جمہوریت کی سپاری
ڈاکٹر صغرٰی صدف
سپاری چبائی جاتی ہے کھائی نہیں جاتی اور کچھ دیر چبانے کے بعد پھینک دی جاتی ہے۔ بس اس کا سب سے بڑا تعارف یہی ہے۔ ایک دور تھا جب سرکاری چینل پر سب سے زیادہ اس کے اشتہارات چلا کرتے تھے جس سے ہم دیہاتی یہ اندازہ لگاتے رہتے تھے کہ ملک میں اس سے زیادہ خوش ذائقہ کوئی اور مصالحہ یا کھانے والی شے نہیں۔ بہر حال اس کے ساتھ ایک مجرمانہ ڈکشن کو منسوب ہوئے بھی اتنا ہی عرصہ ہوا ہے جتنا اس کو دریافت کرنے اور استعمال میں لانے کو ہوا ہے۔
بر صغیر بلکہ سارک ممالک کی اکثر فلموں اور ڈراموں میں یہ لفظ موت کے فرشتے کے معنوں میں برتا جاتا ہے۔ مطلب جس کی سپاری دی گئی سمجھو اس کا دنیا میں دانہ پانی ختم ہو چکا ہے۔ بہر حال یہ سپاری صرف مقامی غنڈہ گردی تک محدود نہیں عالمی سطح پر بھی ملکوں، حکومتوں اور عوام کو کسی مخصوص ڈگر پر لے جانے کے لیے طاقتور ملک یہ کام کرتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے سیاست میں آنے سے قبل پاکستان میں ان کے ہم پایہ دینی مبلغ، مقرر اور صاحب بصیرت کوئی دوسرا نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو خدا نے صرف عِلم نہیں بلکہ اس کے اظہار کا وہ سلیقہ دیا ہے کہ بات سیدھی دِل میں اتر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دن بدن ان کے عقیدت مندوں میں اضافہ ہوتا رہا۔
اس میں ان کے علم و شعور کے ساتھ ساتھ کرشماتی شخصیت کا بھی خاصا اثر رہا ہے۔ اگر وہ اسی لگن سے لوگوں کی اخلاقی تربیت کرتے رہتے اور سیاسی شعور کی جدو جہد کرتے تو یقین کیجئے آج کا پاکستان بالکل مختلف ہوتا۔ ان دونوں کاموں کے برعکس انھوں نے احتجاج کے رستے کو اپنایا حالانکہ صاحبِ دانش لوگ اپنے عمل سے تبدیلی لاتے ہیں۔
عام عوام کے سامنے صحیح اور غلط کا تصور اپنی ذات کی سچائی سے واضح کیا جاتا ہے نہ کہ دوسرے کو جھٹلا کر مفروضے پر بات کی جائے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے ان کی شہرت نے ایک نیا اور عجیب رُخ اختیار کر لیا ہے۔ ان کی گفتگو اور مزاج کی تلخی اِن کی عِلمی بصیرت سے میل نہیں کھاتی۔
جب سے انھوں نے کینیڈا کی شہریت اختیار کی ہے۔ پاکستان ان کی محبت سے محروم ہو گیا ہے۔ اب وہ خلقِ خدا کی اصلاح اور عقیدت مندوں کو دیدار کرانے کم کم آتے ہیں۔ اکثر صحت کے معاملات بھی در پیش رہتے ہیں۔ لیکن جب بھی ملک کے سیاسی حالات میں ذرا سا بھنور نمودار ہوتا ہے وہ فوراً نہ صرف آمد کا اعلان کر دیتے ہیں بلکہ اینٹ سے اینٹ بجانے کا دعویٰ ان کے آنے سے پہلے فضاؤں میں گونجنے لگتا ہے ایسے میں ملک میں جمہوری قدروں کی ترویج امن و امان اور قانون کی بالا دستی کا خواب دیکھنے والے افسردہ ہو جاتے ہیں۔
خواہ مخواہ فرض کر لیا جاتا ہے یا سیاستدانوں کی طرف سے ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کی آمد خطرے سے خالی نہیں کیونکہ سیاسی سیریل میں ان کے کردار کی انٹری مشکوک ہو چکی ہے۔ ہم سب پاکستان سے محبت کے دعویدار ہیں۔ ایک دنیا ہمارے وسائل اور ہماری انا کو فتح کرنے کے در پے ہیں۔ ایسے میں سیاسی ماحول میں تلخی اور اداروں کے درمیان سرد جنگ کے پس پشت مقاصد آج تک سمجھ سے بالا تر ہیں۔ ایک دور تھا جب ایک خاص طبقہ کُھل کر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان معاملات پر بات کرتا تھا مگر اب میڈیا نے ہر شخص پر مختلف زاویے عیاں کر دیے ہیں۔
