جمہوریت کا غم
ملک تنویر احمد
شیخ سعدی کا قول ہے کہ غم نداری بزنجز۔ اگر تجھے کوئی غم نہیں تو ایک بکری خرید لے ، پھر دیکھ تیرا کیا حال ہوتا ہے۔ ہر وقت بکری کی فکر میں ڈوبا رہے گا۔وہ رسی تڑا گئی۔ ارے لینامیری بیاض کے ورق کھا رہی ہے۔ ارے دیکھنا دانہ نہیں کھاتی۔ ہم پاکستانیونے بھی جمہوریت نام کا ایک غم پال رکھا ہے۔اس جمہوریت کی فکر ہمیں دن رات ہلکان کیے جا رہی ہے۔اس جمہوریت کے غم نے ہم سے ہمارے دن کا چین اور راتوں کا سکون چھین لیا ہے۔اس جمہوریت کی فکر ہمیں کچھ ایسی دامن گیر ہوئی ہے کہ ہمارے رگ وپے میں بے چینی متواتر ہلکورے لیتی رہتی ہے۔
اس جمہوریت کی تعریف میں ہم سب رطب اللسان رہتے ہیں اور دن رات اس کی پائیداری اور استحکام کے لیے دعا گو رہتے ہیں کہ ’’کہیں ٹھیس لگ نہ جائے ان آبگینوں کو‘‘۔اس جمہوریت کی طوالت عمری کے لیے اس کے علمبردار تو خیر سے کڑھتے ہی رہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاسبان ملت اور نگہبان ملک بھی اس کے استحکام کے لیے باربار یقین دہانیاں کرتے پھرتے ہیں کہ بخدا ہم سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔
میاں نواز شریف جو چند مہینے پہلے تک اس جمہوریت کے بل بوتے پر اس ملک میں سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ اختیار و اقتدار ان کے سامنے ہر وقت باندھے کھڑا رہتا تھا۔تمام قومی اداروں باندی کی طرح حکم بجا لانے کے لیے مستعد و متحرک رہتے تھے وہ ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں معتوب ٹھہرے اور وزارت عظمیٰ کی نیلم پر ی کو کھو بیٹھے۔
یہ صاحب پھر بھی جمہوریت کا دم بھرنے کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔ ان کی تان اب اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ جموریت ہی اس ملک ک مقدر ہے اور اس کے بغیر خاکم بدہن ملک کہیں اکہترجیسے سانحے کا شکار نہ ہو جائے۔ میاں صاحب کا جمہوریت کے لیے یوں بے کل رہنا قابل فہم ٹھہرتا ہے کیونکہ اسی جمہوریت نے انہیں تین بار اس ملک کی وزار ت عظمیٰ سے سرفراز کیا۔ اب یہ اقتدار میں جمہوری قدروں کی کتنی پاسداری کر پائے یہ ایک قطعی طور پر ایک الگ بحث ہے۔
عمران خان نامی ایک شخص نے کھیل کے میدانوں میں توانائیاں خرچ کرنے کے بعد جب سیاست کی نگری میں قدم رنجہ فرمایا تو وہ ایک نئی توانائی اور جذبے کے ساتھ جمہوریت کے کاز کو سربلند رکھنے کے لیے نعرہ زن ہوئے۔ یہ صاحب مغربی جمہوریت کے ماڈل سے بہت متاثر ہیں اور گوروں کے دیس میں پنپنے والی جمہوری قدروں کو اس ملک میں نافذ کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ان صاحب کا جمہوری کردار کتنا معتبر ہے اس بحث میں پڑے بغیر ان کی یہ خدمت کم ہے کہ انہیں بھی جمہوریت کا غم دامن گیر ہے اور اس نے ان کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت کر رکھا ہے۔
ایک صاحب جو آصف زرداری کے نام سے پکارے جاتے ہیں انہوں نے تو جمہوریت کا روگ کچھ زیادہ ہی پال لیا ہے۔ اپنے حامیوں کے نزدیک مرد حر اور مخالفین کے نظر میں مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے پہچان رکھنے والے یہ صاحب جمہوریت کے بارے میں جب گل افشانیاں کرتے ہیں تو انسان عش عش کر اٹھے۔ یہ صاحب بھٹو نامی سیاسی ورثے پر کاربند ہونے کا دعویٰ کر کے جمہوریت کی طویل العمری اور دوام کے لیے کچھ ایسے سرگرم ہیں کہ ان دیکھ کر بندہ ان کی معصومیت پر فریفتہ ہو جائے۔ ان صاحب کے بقول جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے لیکن ابھی تک یہ صراحت سے نہیں بتا سکے کہ اس کے ذریعے کس سے انتقام لیا جائے۔
