کہے کہ پانچ برس میں وہ بے گھروں یا کم آمدنی والوں کے لیے ایک کروڑ مکان بنا کر دے گا تو اس سے بحث کرنے کے بجائے خود ہی سوچیے کہ یہ کیسے ممکن ہوگا؟ جس معیشت میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ اور ادارے ٹیکس یا اپنے قانونی واجبات کلیئر کرنے کے عادی ہوں، جس ملک کی معیشت یا تو آئی ایم ایف کے ٹِیکے کی عادی ہو یا اس توقع پر تکیہ رکھ رہی ہو کہ میرے محلے کی سڑک بھی سی پیک میں شامل ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہے۔ قرضہ چڑھے گا تو کیا ہوا۔ کون سا میری نسل کو اتارنا ہے۔ اگلی نسل جانے اور قرضہ دینے اور وصولنے والے جانیں۔
اگر کوئی آپ سے اس وعدے پر ووٹ مانگے کہ آبی قحط سالی دور کرنے کے لیے اس کی اولین ترجیح یہ ہو گی کہ کالا باغ ڈیم اور بھاشا ڈیم کے منصوبے اگلے پانچ برس میں مکمل کر لیے جائیں گے تو پلیز طیش میں آ کر احتجاجی ریلیوں اور توڑ پھوڑ پر نہ اتر آئیے گا۔
الیکشن مہم جذباتی زمانہ ہوتا ہے۔ ہر کوئی کچھ بھی کہہ کر اپنی دُکان چمکانا یا توجہ اور ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان دعوؤں کو اسی تناظر میں دیکھیے گا اور پھر سوچیے گا کہ بھاشا ڈیم کا پرویز مشرف سے نواز شریف تک ہر حکمران سنگ بنیاد رکھ چکا ہے۔ مگر یہ ایسا سفید ہاتھی کیوں بن گیا ہے کہ مغربی ساہو کار تو کجا خود چین والے بھی اس پروجیکٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے دس بار سوچ چکے ہیں۔
رہی بات کالا باغ ڈیم کی تو تین صوبائی اسمبلیوں کی کالاباغ ڈیم مخالف قرار دادوں اور ان صوبوں کی قوم پرست یا قومی قیادت کی جانب سے مُتفِقہ طور پر مسترد کیے جانے اور سپریم کورٹ کی جانب سے بھی اس بارے میں کوئی واضح رائے دینے سے احتیاطی ہچکچاہٹ کے بعد کون سا رستم کالاباغ ڈیم کے کھولتے کڑھاؤ میں ہاتھ ڈالے گا؟
مزید دیکھیے: نئے اسلام آباد ایئرپورٹ کا اسم گرامی رکھنے پر جھگڑا
اگر آپ کو اس دعوے کے غیر عملی ہونے کے بارے میں مزید ثبوت چاہیے تو کسی بھی ملک گیر مذہبی یا سیاسی جماعت کی صوبائی قیادتوں کی حکمتِ عملی دیکھ لیں۔کیا پنجاب میں کسی جماعت کی صوبائی قیادت کالا باغ کے خلاف اور سندھ و خیبر پختون خوا میں اسی جماعت کی صوبائی قیادت کالاباغ کے حق میں بات کر سکتی ہے؟ بھلے وہ مسلم لیگ نون یا تحریکِ انصاف ہی کیوں نہ ہوں۔
اور اگر کوئی آپ کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس شیشے میں اتارنے کی کوشش کرے کہ حکومت بنتے ہی آپ کو جنوبی پنجاب یا کراچی صوبہ تھما دے گا تو یہ لولی پاپ لینے سے پہلے دس بار سوچیے گا اور یہ پوچھیے گا کہ آخر یہ چمتکار کیسے ممکن ہوگا؟ یا تو لولی پاپ بیچنے والے نے آئین نہیں پڑھا یا اسے یقین ہے کہ آپ نے آئین نہیں پڑھا یا پھر نئے صوبے بنانے کے وعدہ داروں کے پاس کوئی ایسی گیدڑ سِنگھی ہے جو ہم میں سے کسی نے اب تک نہیں دیکھی۔
ہمارے آئین میں صاف صاف لکھا ہے کہ موجودہ چار صوبوں کی جغرافیائی حدود میں کسی بھی طرح کا رد و بدل تب ہی ممکن ہے اگر متعلقہ صوبے کی اسمبلی، پھر قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ اس مقصد کے لیے طلب کیے گئے الگ الگ خصوصی اجلاسوں میں ارکان کی دو تہائی اکثریت سے صوبائی حدود میں کمی بیشی کی قرار داد منظور کریں۔ اس جاں گسل مرحلے کے بعد ہی صدرِ مملکت کسی بھی صوبے میں سے نیا صوبہ تشکیل دینے یا کسی غیرصوبائی علاقے (مثلاً فاٹا) کو کسی موجودہ صوبے میں ضم کرنے کے ایکٹ پر دستخط کرنے کے مجاز ہیں۔
یعنی اگر پیپلز پارٹی یا تحریکِ انصاف موجودہ پنجاب کے دو حصے کرنے یا ایم کیو ایم کراچی کو سندھ سے الگ صوبہ بنانے پر کار بند ہو بھی جائے تو یہ وعدہ اسی صورت میں اِیفا ہو سکتا ہے اگر پنجاب اسمبلی میں تحریکِ انصاف و پیپلز پارٹی اور سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم دو تہائی اکثریت سے یہ قانون منظور کروا کے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بھی دو تہائی منظوری لینے کی پوزیشن میں ہو۔کیا پچیس جولائی کے بعد ایسا ہونا کسی کو بھی ممکن لگ رہا ہے؟ جسے لگ رہا ہو وہ بصد شوق اس وعدے پر یقین کر کے ووٹ دینے کا فیصلہ کرے۔
ویسے تو آپ کو کسی بھی امیدوار کو ووٹ دیتے وقت اس کے سیاسی و مالی و سماجی ماضی اور حال کو بھی پرکھنا چاہیے کیونکہ اگلے انتخابات تک یہی امیدوار میری آپ کی آئینی قسمت کے اجتماعی مالک ہوں گے۔ مگر ایسی فرمائش میں یوں نہیں کر رہا کہ ابھی تو ہم ان ذہنی زنجیروں سے ہی خود کو آزاد نہیں کروا پائے کہ میری محبوب جماعت اور میری برادری اگر بیل کو بھی کھڑا کر دے تو ووٹ کیا جان حاضر ہے۔ جن قوموں نے یہ زنجیریں توڑ دیں وہاں کی جمہوریت کے معیار و ثمرات اور اپنے ہاں کی جمہوریت کا موازنہ پچیس جولائی سے پہلے کم از کم ایک بار کرنا نہ بھولیے گا۔
بشکریہ ایکسپریس اردو، بعنوان : کیا ناہید کو ظفر پر یقین کرنا چاہیے؟