جبل نور اور پاکستانی بھکاری
از، ڈاکٹر عبدالواجد تبسم
گزشتہ سال کے اپریل میں راقم کو بیت اللہ کی زیارت نصیب ہوئی۔ عمرہ سے فارغ ہونے کے دل میں خواہش جاگی کہ کیوں نہ مکہ کے قُرب وجوار کےمقاماتِ مقدسہ کی زیارت کی جائے۔ دل نےکہا کہ آغازجبلِ نُور سے کرو، کیوں کہ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں علم وعرفاں کا آغاز ہوا تھا اور دنیا سے جہالت کی تاریکی کے بادل چھٹنےشروع ہو گئے تھے۔
چنانچہ علی الصبح ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے رخت سفر باندھا ،جس میں تھوڑی سی کھجور اور زم زم کا پانی تھا، ہوٹل سے باہر نکلے ایک ٹیکسی کو ہاتھ دیا، سوار ہوئے اور اسے اپنی منزل کا پتا بتایا۔
پندرہ بیس منٹ کی مسافت کے بعد وہ ایک پہاڑ کی بلندی کی طرف جاتی ہوئی تنگ سڑک کے دہانے پر رک گیا اور مجھ سے کہا کہ یہ سڑک جبل نور کو جاتی ہے، یہاں سے آگے آپ کو پیدل جانا ہوگا۔
گاڑی سے اترکرمیں نے فضا کی طرف بلند ہوتی، بَل کھاتی ہوئی سڑک کی جانب دیکھا اورپھر دل کوحوصلہ دیا کہ نہیں جانا ہے۔ ابھی کیفیت یہ تھی کہ ہر دس گام کے بعد ہمت جواب دے جاتی اور ٹانگوں میں دم نہ رہتا مگر دل کا حوصلہ جواب نہ دیتا۔
جوں ہی سڑک ختم ہوئی تو نگاہیں اس پہاڑ سے ٹکرائیں جو فضا میں معلق تھا اور جس کی چوٹی تک نگاہ ڈالنے کے لیےچہرے کو نوکِ تلوار کے مانند بلند کرنا پڑتا تھا۔ اوراس پرلوگوں کی قطار چونٹیوں کی طرح رینگتی نظر آرہی تھی۔
میں نے اتنی بلند چوٹی زندگی میں پہلےکبھی نہیں دیکھی تھی۔ ہمت نے ساتھ چھوڑ دیا مگر دل نے کہا کہ ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں۔ میں نے پاس ہی بیٹھے ایک ایرانی بزرگ جوڑے کو دیکھا جن کے چہروں کی تھکن اور سانسوں کی رفتار سے عیاں ہو رہا تھا کہ وہ بھی چند لمحے پہلے آکر توقف کے لیے بیٹھے تھے تو حوصلہ ہوا کہ اگر یہ جا سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں۔
بیٹھے بیٹھے ان سے مکالمہ شروع ہو گیا اور وہ یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ میں فارسی بول لیتا ہوں۔ حال، احوال کے بعد اس نے مجھ پر یہ سوال کیا کہ “شیعہ است کہ سنی است؟ میرا تصور جبل نور کے ان تصورات میں گم تھا کہ جب نبی ﷺ پرجبریل امین پہلی وحی لے کر نازل ہوئے تھے۔
لیکن اس سوال نے میرے ان تصورات کا تانا بانا توڑدیا اورمیرے مُنھ سے نکلا “نہ شیعہ ہستم نہ سنی ہستم۔ مسلمان ہستم زیرا کہ بر جبل نور ایستادہ ام” کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ابھی یہ طے پایا کہ اوپر جاتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی کی طرف نہیں دیکھنا، نہیں تو پھر اوپر جانا زیادہ مشکل معلوم ہو گا۔