اس لیے دانشور سے لے کر عام شہری متفکر ہے کہ ہمارے ملک میں انتقامی سیاست اور اداروں کے ٹکراؤ کا منظر نامہ کب بدلے گا۔ آج تک آمریت مسلّط کرنے والوں میں چند جرنیلوں کے نام لیے جاسکتے ہیں مگر پورے ادارے کو متنازع نہیں بنایا جاسکتا۔ آج بھی ہر طرف سے سازش کی آوازیں آ رہی ہیں۔
تمام رہنماؤں کو سازش کی بو محسوس ہو رہی ہے مگر کوئی بھی سازش کرنے والے کا نام لینا گوارا نہیں کرتا۔ ہوا میں چلائے گئے تیر افواہوں کو جنم دیتے ہیں جو زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں۔ ہم ہمیشہ پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی دشمن قوتوں کا رونا روتے ہیں مگر جتنا نقصان ہماری آپسی چپقلشوں نے ہمیں پہنچایا ہے وہ ساری دنیا مل کر بھی نہیں پہنچاسکی کیونکہ محب وطن، محنتی اور قابل شہری ہر دور میں اپنا فرض سر انجام دیتے جا رہے ہیں اور ہر مشکل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہے ہیں۔
لیکن اصل معاملہ طاقت کا وہ منبع ہے جس کا قضیہ قیامِ پاکستان سے آج تک طے نہیں ہو پایا۔ ہر دو اطراف سے زیادہ تر وقت ایک دوسرے کو پسپا کرنے میں صرف ہوتا ہے یہ سوچے بغیر کہ اس طرح پاکستان کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم موجودہ حکومت کے گزشتہ سوا چار سالوں کا موازنہ کریں تو اُس کا زیادہ وقت اندر سے اٹھنے والی بغاوتوں کا سامنا کرنے اور انہیں پسپا کرنے میں صرف ہوا ہے۔
ایک مہینہ بھی چین سے حکومت کو کارِ حکومت سر انجام نہیں دینے دیا گیا۔ کبھی دھرنا، کبھی کوئی ایشو، کبھی کوئی، ترقیاتی مصنوبے تو کسی طور جاری رہے مگر وہ سنجیدہ معاملات جنھیں حل کئے جانا بہت ضروری تھا وہ اپوزیشن اور خصوصاً تحریک انصاف کی نذر ہوگئے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کون سی سیاسی جماعت اچھی ہے یا بُری مگر حکومت کو مسلسل یرغمال بنائے رکھنے سے فاٹا کا معاملہ حل نہ کیا جاسکا۔
یہ علاقہ چونکہ سرحد کے قریب اور پسماندہ تھا اس لیے انگریزوں نے اس علاقے کو اس خوف سے کہ کہیں غربت کے باعث یہاں کے لوگ مارکس ازم کی طرف مائل نہ ہو جائیں۔ کو Tribal Area یعنی علاقہ غیر بنا دیا اور اب ستر سال سے ہم انھیں ان کے جمہوری حقوق نہیں دے سکے۔ ایک ریاست کے اندر ایسے علاقوں کی موجودگی خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ فاٹا کے لوگ پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اس حوالے سے تمام مرحلے طے کر لیے تھے مگر مولانا فضل الرحمٰن آڑے آگئے کیونکہ اس صورت میں ان کی سیاسی حیثیت کو خصوصی خطرہ لا حق ہونے کا خدشہ ہے اور مولانا کو راضی رکھنا حکومت کی مجبوری۔
اس طرح گلگت بلتستان جو کبھی بھی جغرافیائی حوالے سے کشمیر کا حصہ نہیں رہا بلکہ کشمیر کے مہا راجہ نے ان علاقوں کو فتح کیا تھا۔ اُس کی قسمت کا فیصلہ بھی ہنوز دور است جبکہ وہاں کے لوگ بھی پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں مگر پاکستان کے پالیسی سازوں کے پاس فرصت نہیں۔ کم از کم آزاد کشمیر میں ریفرنڈم کرا کے وہاں کے لوگوں کی رائے معلوم کی جائے اگر وہ پاکستان کے حق میں فیصلہ دیں تو اُسے صوبے کا درجہ دیا جائے اور پوری قوت سے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے اقوام عالم کا در کھٹکھٹایا جائے ملک میں جمہوریت قائم ہے تو مسلم لیگ ن کی حکومت کو اپنے آخری چند مہینوں میں ان معاملات کے بارے میں فیصلہ سازی کر کے پاکستانی ریاست کی بنیادوں کو مضبوط کرنا چاہیے ورنہ سپاری تو کام کرتی رہے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