جمہوریت کا آشیانہ ناپائیدار کیوں؟
ملک تنویر احمد
ایک مضبوط اور پائیدار جمہوریت میں کیا ہوتا؟
اگر ایک وزیر اعظم بد عنوانی کے کیس میں عدالت سے سزا یافتہ ٹھہرتا اور نا اہلیت کا سزاوار ٹھہرتا تو وزیر اعظم کو منصب اقتدار سے الگ کر دیا جاتا۔ وزیر اعظم کی سیاسی جماعت سے کوئی اور شخص آگے بڑھتا اور اس منصب کو سنبھال کر کار سرکار کی معمول کے مطابق انجام دہی میں مصرو ف ہو جاتا۔ بد عنوانی ثابت ہونے پر وزیر اعظم یا تو جیل یاترا پر چلا جاتا ہے یا نا اہلی کی صورت میں گھر کو سدھار جاتا ہے۔ چند دن میں لوگ اسے بھول بھال کر آگے بڑھ جاتے کیونکہ ۔۔رہے نام خدا کا۔
ایک مضبوط و پائیدار جمہوریت میں کیا ہوتا؟
جس میں اقتدار کے منصب پر فائز شخص کی معمولی سی مبینہ کرپشن میں خود اس کی اپنی سیاسی جماعت اس کے خلاف صف آرا ہو جاتی کہ اس شخص کے باعث جماعت بد نامی کے بد بودار اور تعفن زدہ تالاب میں لتھڑی جا چکی ہے اور اس کی قربانی دے کر جماعت کے ماتھے پر لگی ہوئی بد نامی کی گند کو صاف کیا جا سکے۔
ملک کی عدالت اور جمہور تو اس بد عنوان شخص کا محاسبہ بعد میں کرتے پہلے اس کی سیاسی جماعت ہی اس پر احتساب اور جواب دہی کے ایسے تابڑ توڑ حملے کرتی کہ وہ شخص ان حملوں سے نڈھال ہو کر سیاست سے ہی توبہ تائب ہو جاتا۔استعفیٰ دیتا اور گوشہ نشین ہو جاتا ہے۔ سیاسی جماعت اور کارکنا ن کے دل و دماغ میں اس شخص کی حیثیت ایک بھولی بسری یاد کے سوا کچھ نہ رہتی کیونکہ۔۔ رہے نام خدا کا۔۔۔۔
پانامہ کیس میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ فیصلہ کیا ہو گا؟ اس کے بارے میں قیاس آرائیوں کے سر پٹ گھوڑے بگٹٹ بھاگے جا رہے ہیں۔ فیصلے کے بارے میں کوئی قطعیت سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اس فیصلے کے منظر عام پر آنے تک پورا ملک اور جمہوری نظام ایک ہیجان کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔ جمہوریت کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپ رہی ہے۔
حکومتی ڈھنڈورچی ڈھول پیٹے جا رہے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ جمہوری نظام پر شب خون مارا جا رہا ہے۔ سازش کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ ملکی ترقی و تعمیر کے خلاف اندرونی و بیرونی ممالک سازش کی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جسے آزادی کے ستر بر س نصیب ہونے چلے ہیں لیکن ایک نا پائیدار اور نازک جمہوریت اس کی جنم جلی قسمت میں لکھ دی گئی ہے۔
پانامہ کیس میں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان پر کیا مضمرات ہوں گے؟ یہ میری دانست میں ایک ثانوی حیثیت کا حامل سوال ہے۔ یہ فیصلہ سیاسی و جمہوری نظام پر کس طرح اثر انداز ہوگا؟ یہ سوال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس سے اہل سیاست، اہل دانش، اہل قلم اور سب سے بڑھ کر اس ملک کے جمہور صرف نظر کر رہے ہیں۔
