دی جون ایلیا
از، محمد ابوبکر
جون ایلیا پر ایک تعزیتی نظم ” ایلیا کو کون جانتا ہے” میں انور سن رائے نے کہا تھا کہ خود انہدامی پر یقین رکھنے والے زود و بسیار نویس انارکسٹ جون ایلیا کے لیے اب تعزیتی جلسے ہوں گے۔ کیا عجب ہے کہ جون ایلیا صرف اتنا نہیں تھا۔ اس کی مثال تو اس وبا سی ہے جو اپنے گردوپیش کو بھی مرض و موت سےدوچار کرتی ہے۔ وہ ایسی میت ہے جو اپنے نوحہ گروں کو بددعائیں دیتی ہے۔ جون ایلیا بطورشخص ایک استشنائی صورتحال ہے جسے صرف شاعرانہ کمال کے اتفاق کی صورت برداشت کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر تیسرا شخص جون ایلیا بن جائے تو چوتھے دن ہی قیامت آجائے۔نظام دنیا پامال ہوجائے۔
ایلیا نے زندگی کو ابتدائی صورت میں ہندوستان کے ثقافتی مرکز لکھنو اور امروہہ میں دیکھا ۔ان کا خاندان عالمانہ پس منظر رکھنے کی وجہ سے ایک مخصوص تہذیبی شعور اور ذوق کا حامل تھا۔تاہم ایلیا کی پیدائش کے دنوں میں یہ ثقافتی مراکز تیزی سے اپنے انجام کو پہنچ رہے تھے۔اس سماجی ادھیڑ نے جون کو ایک مریضانہ ناسٹیلجیا میں مبتلا کیا جس سے وہ عمر بھر آزاد نہ ہو سکے۔ ان کے بڑے بھائی تحریک پاکستان کے کارکن تھے۔ایک اور بھائی کمیونسٹ پارٹی سےتعلق رکھتے تھے۔ آزادی کے بعد یہ سب لوگ پاکستان ہجرت کر گئے لیکن جون اپنے والد ین کےپاس امروہہ ہی مقیم رہے۔ ان کی طبیعت اپنے بھائیوں کی طرح تعمیری نہیں تھی۔ وہ بغاوت اور انکار کی بھٹی میں جلتے ہوئے شاعر تھے جو ماضی کے ملبے پرحساب سود و زیاں کرتا ہے۔ والدین کی وفات کے بعد ایلیا نے کراچی ہجرت کی تو ایک اور مرض میں مبتلا ہو گئے۔ دیار بدری کا یہی مرض لاہور میں منٹو اور ناصر کاظمی کو بھی لاحق تھا۔ امروہہ کے ماحول نے جون کو جنم دیا تھا لہذا اس کو برداشت بھی کرتا تھا۔ پاکستان آکر جون کو اپنا پس منظر تخلیق بھی کرنا تھا جو بوجوہ ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ جون یہ ماحول نہ بنا سکے اور ایک تاریخی مذاق بن کر رہ گئے۔
جون پرشور تضادات کا ایسا مجموعہ تھے جس کا کیفتی اظہار صرف شاعری میں ممکن ہے۔ انہوں نے چن چن کر اپنے آپ میں وہ سب جمع کر لیا تھا جس کا بار شعر تو اٹھا سکتا ہے لیکن زندگی نہیں اٹھا سکتی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جون نے اپنی زندگی کا سودا کر کے شاعری خریدی۔ اس المیے کا انہیں خود بھی شعور تھا چنانچہ انہوں نے جتنے سانس لیے پردہ سخن میں لیے۔ وہ جانتے تھے کہ شاعری کی پناہ سے نکل کر زندگی سے سامنا کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ بطور شاعر ان کے کلام میں زندگی کی ان گنت کیفیات اپنی پوری شدت سے موجود ہیں لیکن بطور فرد ان کی زندگی میں کوئی آہنگ موجود نہ تھا۔
وہ نسباً شیعہ تھے لیکن دیوبند سے منسلک ایک مدرسے میں پڑھے اور عمر بھر علمائے دیوبند کی وطن پرست سیاست کے گن گاتے رہے۔ مرتے دم تک ایک ایسی محبوبہ کی تلاش میں رہے جو ان کے عشق میں خودکشی کرے۔ جون اپنے معیارات میں بیمار شخص تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ انہوں نے بیماری کو ایک معیار کی صورت پیش کیا۔ اس معیار کو شعر میں پوری شدت سے بیان کرنے کا فن انہوں نے خدائے سخن میر تقی میر سے سیکھا تھا جو اردو ادب میں اس مریضانہ خود پسندی کی سب سے بڑی مثال ہیں۔
