جامعہ ملیہ اسلامیہ : برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کا استعارہ
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
برِصغیر پاک و ہند میں برطانوی راج کی ظالمانہ پالیسیوں نے ہندوستان کے مختلف طبقوں کو ایک دوسرے سے قریب کر دیا تھا۔ ان سب کا مقصد ہندوستان کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانا تھا۔ برطانوی سامراج سے آزادی کے لیے یہ ضروری تھا کہ مقامی لوگ اپنی ثقافت، زبان اور نظامِ تعلیم کا بہتر ادراک کرسکیں۔ اس سارے تناظر میں ایسی تعلیمی تحریک کی ضرورت محسوس کی گئی جوکہ ہندوستان کی سماجی، سیاسی اورثقافتی جڑوں کے ساتھ مضبوطی سے پیوستہ ہو۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ تعلیمی ادارے مالی معاملات چلانے کے لیے برطانوی حکومت کے فنڈز پر انحصار نہ کریں۔ اس طرح کا تجربہ پہلے ہی 1866ء میں کیا جا چکا تھا جب دارالعلوم دیوبند کاقیام عمل میں لایا گیا اوراس بات کا اعادہ کیا گیا کہ حکومتِ برطانیہ سے کوئی مالی اعانت طلب نہیں کی جائے گی۔
1875ء میں سرسید نے ایک سکول قائم کرکے علی گڑھ کی تعلیمی تحریک کی بنیاد رکھ دی تھی اور یہ سکول جلد محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج بن گیا۔ سرسید کایہ اقدام دارالعلوم سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ اس ادارے کا مقصد مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید تعلیم سے بہرہ ورکر نا تھا تاکہ وہ حالات کا بھرپورمقابلہ کرسکیں۔ علی گڑھ کے بہت سے اساتذہ بشمول پرنسپل برطانوی تھے اوراسے برطانوی حکومت سے مالی معاونت بھی ملتی تھی۔
علی گڑھ کا برطانیہ کے متعلق نقطۂ نظربہت نپاتلا اور محتاط تھا اوراس کاواحد مقصد مسلمانوں کوتواناوطاقتور بناناتھا۔ علی گڑھ کے فارغ التحصیل طلباء نے آگے چل کر تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1920 میں دواہم تحریکوں، تحریکِ خلافت اور تحریکِ عدمِ تعاون کاآغاز ہوا۔ اسی دوران قومی افق پر قومی تعلیم (National Education) کے نظریے نے زور پکڑا۔ تحریک خلافت کا آغاز مسلمانوں نے کیا تھا تاکہ سلطنت عثمانیہ کی علامتی شناخت کا تحفظ و تشخص برقرار رکھا جائے۔
مولانا محمدعلی جوہر، شوکت علی، حکیم اجمل خان اورمختار انصاری اس تحریک کے روح رواں تھے۔ دوسری اہم تحریک عدم تعاون تھی جس کی رہنمائی گاندھی کے ہاتھ میں تھی اوراس کامقصد برطانیہ سے عدم تعاون تھا۔ مسلمانوں اور ہندوؤں نے باہمی تعاون کافیصلہ کیاتاکہ دونوں تحریکیں بھرپور انداز میں کام کرسکیں۔ گاندھی نے تحریک خلافت کی حمایت کے لیے اپنے عزم کااظہار کیااور تحریک خلافت کے رہنما تحریک عدم تعاون کے حامی بن گئے۔
تحریکِ عدم تعاون میں ہندوستانیوں سے کہا گیا کہ وہ حکومتی نوکریاں، ادارے اورعہدے چھوڑ دیں اور بدیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ تعلیمی حوالے سے اس اپیل کامطلب یہ تھاکہ ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں جو ”قومی تعلیم‘‘ کوفروغ دیں۔ اس اپیل کے نتیجے میں قوم پرست یکجاہوگئے ان کی ساری توجہ تعلیمی ادارے قائم کرنے پرمرکوز ہوگئی۔ ان اداروں کانمایاں وصف یہ تھا کہ حکومت سے کسی بھی قسم کی امداد نہیں لیں گے۔
تحریک عدم تعاون کے اعلان کے بعد علی گڑھ کالج کیمپس میں ایک طرح کی بے چینی پائی جاتی تھی جہاں انقلابی قوم پرست طلبہ کا ایک گروہ جس کی قیادت محمدعلی جوہرکر رہے تھے چاہتاتھا کہ علی گڑھ بھی انقلابی اور نو آبادیاتی نظام کے خلاف اپنا کردارادا کرے۔ انہوں نے علی گڑھ کے (Trustees) سے مطالبہ کیا کہ وہ برطانوی حکومت سے فنڈز لینا بندکردیں۔ اس تجویز کوعلی گڑھ انتظامیہ کی اکثریت نے رد کر دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حکومتی امداد ادارے کوچلانے کے لیے نہایت اہم تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا قوم پرست طلبا اپنی مادرعلمی سے الگ ہوگئے اور 29 اکتوبر 1920 کومسلم نیشنل یونیورسٹی (جامعہ ملیہ اسلامیہ) کے قیام کااعلان کیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سرخیلوں میں محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار انصاری اورعبدالمجید خواجہ تھے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان حالات میں مختلف عقائد کے گروہ قوم پرستی کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوگئے تھے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن جوکہ دیوبند کے ایک جید عالم تھے نے تحریک عدم تعاون کی حمایت میں ایک فتویٰ دیا۔ اگرچہ ان کی مالٹاکی جیل سے ابھی ا بھی رہائی ہوئی تھی اوروہ علیل تھے لیکن پھربھی وہ 29 اکتوبر 1920 کواس تقریب میں شامل تھے جس میں جامعہ کی بنیادرکھی گئی۔
