سچی بات کہنے کے جرم، جمہوریت اور عاصمہ جہانگیر
از، نصیر احمد
ہراچھے انسان کی موت کا زندوں پر ایک اثر ہوتا ہے اور یہ اثر تنہائی کے احساس سے متعلق ہوتا ہے۔ یا تنہائی کا احساس ہو نے لگتا ہے اور اگر یہ احساس پہلے سے موجود ہو تو بڑھ جاتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی موت کا کچھ ایسا ہی اثر ہم پر ہوا ہے۔ تنہائی بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے۔ وطن میں بات تو عاصمہ کی جدوجہد کے باوجود کاملیت پرستوں کی چل رہی ہے۔ وہ ایک مسلسل صدائے احتجاج کے طور پر موجود تھیں، وہ نہیں رہیں، تو سناٹا ہو گا اور تنہائی بھی بڑھے گی۔
اب یہ کاملیت پرستی لینن اور سٹالن کے نام سے ہو، علامہ اقبال کے نام سے ہو، مودودی کے نام سے ہو، خمینی کے نام سے ہو، سید قطب کے نام سے ہو، ماؤ کے نام سے ہو، علی شریعتی کے نام سے ہو، صوفیوں کے نام سے ہو یا علمائے کرام کے نام سے ہو، علاقے کے نام سے ہو، زبان کے نام سے ہو، رنگ کے نام سے ہو، ثقافت کے نام سے ہو، مذہب کے نام سے ہو، قوم کے نام سے ہو، اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا کہ راون کے جتنے بھی سر ہیں، ہر سر سے بدی کا ہی فروغ ہوتا ہے۔
کاملیت پرستی سے جڑی ہوئی بدی کا مقابلہ، انسان، فرد اور شہری کے حقوق اور فرائض کے بارے میں معاشرے میں موثر گفتگو کرنے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ اس عالمی اتفاق رائے کا ایک نتیجہ ہے۔ عاصمہ ہماری قومی زندگی کے لیے اس وجہ سے بھی اہم ہیں کہ انھوں نے اس کاملیت پرستی کے نتائج کے خلاف انسانی، انفرادی ،شہری حقوق کے تحفظ پر مبنی ایک آئینی جمہوری نظام کے لیے بڑی بہادری سے مسلسل گفتگو کی ہے۔
کاملیت پرستی کے ایک گھناؤنا روپ نسل کشی ہے۔ جب 1971 میں ہماری حکومت مشرقی پاکستان میں اپنے ہی شہریوں کا قتلِ عام کر رہی تھی اور ہم میں سے اکثر اس ظلم پر خاموش تھے، عاصمہ اس وقت بھی اس خون ریزی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہی تھیں۔ یہ ان کا آغاز تھا لیکن ماورائے قانون جدال و قتال کے خلاف یہ گفتگو انھوں نے اپنی موت تک جاری رکھی۔
کاملیت پرستی کا ایک اور بھیس آمریت کا ہوتا ہے۔ ایک مہربان آمریت کا جو باقی سب انسانوں سے دانا ہوتی ہے اور جسے ماضی، حال اور مستقبل سب کی خبرہوتی ہے۔ عاصمہ اس آمریت کے فریب میں کبھی بھی نہ آئیں اور پاکستان میں،ایوب، یحیی، ضیا اور مشرف آمریتوں کے خلاف آئین اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے مسلسل شور مچاتی رہیں۔
کاملیت پرستی کا ایک روپ اقلیت دشمنی کا بھی ہے۔ جب جب بھی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کیا گیا، امتیازی قوانین بنائے گئے اور اقلیتوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے ان ناجائز قوانین کا سرکاری سرپرستی میں ناجائز تر استعمال کیا گیا، عاصمہ اقلیتوں کی انسانی اور قانونی برابری پر اصرار کرتی رہیں۔
کاملیت پرستی کی ایک اور شکل معاشرے کے خود ساختہ محافظوں کے احتساب سے بالاتر ہونے کی صورت میں ظاہر کی جاتی ہے۔ اس باب میں بھی عاصمہ مسلسل ایک غیر جانبدارانہ اور جیسے کہتے ہیں ایکراس دی بورڈ احتساب کے لیے مسلسل آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ جب سیاست دان عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑے کیے جانے لگے تو عاصمہ پوچھتی رہی ہیں کہ آمریت کے حمایتی فوجی افسران ان کٹہروں میں کیوں موجود نہیں ہیں؟
