جمہوریت کا مقدمہ ضعف کا شکار کیوں؟
از، ملک تنویر احمد
ان دنوں پاکستان میں ’’جمہوریت کا مقدمہ‘‘ ایک بار پھر موضوع بحث ہے۔ گزشتہ چند دھائیوں میں اس مقدمے کے سیاسی فریق تو بدلتے رہے ہیں لیکن فریق مخالف ہمیشہ سے ملک کی ہیئت مقتدرہ establishment کو سمجھا جاتا رہا ہے۔ ماضی میں فوجی آمریتوں کے خلاف جب سیاسی قوتیں صف آراء ہوئیں تو مخالف فریق ایک واضح صورت میں موجود تھا جس کے خلاف مختلف سیاسی قوتوں اور شخصیات نے جدوجہد کی۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی فوجی آمرتیوں کے خلاف مختلف سیاسی جماعتیں مزاحم ہوئیں لیکن جمہوری ادوار میں بھی سیاسی قوتیں شکوہ کناں رہتی ہیں کہ ’’خفیہ ہاتھ‘‘ ابھی بھی سرگرم ہو کر انہیں کوچہ اقتدار سے رخصت کرنے پر کمربستہ ہیں۔
اقتدار سے بے دخلی کو ہر سیاسی جماعت اور شخصیت نے جمہوریت پر شب خون کے مترادف قرار دیا اور اسے عوام کے حق حکمرانی سے ڈاکہ زنی سے تشبیہ دی۔ان ایام میں میاں نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت رنجیدہ خاطر ہیں اور ’’خفیہ قوتوں‘‘ کے جانب انگشت نمائی کرتی پائی جاتی ہے جو ان کے نزدیک میاں نواز شریف کی اقتدار سے رخصتی کے ساتھ ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے الزامات کے تحت چلنے والے عدالتی کیسز کے بھی ذمہ دار ہیں جن میں میاں صاحب اور ان کے خاندان کو ناجائز اور غیر قانونی طریقوں سے دولت کمانے کا مرتکب ٹھہر ایا گیا ہے۔
میاں نواز شریف او ر ان کی جماعت اپنے خلاف ہونے آنے والے عدالتی فیصلوں کو کھلے عام عوام کے حق حکمرانی پر ڈاکہ قرار دیتے ہیں اور وو ٹ کے تقدس کی دہائیاں دیتے پائے جاتے ہیں۔میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سے بے دخلی، پارٹی صدارت سے محرومی اور احتساب عدالت میں مقدمات کو جمہوریت کے خلاف ایک ’’گرینڈ ڈیزائن‘‘ قرار دیا ہے جس کے تحت عوام کے منتخب نمائندوں کی تضحیک اور ان کی برسر عوام رسوائی مقصود ہے۔ میاں نواز شریف جس ’’جمہوریت کا مقدمہ‘‘ بزعم خود لڑ رہے ہیں کیا وہ ’’پراسرار قوتوں‘‘ کے اشاروں پر کمزور کی جا رہی ہے ؟کیا عدالتی فعالیت سے جمہوریت کا اضمحلال کا شکار ہے جو میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کے مطابق پارلیمان کی بالادستی کو ہڑپ کر رہی ہے؟
کیا یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کے تحت جمہوریت کو بدنام اور غیر فعال کر کے اس ملک میں غیر جمہوری عناصر کی اقتدار میں راہ کوہموار کرنا ہے؟ میاں نواز شریف اور ان کے مصاحبین کے سوچ و فکر میں کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی ہے لیکن اس سے اختلاف کا حق ہر ذی شعور و ذی عقل کو حاصل ہے۔میاں نواز شریف جن اندیشوں اور وسوسوں کا شکار ہیں ان میں سے صداقت کے عنصر کو یکسر خارج نہیں کیا جا سکتا لیکن کیا جمہوریت کے مقدمے کے کمزور ہونے میں فقط غیر جمہوری عناصر یا ریاست کے دوسرے اداروں کے عزائم و ارادوں کو دخل ہے؟ اور سیاسی رہنما بشمول نواز شریف کلی طور پر بری الذمہ قرار دیے جا سکتے ہیں کہ انہوں نے جمہوریت کے مضحمل ہونے میں کوئی حصہ نہیں ڈالا۔
ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کو جس شاہانہ انداز سے ایک خاندان کی ملکیت سمجھا جاتا ہے اس پر بہت بحث ہو چکی ۔ اب تک اس بدبودار خاندانی اجارہ داریوں سے نجات حاصل نہیں کی جاسکی جس میں سیاسی جماعتیں فقط چند خاندانوں کے حق حکمرانی کو محفوظ بنانے کے نظریے اور مشن پر کاربند ہیں۔ یہ سیاسی جماعتیں خاندانی اجارہ داریوں کی علامتیں ہیں جس پر پدر کے بعد پسر یا دختر کو ہی پارٹی قیادت کا موروثی حق حاصل ہے جہاں فقط چاپلوسی اور خوشامد ہی سیاسی قیادت سے قربت کا اکسیر نسخہ ہے۔بد قسمتی سے سیاسی قائدین نے کبھی بھی سیاسی جماعتوں کو ان مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش نہ کی کہ جو غیر جمہوری عزائم کی آندھیوں کے سامنے سینہ سپر ہو سکیں۔