اپنے عہد کے ترقی پسندوں کے عمومی چلن کے برعکس جون نے ادب میں روایت پسندی اختیار کی اور غزل کو اپنے ذاتی معیار کی حسیت پر ازسرنو ایجاد کیا۔ پرانے موضوعات کی صورت بدلی اور نئی کیفیات کا راستہ نکالا۔ تاہم یہاں بھی ان کی نفی پسندی غالب رہی۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جا بجا اعتراف کیا کہ وہ بڑے نہیں ہو سکے اور رائیگاں گزر گئے۔ وہ ایک بچہ تھے جو اپنی روایت میں منجمد ہو گیا تھا۔ ان کی رائیگانی بھی اس روایت کے شکست کا شخصی اظہار تھی۔ جون وہ بچہ تھا جو پرنیت انہماک سے اپنے شکستہ گھر کی بنیادوں میں بارود بھرتا رہا۔ وہ اس گھر کو توانا دیکھنا چاہتا تھا چاہے سب کچھ ملیا میٹ بھی کیوں نہ کرنا پڑے۔
وہ اعلانیہ ملحد اور نہلسٹ ہونے کے باوجود مذہب کے ساتھ ایک تہذیبی رشتہ رکھتے تھے۔ ان کا الحاد بھی محض الحاد نہیں بلکہ جون ایلیا کا الحاد تھا۔ طبعاً پیکار طلب تھے لہذا ایک مخصوص کائناتی منظر کے اندر ہی زندہ رہنا چاہتے تھے تاکہ ہر لمحہ کسی سے گتھم گتھا رہیں۔ وہ خدا کے قائل نہ تھے لیکن اسے چھوڑ بھی نا سکتے تھے۔ وہ سینے میں بغض پالنے، رنج رکھنے اور شکوہ کرنے کے خوگر تھے۔ وہ خدا کو اتنی آسانی سے منہا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ایسا ہو جاتا تو ان کے کوسنے کے لیے صرف انسان باقی رہتے۔ ایلیا انسان پسند بھی نہ تھے۔ وہ انسان سے نطشے کی طرح مغائرت رکھتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے وہ تہذیب کے قائل بھی نہ تھے۔
لکھنوی فضا میں سانس لیتے جون ایلیا کو تہذیب اور تاریخ سے نفرت تھی۔ وہ اسے بیکار کا کھیل سمجھتے تھے لیکن اس کھیل میں بھی بطور کھلاڑی ایک منفرد مقام چاہتے تھے۔ وہ سرتاپا مجموعہ اضداد تھے لیکن اس جہت سے انسان کے فطری روپ کا وہ اظہار تھے جو اپنی حقیقت کے خام ہونے کا شعور رکھتا ہے۔ انہوں نے اس فطری خامی پر مذہب، تمدن، روحانیت اور جاہ طلبی کا میک اپ نہ کیا بلکہ ” جیسا ہے جہاں ہے ” کی بنیاد پر پیش کیا۔ وہ نہایت معیار پسند تھے لیکن اس بات کو جان گئے تھے کہ معیار وجود نہیں رکھتے۔ وہ تصور کو بے مایہ اور حقیقت کو لاچار تسلیم کرتے تھے۔ شاعری کے اس شخصی تناظر میں انہوں نے حسی تجربیت سے کام لیا اور نفس انسانی میں کی عمیق کیفیات کو متصادم صورتحال میں ہی پیش کیا۔
گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا
تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا
کیا کہا عشق جاودانی ہے
آخری بار مل رہی ہو کیا
بطور فرد جون کی زندگی ایک پیچدار ترین موضوع ہے جس پر مفصل گفتگو ایک تحریر میں ممکن نہیں۔ یہی معاملہ جون ایلیا بطور شاعر کے ساتھ بھی ہے۔ اس پر مسلسل گفتگو کی ضرورت ہے۔تاہم کچھ اشارے لازمی محسوس ہوتے ہیں۔