کاملیت پرستی کا ایک اور رخ معاشرے میں طبقاتی یا صنفی دشمنی کے فروغ کا بھی ہے۔ ہمارے ہاں کی کاملیت پرستی اپنے اسباب چونکہ مذہب میں ڈھونڈتی ہے، اس لیے خواتین کے حقوق کی پامالی کو اپنا فرض جانتی ہے۔ حالانکہ مذہب کی ایسی تفاسیر موجود ہیں جو خواتین کے حقوق کی پامالی کی اجازت نہیں دیتیں مگر کاملیت پرستی نے فکر سے نکات ہویدا نہیں کرنے ہوتے اور نہ نہ کرتے ہوئے بھی صورت کی ہی پوجا کرنی ہوتی ہے، اس لیے حقوق کی پامالی کو مسجد و خانقاہ سے سند مل جاتی ہے اور پارلیمنٹ اس جعلی اسناد کی بنیاد پر جمہوریت اور انسانی حقوق کے منافی قوانین بنا دیتی ہے یا آمروں کے بنائے ہوئے ایسے قوانین کی توثیق کر دیتی ہے۔ اور اس سارے عمل کو تقدیس کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے لیکن عاصمہ نے ان قوانین کی ہمیشہ دلیری سے مخالفت کی ہے۔ عاصمہ اور دوسرے لوگوں کی کوششوں سے کبھی کبھی یہ قوانین کچھ بہتر بھی ہوئے ہیں۔
آمریت، کاملیت پرستی، استبداد، ظلم زیادتی، جبر اور لاقانونیت کی بے شمار شکلیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور ان سب شکلوں کے خلاف آواز اٹھاتی عاصمہ جہانگیر بھی کبھی ہراول میں کبھی صف اول میں ڈٹی ہوئی نظر آ جاتی ہیں۔ ملک کبھی جمہوری ہو گیا، تو ہر شہر میں عاصمہ کے مجسمے بھی نظر آ جائیں گے۔
یہ ہے عاصمہ کی شاندار زندگی، غزل گفتی کہ در سفتی جیسی خوش بیاں زندگی۔ لحظہ بہ لحظہ، لمحہ بہ لمحہ ڈوبتی کشتی کے لیے باد شرطہ جیسی زندگی۔ درویشان بے نوا کے غم بانٹتے صاحب عظمت جیسی زندگی۔ کاملیت پرستی کے اندھیرے میں جمہوریت کی شمع جلاتی زندگی۔ عاصمہ نہیں رہیں، شمع بجھ گئی، خورشید ڈوب گیا، چاند روشنی سے بے صفت ہو گیا، کچھ بھی کہیں، روشنی کا نقصان ہی ہوا ہے۔
لیکن عاصمہ کی سب کاوشوں کے باوجود مشکل سوال موجود ہیں، ان کی ایک طویل کوشش کے باوجود جمہوریت ایک نام ہی ہے جس کے پیچھے ایسے ایسے جابر چھپے بیٹھے ہیں جن کی طرف انگلی بھی اٹھائی نہیں جا سکتی۔
وہ ضیا اور مشرف جیسے جباران ایشیا کے احتساب کی خواہاں تھیں لیکن ملک میں کسی بگڑے ہوئے کلرک کا بھی احتساب ممکن نہیں۔ بھٹو اور ضیا الحق کے جمہوریت مخالف قوانین ابھی تک آئین میں موجود ہیں۔ان کو مسترد کرنا تو دور کی بات ہے، ان میں ضابطے کی ترمیم لانا نا ممکن ہے
اور فرد کی نفسیاتی، معاشرتی، معاشی، اخلاقی، فکری اور سیاسی ترتیب سے جمہوریت ابھی تک بے دخل ہی ہے۔ جمہوریت ایک طریقۂِ واردات بن گئی ہے کسی غیر قانونی دھندے میں کام آئے تو خوش آمدید، نہ آئے تو چشم بد دور۔ اس حساب سے تو ان کی ساری زندگی کی محنت ضائع ہی ہو گئی ہے۔ ہم لوگوں کو ان کی مدد کرنی چاہیے تھی۔ ان پہ جتنا بنتا تھا، اس سے کہیں زیادہ، ان نے کیا۔ ان کی مدد نہ کرنے ہم سب کے پاس بھی بہت سارے جواز موجود ہیں مگر اجتماعی نتائج کچھ اتنے خوش گوار نہیں ہیں۔
اب گلی گلی سے بھٹو نکلے، نواز شریف نکلے، وہاں کوئی آمر یا کسی آمر کا گماشتہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ عاصمہ نظر نہیں آتیں۔ ہاں اچھی اور سچی بات کہنے کے جرم میں صحرا سہتے لوگوں کی فکر میں عاصمہ نظر آ جاتی ہیں مگر اچھی اور سچی بات کی جگہ قبول عام ہی ہے۔ اور یہ صورتحال بدلنے کے لیے ہمیں جمہوریت سے خلوص کا رشتہ قائم کرنا ہو گا۔