ان کی روبہ زوال صحت کے باعث ان کی تقریرمولانا شبیراحمدعثمانی نے پڑھی۔ گاندھی نے بھی جامعہ کی اعانت کی اوراس کے قیام کے لیے فنڈزبھی فراہم کیے۔ مذہبی عقائد اورقومی وابستگیوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے یہ ادارہ ہندوستان کے باسیوں کے لیے ان کے خوابوں کی تعبیر کی حیثیت اختیار کرنے لگا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کاپہلا کیمپس دو درجن خیموں میں قائم کیاگیاتھا جوکہ علی گڑھ کالج سے زیادہ دورنہیں تھا۔ پانچ سال بعد اس ادارے کودہلی منتقل کردیا گیا۔ اجمل خان اس کے پہلے چانسلر اورمحمدعلی جوہر اس کے بانی وائس چانسلرتھے۔
جامعہ میں پڑھایاجانے والا نصاب حقیقی زندگی کی مہارتوں سے مربوط تھا۔ جدیدعلوم سے بہرہ ورہونے کے ساتھ ساتھ طلبہ مذہبی افکارسے بھی آگاہی حاصل کرتے تھے اس ادارے میں تعلیم کاایک اہم جزو پیشہ وارانہ تربیت اورمختلف پیشوں کی عملی تدریس تھا۔ جامعہ میں تدریس کے علاوہ مخصوص سیمینار اورخطبوں کابھی اہتمام کیاجاتاتھا تاکہ زیرتعلیم طلبہ مختلف عنوانات کے بارے میں جان کر اپنے ذہنی افق کووسیع کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے قومی اور بین الاقوامی مفکرین کوتقریر کے لیے مدعوکیاجاتاتھاتاکہ جامعہ کے طلبہ ان سے علمی وفکری مباحث پرگفت وشنید کرسکیں۔
لیکچرسیریز میں قومی رہنماؤں کو مدعو کیا جاتا تھا تاکہ وہ مختلف تقاریر ومباحث کی صدارت کریں۔ جامعہ کی فضا فطرتاً انقلابی، متحرک اور فعال تھی۔ انقلابی رہنما عبیداللہ سندھی کئی سال اس ادارے میں طلبہ سے خطاب کرتے رہے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کے لیے قوم پرست قوتیں اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئیں خواہ ان کا تعلق مذہبی طبقے سے تھا یا سیکولر گروہ سے، اس بات کا ادراک بھی بہت ضروری ہے کہ جامعہ کا سفر ہموار نہیں تھا۔
اس ادارے کوسب بڑاجھٹکا اس وقت لگاجب گاندھی نے 1922ء میں تحریک عدم تعاون کے خاتمے کااعلان کر دیا۔ چونکہ اس ادارے کی بنیاد عدم تعاون کے جذبے پرہی رکھی گئی تھی لہٰذا طلبہ اوراساتذہ میں اضطراب اور بے یقینی کی کیفیت فطری تھی جن میں سے کچھ جامعہ سے الگ ہو کر واپس علی گڑھ چلے گئے۔ اس ادارے کو درپیش دوسرا سب سے اہم مسئلہ مالی وسائل کی کمی تھی کیونکہ اس نے حکومتی تعاون سے یکسرانکار کر رکھا تھا۔ اگرچہ مخیرحضرات انفرادی طورپر تو فنڈز دے رہے تھے لیکن یہ فنڈز یونیورسٹی کو چلانے کے لیے کافی نہیں تھے۔
ان نامساعد حالات میں ذاکرحسین، عابد حسین اورمحمد مجیب جنہوں نے غیرملکی جامعات سے پی ایچ ڈی کی تھی یونیورسٹی میں نئی روح پھونکنے کے لیے اس کے ہم سفر ہوگئے۔ انہوں نے ایک معاہدہ کیا کہ وہ اس ادارے کوبیس سال تک نہیں چھوڑیں گے اور ماہانہ 150 روپے سے زائد تنخواہ کا تقاضا بھی نہیں کریں گے۔ یہ ذاکر حسین اوران کے ساتھیوں کی شبانہ روز محنت اور لگن کا نتیجہ تھا کہ یونیورسٹی دوبارہ ترقی کے راستے پر رواں دواں ہوگئی۔
برطانوی راج کے خلاف مزاحمتی تحریک میں یونیورسٹی کا کردار سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ یہ وہ جگہ تھی جس نے بدیسی حکمرانوں کو چیلنج کیا۔ یہ وہ ادارہ تھا جس نے مسلمانوں اورہندوؤں کواکٹھا کردیا تھا خواہ وہ دیہی یا شہری علاقوں سے تھے، امیر یاغریب تھے، سیکولر یا بنیاد پرست تھے۔ جامعہ ہی وہ ادارہ تھا جس نے سب کومتحد کردیا اورانہوں نے اپنی گمشدہ آزادی کے حصول کے لیے تعلیمی مزاحمت کابھرپور استعمال کیا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.