ابھی دس قدم آگے بڑھا ہوں گا کہ ایک طرف سندھی ٹوپی پہنے ایک شخص بیٹھا نظر آیا، خوشی ہوئی کے ایک پاکستانی سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے سندھی میں کہا کہ”سندھی مانُو” تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی مگر میری یہ خوشی اس وقت افسوس میں بدل گئی کہ جب اس نے مجھ سے سندھی میں بھیک مانگنا شروع کر دی۔ میں نے کہا میں تو پنجابی ہوں تو اس نے پنجابی بولنا شروع کر دی۔ میں نے کہا میں ہندکو بولنے والا ہوں تو اس نے کہا جو مرضی بولو خواہ عربی ہو، فارسی یا ترکی میں ہر زبان بول لیتا ہوں۔
جب اس نے دیکھا کہ میں خواہ مخواہ اس کا وقت ضائع کر رہا ہوں تو اس نے مزید میری باتوں کا جواب نہ دیا اور میرے پیچھے آنے والے ایرانیوں سے فارسی میں مانگنا شروع کر دیا۔
پھر ہر دس پندرہ قدم کے بعد میری کسی نہ کسی پاکستانی سے ملاقات ہو جاتی ،میں نے اندازہ لگایا کہ وہ ہر ایک سے اس کی زبان میں بھیک مانگتے ہیں اور ان میں سے اکثرکا دل پسیج جاتا اور وہ ا نھیں کچھ نہ کچھ دے دیتے۔
اب ہر تھوڑے فاصلے پر میری کسی بھکاری سے مڈ بھیڑ ہو جاتی۔ ان بھکاریوں نے وہاں اپنے ٹھہرنے کا مستقل انتظام کیا ہوا تھا، گھاس پُھوس کے جھونپڑوں سے لے کر ٹِین کی چھتوں تک جو انھیں سردی گرمی سے بچاتی ہیں اور یہاں بیٹھے بیٹھے انھیں اتنا عرصہ ہو گیا ہے کہ وہ مختلف زبانیں جان گئے ہیں اور لوگوں کی نفسیات سے بھی آگاہ ہو گئے ہیں۔
مزید آگے دیکھا تو ایک شخص سیمنٹ کی بوری میں تھوڑا سا سیمنٹ لیے بیٹھا تھا اور ایک پہلے سے بنی ہوئی سیڑھی کو پختہ کر رہا تھا اور اس کابھیک مانگنے کا طر یقہ تھوڑا سا مختلف تھا۔ یہ راستہ بنانے کہ بہانے لوگوں سے پیسے مانگ رہا تھا۔
جبل نور کے نصف تک پہنچتے پہنچتے ہمت جواب دینے لگی تو میں نے ایک نوجوان پاکستانی بھکاری جس نے ایک خوب صورت جھونپڑا بنایا تھا کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ بھی دوسرے بھکاریوں کی طرح مختلف زبانیں جانتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہاں کیسے آئے تو جواب دیا کہ جیسے تم آئے ہو۔ میں نے کہا میں تو جہاز پر بیٹھ کر آیا ہوں تو کہنے لگا کہ میں بھی”پی آ” پہ بیٹھ کے آیا ہوں۔ میں نے کہا وہ کون سی سواری ہے، تو کہنے لگا پی آئی اے۔
مجھے اس کی باتوں سے دل چسپی ہونے لگی۔ میں نے کہا اتنی مقدس جگہ پر بیٹھ کر تم بھیک مانگ رہے ہو تو کہنے لگا کہ میرا ایک ہاتھ نہیں۔ تو میں نے کہا وہ تو میرے بیٹے کا بھی نہیں۔ کہنے لگا کہ تمھارے پاس پیسے ہیں۔ تم اسے پڑھاتے ہو تاکہ وہ بڑا آدمی بن جائے، میں کہاں سے لاؤں۔ جب میں نے اس سے مزید احوال لینا چاہا تو اس نے مجھے کہا کہ یہاں سے جاؤ میرے کام کا وقت ہے۔
بہرحال میں جیسے تیسے کر کے غارِ حرا تک پہنچا، وہاں نوافل ادا کیے اور واپسی پر سارا راستہ اسی سوچ میں طے ہوا کہ یہ تو بہت مقدس مقام ہے۔ یہ جبل نور ہے، اور ہم نے اس کے نور سے سینے بھرنے کے بجائے پیٹ بھرنے شروع کر دیے ہیں۔