پانامہ کیس میں ایک خاندان کے ملوث ہونے اور مبینہ طور بد عنوانی الزامات کے بعد ہونے والی عدالت عظمیٰ میں سماعتوں کے نتیجے میں حکمران جماعت کے وزراء اور حاشیہ بردار جس طرح شریف خاندان کے خلاف کسی ممکنہ عدالتی فیصلے کو جمہوریت پر شب خون مارنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں اور خدانخواستہ جمہوری نظام کے تلپٹ ہونے کے خدشات کا کھلم کھلا اظہار کر رہے ہیں یہ اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا سرے سے نام و نشان ہی نہیں۔
ایک سیاسی خاندان کے خلاف پانامہ کیس میں کسی ممکنہ فیصلے کے نتیجے میں جمہوری نظام پر سیاہ با دلوں کے چھا جانے کے جن خدشات کو ہوا دی جا رہی ہے وہ اس حقیقت کا بر ملا اظہار ہے کہ موجودہ جمہوری نظام نا پائیدار بنیادوں پر اٹھایا گیا ہے جس میں شخصی پرستی اور موروثی سیاست کی وہ ریتی بجری ہے جو کسی حقیقی جمہوری معاشرے کی بنیادوں میں استعمال نہیں ہوتی۔
ایک حقیقی جمہوری معاشرے میں جن اقدار پر جمہوریت پنپتی ہے اس کا سرے سے پاکستان میں وجود ہی نہیں ہے۔جمہوری اداروں کی تعمیر و ترقی ایک ایسا امر ہے جو ایک پائیدار جمہوریت کو سند فراہم کرتے ہیں اور ان جمہوری اداروں میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل وہ سیاسی و جمہوری جماعتیں ہیں جو اپنے نظریات اور منشور کی بنیاد پر عوام الناس کی ہمدردیاں اپنے پلڑے میں ڈالنے کے لئے تگ و دو کرتی ہیں۔
آج پاکستان ایک پیچیدہ اور مشکل صورت حال سے دو چار ہے،نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے اپنی ذات کے گرد گھومتی سیاسی جماعتوں کی تشکیل دے کر جمہوریت کو ایسی بند گلی میں دھکیل دیا ہے جس سے با ہر نکلناان کے لئے دو بھر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ ہمارے جمہوری نظام میں شخصیت پرستی کا ہی شاخسانہ ہے کہ آج نواز شریف کی نا اہلی کی صورت میں حکمران جماعت تاش کے پتوں کی طرح بکھر جانے کے خد شے سے دوچار ہے۔
عدالتی فیصلے میں ممکنہ نا اہلی کی صورت میں کون ان کی جگہ سنبھالے گا؟حکمران جماعت کا کیا بنے گا ؟ یہ سب اس موروثی سیاست کے بھیانک تنائج ہیں جو حکمران جماعت کو درپیش ہیں۔ نواز شریف کے بعد شہباز شریف یا پھر خاندان کا کوئی اور فرد مسند اقتدار کو سنبھالنے کا حق دار ٹھہرے گا۔کیا نواز لیگ کی صفوں میں کوئی ایک رجل رشید نہیں پایا جاتا جو وزیر اعظم کی ممکنہ نا اہلی کی صورت میں اس منصب کو سنبھال لے۔کہتے ہیں کہ نواز شریف نا گزیر ہے۔
نواز شریف ہے کیا زمین پر آسمان سے اترا ہوا کوئی اوتار۔۔ جس میں آسمانی قوتوں نے اپنی قوت و دانش ودیعت کر دہی ہو۔ یہ کون سی جمہوریت ہے جو ایک فرد واحد کے گرد گھومتی ہے۔ یہ جمہوریت نہیں شخصی حکمرانی ہے۔ یہ موروثی سیاست کی گند میں لتھڑا ہوا نظام ہے۔ یہ ایک خاندان کی حکمرانی کا نظام ہے۔ یہ اگر حقیقی جمہوریت ہوتی تو کبھی ایک فرد کے خلاف کسی ممکنہ عدالتی فیصلے پر یوں لرزہ براندم نہ ہوتی۔ یہ بادشاہت کا نظام ہے جس میں ایک شخص کے حق حکمرانی کے لئے وزراء، قصیدہ خواں اور درباری دہائیاں دیتے پھر رہے ہیں ع
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسمان جیسے