ویت نام کے انقلابی رہنما ہو چی من نے جب بیسویں صدی کی دھائی کے وسط میں شمالی ویت نام میں اپنی حکومت قائم کی تو اپنے پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’کامریڈ اب ہم حکومت میں آ گئے ہیں، میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ جو سیاسی آدمی حکومت میں چلا جائے، وہ سرکاری موٹر استعمال کر رہا ہے، کل اس کی بیوی استعمال کرے گی تو پرسوں اس کے بچے موٹر استعمال کریں گے، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا اور یہ گاڑی کہاں سے چلے گی، میں یہ بات برداشت نہیں کروں گا، مجھے پارٹی ٹھیک کرنا پڑے گی‘‘۔ ہوچی من نے یہ راہ اپنائی کہ پارٹی کو ٹھیک کرو، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہوچی من نے سپر پاور امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیے۔
ہمارے سیاسی رہنما امریکہ سے کیا مقابلہ کر پائیں گے یہ تو ذرا سا کھٹکے پر سہم جاتے ہیں اور غیر جمہوری قوتوں کے عزائم کے سامنے بغیر کسی قابل ذکر مزاحمت کے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ ہمارے جمہوری طبقے کاسب سے بڑا المیہ ہی سیاسی جماعتوں میں پایا جانے والا اضمحلال ہے جو سیاسی جماعت کی بجائے ایک خاندانی پراپرٹی سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتی۔ میاں نواز شریف کے خلاف عدالتوں کے طرف سے آنے والوں فیصلوں میں ہو سکتا ہے کوئی بھول چوک یا جھول ہو لیکن کیا جب پانامہ اسکینڈل منظر عام پر آیا تو کیا ان کی سیاسی جماعت کے کسی’’ رجل رشید‘‘ نے میاں نواز شریف سے استفسار کیا کہ میاں صاحب پورے ملک میں اس اسکینڈل پر طوفان برپا ہے ، اس کے پس پردہ حقائق کیا ہیں؟
ان الزامات میں کتنی صداقت ہے؟ کسی نے لب کشائی نہ کی کیونکہ سیاسی جماعت کے اجزائے ترکیبی سے زیادہ مسلم لیگ نواز ایک شخص اور ایک خاندان کی خوشنودی کے گر د گھومتا ہوا گروہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حالت بھی بد تر ہے۔ حالیہ دنوں میں میاں رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر کے ساتھ جو سلوک آصف علی زرداری نے روا رکھا وہ ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر شخصیتوں کی حکمرانی کا بدترین مظاہر ہ ہے۔ آصف علی زرداری نے بر سر عام دو ایسے صاحب الرائے اور جمہوریت پسند اشخاص کو سر عام دھتکار ڈالا جو پی پی پی کا اثاثہ ہیں لیکن پوری جماعت مہر بلب ہے۔ کسی ایک شخص نے بھی اٹھ کر یہ نہیں کہا کہ یہ صحیح نہیں ہے۔
عمران خان کی تحریک انصاف بھی اسی نوع کے ضعف کا شکار ہے اور وہاں بھی کسی ایسی حوصلہ افزا صورت حال نہیں کہ پاکستان کے سیاسی کلچر میں اسے مژدہ جاں فزا سمجھ کر حسین توقعات کا محل تعمیر کیا جا سکے۔ پاکستان میں جمہوریت کا مقدمہ جس ضعف کا شکار ہے وہ دن بدن بد سے بد تر ہوتا چلا جائے گا اگر سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کے کلچر کو فروغ نہ دیا گیا۔ ہوچی من نے اپنے کردار سے ثابت کیا کہ وہ انقلابی رہنما تھا۔ اب ہمارے سیاسی رہنما فقط سیاسی جلسو ں میں نظریاتی، باغی او ر انقلابی ہونے کے غباروں میں ہوا پھونکنے سے تو اس معراج کو نہیں پہنچ سکتے کہ جو سیاسی رہنماؤں کو تاریخ میں امر کر دیتی ہے۔