ایک صاحب مولانا فضل الرحمان بھی سرگرم عمل ہیں۔ ان صاحب کی جمہوریت سے کمٹمنٹ انمٹ ہے اور اسی واسطے یہ ہر ایک حکومت کا حصہ بن کر جمہوریت کو استحکام و مضبوطی سے ہمکنار کرتے رہتے ہیں۔ اے این پی کے اسفند یار ولی خان ہوں یا ایم کیو ایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار سب جمہوریت کے غم میں دبلے ہو رہے ہیں۔
اب تو خیر سے ایسے باشندگان ملک بھی جمہوریت کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک اسے بے نقظ سناتے تھے کہ یہ کافروں کا نظام حکومت کیونکر ایک پاک سرزمین پر نافذ العمل کیا جائے۔ اب یہ عناصر بھی اپنی پرانے موقف سے دستبردار ہو کر جمہوریت کے غم میں گھلتے پھر رہے ہیں۔ اس جمہوریت کا غم اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے کہ اس ملک کا طاقتور ترین عسکری ادارہ بھی اس سے عزم کا اعادہ کر چکا ہے۔
ابھی ان دنوں جب جمہوریت پر منڈلاتے سیاہ بادل گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں اور کچھ منچلوں نے افواج کی طرف مدد طلب نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے تو سپہ سالار صاحب سے لے کر فوجی ترجمان سب نے جمہوریت کے ساتھ ملک کے مستقبل کو نتھی کیا ہے اور افواج پاکستان کی طرف سے جمہوریت کو کسی بھی نوع کے خطرے پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔ یہ ایک قطعی طور پر الگ موضوع ہے کہ افواج پاکستان کے کچھ خود ساختہ ترجمانوں کی جانب سے انہیں کھلم کھلا دعوت دی جا رہی ہے کہ جناب والا ! آئیں اور اس جمہوریت کا تختہ گول کر کے اقتدار سنبھال لیں تاہم افواج نے جمہوریت کے خلاف کسی بھی سازش کا حصہ بننے سے کھلے بندوں انکار کر رکھا ہے۔
عدلیہ نام کا ادارہ بھی جمہوریت کی زلف کا اسیر ہے اور اس کی زلفین سنوارنے کے لیے ہمہ وقت فکر میں مبتلا رہتا ہے۔ اگرچہ چند بد خواہ کہتے ہیں کہ عدلیہ جمہوریت کو کمزور کرنے میں مصروف عمل ہے لیکن معزز جج صاحبان اس نوع کے تمام الزامات کو قطعی طور پر بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ جب ملک میں جمہوریت کے بہی خواہ اتنے ادارے اور شخصیات ہوں تو پھر جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔
اس صورت حال میں جمہوریت کو چھلانگیں مارتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ اسے اپنا سفر بلا تعطل اور بلا خوف و خطر آگے کی طرف برقرار رکھنا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اتنے سارے ریاستی شراکت داروں، حکومتی اداروں، سیاسی جماعتوں اور عناصر کی جانب سے جمہوریت کی پائیداری اور مضبوطی کی فکر میں گھلنے کے باوجود جمہوریت کا آشیانہ لرزتا رہتا ہے۔ اس کے زمین بوس ہونے کے بارے میں قیاس آرائیوں اور افواہوں کا لامتناہی سلسلے جاری و ساری ہے۔
ایک ذرا سی آہٹ پر جمہوریت کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ اب یہ کونسی نادیدہ قوتیں ہیں جو اتنے سارے بہی خواہوں اور غم گساروں کی موجودگی کے باوجود عفیفہ جمہوریت کی عزت عزت تار تار کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ کہیں خدانخواستہ جمہوریت کی فکر میں گھلنے والوکی آستینوں میں بت تو نہیں جن کے خوف سے جمہوریت لرزہ اندام ہے۔