جمود : افسانہ از، جواد حسنین بشر
از، جواد حسنین بشر (ابنِ مسافر)
کشادہ و وسیع چوک میں جاری تماشے کو زیادہ دیر نہیں گزری تھی۔
ایک مُنحنی سے، آدھے گنجے آدھے بالم شخص نے کچھ دیر پہلے چوراہے کو نو گو ایریا میں تبدیل کر دیا تھا۔
ٹریفک کے حوالے سے شہر کے مصروف ترین چوک میں نہ جانے کس وقت اور کیسے اس شخص نے یہ منظر تخلیق کیا تھ۔۔
چوک کے بیچوں بیچ ایک چھوٹے سے گیس اسٹوو پر اسٹیل کے بڑے سے کھلے برتن میں کافی بڑے حجم کا چٹانی پتھر رکھے وہ ہجوم کی توجہ اور مُغلظات کا مرکز بناہوا تھا۔
اس کے ہاتھوں میں خود کار اسلحہ اور اس کے کوٹ سے جھانکتے گرنیڈز اُسے سب کی پہنچ سے دور رکھے ہوئے تھے۔
چاروں طرف سے آنے والی رنگ برنگی ٹریفک راستہ نہ پا کر حدِ نگاہ تک جام ہوتی چلی جا رہی تھی۔ پیدل آتے جاتے راہگیر حسبِ معمول ٹھہر ٹھہر کر محوِ تماشائے لبِ بام ہوئے جا رہے تھے۔ موٹر بائیکرز کا چھلاوہ پن بھی ناکام ہو چکا تھ۔۔
ماحول پر چھوٹی بڑی گاڑیوں کے دھیمے اونچے ہارنز کی چیختی چلاتی بلکہ چِنگھاڑتی ہوئی صوتی لہروں کا راج تھا ۔راہگیر اور ٹریفک قطاروں کو لیڈ(lead) کرتی گاڑیوں سے افراد نکل نکل کر چوک کے کناروں پر جمع ہو چکے تھے۔
کان اور جگر پھاڑ دینے والے شور سے بے نیاز سر تا پا لنڈے میں ملبوس وہ بدحال سا کمزور شخص شہ زوری کے تمام ریکارڈ توڑنے میں بڑے سکون سے مگن تھا۔ چوک پر موجود ٹریفک وارڈنز کی سیٹیاں اس انوکھے نقار خانے میں طوطی کی آواز کہلانے کے بھی لائق نہیں رہی تھیں اور آس پاس کچھ دیر پہلے تک نظر آنے والے پولیس اہلکاروں نے شاید اپنی شرٹس الٹی پہن لی تھیں۔ چوک پر سبھی محمود و ایاز ایک ہو چکے تھے۔
اُس شور آلود ماحول کی کسمپُرسی پر آخر خیال آیا تو اسی مرکزِ نگاہ شخص کو جسے اب لوگوں نے دہشت گرد کہنا شروع کر دیا تھا۔
اس کی ہوائی فائرنگ سے سناٹا ہاتھ باندھے چھاتا چلا گیا اور جہاں تک تڑتڑاہٹ کی گونج پہنچی وہاں تک خاموشی نے ڈیرہ جما لیا۔
اب شور کی ایک بازگشت تھی جو دور کہیں پیچھے پیچھے سے مرکزی منظر نامے سے انجانوں کی انگلیوں اور زبانوں کی مِرہونِ منت تھی اور چوک میں جاری فلمی قسم کے منظر کے لیے بیک گراؤنڈ میوزک کا کام دے رہی تھی۔
جیسے ہی میڈیا کے کیمرہ بردار اور مائیک بدست نمائندوں نے کہیں زمین سے بر آمد ہو کر یا آسمان سے ٹپک کر پوزیشنیں سنبھال لیں، مبینہ دہشت گرد کی غیر معمولی اونچی اور گرج دار لیکن شائستہ آواز ہَوا کی پیٹھ پر سوار ہو کر چوک میں اسکندرِ اعظم کی طرح چکر کاٹنے لگی۔
’’میں کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔ مجھے آپ کا کچھ وقت درکار ہے۔ کچھ پل، کچھ لمحے۔ اس لیے چپ چاپ اور غور سے میری باتیں سن لیجیے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ میں چاہتا ہوں میڈیا کا کوئی بھی ایک نمائندہ اور کیمرہ مین میرے نزدیک آ جائیں۔‘‘
