جمہوریت ہی نہیں ہندوازم بھی سخت گیریت کی زد میں
(شکیل اختر) بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
انڈیا کی ریاست کرناٹک میں گذشتہ بدھ لنگایت برادری کے ہزاروں لوگوں نے ایک اجتماع میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ لنگایت کو ہندو مذہب کی ایک ذات کے بجائے ایک علیحدہ مذہب تصور کیا جائے۔ کرناٹک کی چھ کروڑ کی آباد میں لنگایتوں کی آبادی 17 فی صد ہے۔ مہاراشٹرا، تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے بعض علاقوں میں بھی کچھ لنگایت آباد ہیں۔
ریلی میں لنگایت برادری کے مذہبی رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ لنگایت ازم ایک علیحدہ مذہب ہے اور یہ کبھی بھی ہندو مذہب کی ایک ذات یا ذیلی ذات نہیں تھی۔ ریلی میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ لنگایت مسلک کو آئین میں ایک علیحدہ مذہب کے طور پر تسلیم کیا جائے کیونکہ وہ ایک علیحدہ مذہب کے طور پر تسلیم کیے جانے کے لیے درکار تمام شرائط کو پوری کرتا ہے۔
لنگایت ہندو مذہب کے بیشتر پیروکاروں کے برعکس ایک خدا میں یقین رکھتے ہیں اور ان کے خدا ہندو مذہب کے ایک اہم دیوتا شیوا ہیں جن سے مراد آفاقی طاقت یا شکتی سے ہے۔
انڈیا میں ہندوازم یا مذہب اپنے وجود کے ابتدائی دنوں سے ہی بحث و مباحثے کے لیے ہمیشہ کھلا رہا۔ اس مذہب میں ایک خدا پر یقین رکھنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں تو دوسری جانب بہت سے خداؤں پر یقین رکھنے والے پیروکار بھی ہیں۔
یہیں پر ایسے بھی سادھو اور فلسفی پیدا ہوئے جنھوں نے نہ صرف کسی خدا کے وجود سے انکار کیا بلکہ دہریت کی ایک منظم تحریک چلائی اور تمام مسلمہ مذہبی تصورات کو چیلنج کیا۔ مورتی کی پرشتش کرنے والے لوگ ہیں تو بہت سے ایسے ہیں جو مورتی پوجا کے خلاف ہیں۔
مذہب کی رواداری کا یہ عالم تھا کہ لوگ اپنے مذہبی عقیدے کی پروا کیے بغیر مذہبی عالموں کے بحث و مباحثوں اور مناظروں سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔ ہندو ازم سے ہی آگے چل کر جین، بدھ اور سکھ مذاہب بھی بالکل الگ مذہبی تصورات کی شکل میں وجود میں آئے۔
ہندو ازم کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ مذہب نہیں فلسفۂ حیات ہے۔ یہ مسلسل ارتقا میں ہے اور نئی قدروں اور نئے تصورات سے یہ خود کو وسیع کرتا گیا ہے۔ یہیں مورتی پوجا کی مخالفت ہوتی ہے اور یہیں کروڑوں لوگ اس کی پوجا کر رہے ہوتے ہیں۔ دیوی دیوتاؤں کے انتخاب میں بھی لوگ اپنی اپنی پسند کے لیے آزاد ہیں۔
درجنوں مسلک، سینکڑوں تصورات اور متعدد دیوی دیوتاؤں کے باوجود ہندوازم میں کبھی کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ کوئی مٹھ، مندر یا کوئی مذہبی رہنما کسی کو غیر ہندو قرار نہیں دیتا، کسی کو بدعتی نہیں کہا جاتا۔ مسلکوں کے نام پر تشدد اور خونریزی نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ کروڑوں لوگ جوہندو مذہب چھوڑ کر چلے گئے انھیں بھی کبھی گنہگار، منحرف یا منافق نہیں سمجھا جاتا۔
یورپ کو چھوڑ کر شاید دنیا میں بہت کم ایسے مذہبی معاشرے ہوں گے جہاں کرناٹک ک طرح ہزاروں کی تعداد میں لنگایت جمع ہو کر خود کو ہندو مذہب سے علیحدگی کا مطالبہ کریں اور انھیں کوئی برا بھلا بھی نہ کہے۔ لاکھوں دلت ہندو مذہب سے نکل کر بودھ مذہب اختیار کر چکے ہیں۔
لیکن ہندو ازم یا ہندو مذہب کی روادادی اور تصورات کی وسعت کو اب ہندوتوا کے چیلنج کا سامنا ہے۔ ہندوازم کے بر عکس ہندوتوا سیاسی مذہب ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اس کی بنیاد، مذہبی تنگ نظری، منافرت اور سخت گیریت کے تصور پر قائم ہے۔ وہ مختلف رنگوں کے ہندوازم کو ایک واحد رنگ میں ڈھالنا چاہتا ہے۔
اس تصور کے تحت لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ لوگوں کے رہن سہن اور کھانے پینے کے طریقوں تک کو متاثر کیا جاتا ہے۔ اس فلسفے کے تحت انسانوں کو اپنوں اور غیروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے معاشرے میں نفرت پیدا کی جاتی ہے۔ اس کا طویل مدتی مفاد مذہبی نہیں سیاسی ہے۔
مذہبی قوم پرستی کے اس دور میں انڈیا کی جمہوریت ہی نہیں ہندو مذہب کی رواداری اور اعتدال پسندی کی عظیم روایات کو بھی ابھرتی ہوئی سخت گیریت اور تنگ نظری سے شدید خطرہ لاحق ہے لیکن انڈیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جب بھی تاریک پرستوں نے مذہبی رواداری کو تباہ کرنے کی کوشش کی یہ روایات پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور مستحکم ہو کر ابھری ہیں۔