جون ایلیا کا شعری قد ان کی پہلی کتاب ” شاید” کے مناسبت سے طے کیا جائے۔ اگر غالب اور اقبال سمیت دیگر ان گنت شعرا یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنے کلام کی ترتیب اور انتخاب خود کریں تو یہ حق جون ایلیا کو بھی ہونا چائیے۔ غالب نے اپنی شاعری کا ایک پورا دفتر ضائع کردیا کیونکہ وہ اسے پیش نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہ حق تمام تخلیق کارو ں کو حاصل ہے۔ میں نے یوسفی صاحب کے بارے میں ایک مصدقہ ذریعے سے سنا ہے کہ وہ طباعت سے پہلے اپنی تحریر کی کانٹ چھانٹ پر انتہائی توجہ دیتے ہیں اور جب تک مطمئن نہ ہوں ایک سطر تک شائع نہیں ہونے دیتے۔
جون ایلیا ایک زود گو شاعر تھے جو طبعاً قادر الکلام تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کئی کئی گھنٹے منظوم گفتگو کرتے تھے۔ اس بات کی تصدیق جناب احمد جاوید سمیت کئی صاحبان فرما چکے ہیں۔ شعر کہنا جون کے ہر سانس کی مشق تھی۔ ایسے میں ان گنت کلام انہوں نے محض ریاضت ، وقت گزاری، فرمائش اور خواہ مخواہ بھی کہا ہوگا۔ لیکن اپنی کتابوں کی طباعت کے حوالے سے اس قدر حساس تھے کہ ”شاید” کے بعد دوسری کتاب کے لیے پریشان رہتے کہ کیا یہ بھی اتنی ہی مقبول ہوگی یا نہیں۔
تاہم افسوس یہ ہے کہ ان کے چل بسنے کے بعد ان کی شاعری مرتب کرنے والے حضرات اس تخلیقی حساسیت اور لطافت انتخاب سے کماحقہ آگاہ نہیں تھے۔ چنانچہ محض قارئین کو خوش کرنے کرلیے جون کا کوئی بھی شعر کہیں سے بھی ملا اسے چھاپ دیا گیا۔ کتاب کا ایڈیشن نکل گیا تو اگلے ایڈیشن میں ”جمع” کے نشان کے ساتھ نودریافت اشعار بھی چھاپے جاتے رہے۔ اس سنگین ترین غلطی نے جون کی ادبی حیثیت کو نہایت نقصان پہنچایا۔ جون کا مقام اگر خلوص نیت سے طے کرنا ہو تو ”شاید” پڑھیے۔
یہی معاملہ ایک بڑی حد تک جون کی نثر کے ساتھ بھی ہے۔ ”فرنود” نامی ان کی کتاب میں وہ تمام اداریے چھاپے گئے ہیں جو بقول شکیل عادل زادہ ضرورتاً لکھے گئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے فرنود کے چھپنے کا سنا تو نہایت خوش ہوا تھا لیکن جب مطالعہ کیا تو ”شاید” کے دیباچے کا تاثر بھی کمزور ہونے لگا۔ گزارش یہ ہے کہ ہزاروں سال سے ادیب قارئین کا پیٹ نہیں بھر سکے۔ محض جون کے لکھے کو قارئین تک پہنچانے کے لیے خود جون کے ادبی مقام کو نقصان مت پہنچایا جائے۔
آخر میں عظیم روسی شاعر پشکن کا ایک ترجمہ شدہ اقتباس جو جون ایلیا نے اپنے یار عزیز عبید اللہ علیمؔ کی نذر کیا تھا یہاں نذرِ جون کیا جاتا ہے۔
”کوئی اجر طلب نا کر اس لیے کہ تیرا اجر تیرے سوا کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ تو خود ہی اپنے بارے میں داوری اور فیصلہ دہی کرنے والا ہے کہ تیرے بارے میں کوئی بھی تجھ سے زیادہ سخت گیر نہیں ہے۔ اے مشکل طلب شاعر ! کیا تو اپنے کام سے راضی ہے ؟ کیا تو اپنے دل کو خرسند پاتا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو بھلا اس کی کیا پرواہ ہے کہ لوگ تجھ سے دشمنی رکھتے ہیں ، تجھے برا بھلا کہتے ہیں۔ احمقوں کو اس عبادت گاہ کی دہلیز پر تھوکنے بھی نہ دے جس کی محراب میں تیرے کمالِ فن کی آگ شعلہ زن ہے۔”
پاس رہ کر جدائی کی تجھ سے
دور ہو کر تجھے تلاش کیا
میں نے تیرا نشان گم کر کے
اپنے اندر تجھے تلاش کیا