اُس کا یہ کہنا تھا کہ ہجوم کو چیرتے ہوئے آناً فاناً دو نئے چہرے پہلے سے موجود بے خطر کود پڑنے والوں کے دلوں پرمونگ دلتے اس کی خواہش کے عین مطابق اس شخص کے قریب پہنچ گئے۔ نمائندے سے مائیک لے کر وہ ذہنی مریض دکھائی دینے والا شخص بڑی شائستگی اور عمدگی سے حاضر و غائب مجمعِ عام کی سماعتوں میں سُقراط کی طرح اترنے لگا۔
’’آپ کے دلوں میں کِلبلاتے سوالات اور مُغلظات و بد عائیں اپنی جگہ بجا ہیں لیکن ‘‘چارۂِ دل سوائے صبر نہیں’’ پر کار بند رہتے ہوئے تہہِ خاک اترنے سے کہیں بہتر مجھے یہ لگتا ہے کہ میں نقارخانے میں سُقراط کی آواز بن کر اپنے حصے کی شمع جلاؤں۔
میں نے یہ فلمی راستہ مجبوری کے تحت چنا ہے۔ کیوں کہ جب تک ہم باقاعدہ مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائیں ہم کسی کی بات غور سے نہیں سنتے۔
میں چاہتا ہوں کہ اس چھوٹے سے گیس اسٹوو پر بڑے سے اسٹیل کے برتن میں رکھا یہ چٹانی پتھر پگھل جائے۔
جی ہاں! یہ پتھر پگھل جائے۔ سیال بن جائے۔ پانی کی طرح بہنے لگے۔
اس چٹانی پتھر کو اب پگھل جانا چاہیے ۔میرے پاس کوئی قوی ہیکل برنر (burner) نہیں ہے نہ ہی میں اس پتھر کو زمین کے پیٹ میں لے جا سکتا ہوں۔
ٹھوس چیزیں بہاؤ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یوں توپانی اپنا راستہ چٹانوں میں بھی بنا لیتا ہے۔ لیکن اگر راستہ تنگ ہو یا تنگ کر دیا جائے تو چٹانیں بہاؤ کی راہ میں دیوار بن جایا کرتی ہیں۔
ایسی دیوار جس میں پانی کے لیے بھی سوراخ کرنا ممکن نہ ہو۔ اور اگر راستہ کوئی بند ٹنل جیسا ہو تو جلد یا بدیر بہتا پانی ٹنل کی چھت کو چھونے لگتا ہے۔ بالآخر ٹنل لبا لب بھر جاتی ہے۔ بہاؤ کی جگہ ٹھہراؤ لے لیتا ہے۔
ایک ایسا ٹھہراؤ جوتعفن کو دعوت دیتا ہے۔ جو مزید کی گنجائش کونگل لیتا ہے۔
ہائے! افسوس! صد افسوس! کہ جو توجہ میرا قلم تمام عمر نہ حاصل کر سکا وہ میرے ہاتھ میں موجود ہتھیار نے کچھ پل میں حاصل کر لی۔
ہائے! افسوس کہ میری سُخن طرازیاں آپ کی سمجھ میں نہ آ سکیں۔ میرے قلم سے بہتی عرق، دودھ اور شہد کی نہروں کو پتھر کے اس پار جانے کا موقع نہ ملا۔ اس طرف کا تعفن ہمیشہ جیتتا رہا۔
میں کوئی ذہنی مریض یا دہشت گرد نہیں ہوں۔ میں تو ایک تخلیق کار ہوں۔ یہ گیس اسٹوو کا شعلہ اور یہ چٹانی پتھر میرے استعارے، میری تشبیہیں میری علامتیں ہیں۔
یہ شعلہ میں ہوں۔ یہ چٹانی پتھر جمود کی علامت ہے۔ گیس ختم ہو رہی ہے اور شعلہ معدوم۔ لیکن یہ پتھر تو ویسا کا ویسا ہی ہے۔
کیا یہ کبھی نہیں پگھلے گا؟
کبھی بھی نہیں؟
کیا یہ تعفن زدہ اذہان کبھی مہکنے والے نہیں۔۔۔؟‘‘
تخلیق کار نے اتنا کہہ کر مائیک میڈیا نمائندے کے حوالے کیا اور ہتھیاروں کو باری باری زمین پر رکھ کر ہاتھ اوپر اٹھا دیے۔
تماشا گر کی بات ہی اس کا تماشا تھی۔
دور کہیں پیچھے پیچھے شور کی بازگشت بلند ہونے لگی تھی۔ گاڑیوں کے انجنوں کے اسٹارٹ ہونے کی آوازیں سناٹے کی جگہ لے رہی تھی۔
گیس نے تو ختم ہونا ہی تھا اور شعلے نے معدوم۔