غامدی صاحب کا ترجمہ قرآن ، ‘البیان’ : مختصر تعارف، چیدہ چیدہ خصوصیات

ایک روزن لکھاری
ڈاکٹر عرفان شہزاد، صاحبِ مضمون

غامدی صاحب کا ترجمہ قرآن ، ‘البیان’ : مختصر تعارف، چیدہ چیدہ خصوصیات

(ڈاکٹر عرفان شہزاد)

جاوید احمد غامدی صاحب نے ‘البیان’ کے نام سے نظمِ قرآن کی روشنی میں قرآن مجید کا ایسا مربوط اور مسلسل ترجمہ کیا ہے، جس کی نظیر قرآن مجید کے لٹریچر میں موجود نہیں۔ یہ ترجمہ علامہ حمید الدین فراہی کے اصول تفسیر کی روشنی میں اور مولانا امین احسن اصلاحی کی مایہ ناز تفسیر تدبر قرآن کے تفسیری نوٹس کی تلخیص اور قرآن مجید پر غامدی صاحب کے ذاتی تدبر کی نتیجے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

راقم الحروف نے برسوں قرآن سمجھنے کی کوشش کی، لیکن چند بہت واضح باتوں کے علاوہ قرآن مجید اپنی مجموعی حیثیت میں میرے لیے افکار پریشاں کا ایک مجموعہ ہی رہا۔ مجھے کبھی یہ گمان بھی نہ گزرا کہ قرآن ایک نظم اور نظام کے تحت چلتا ہے، اور اس نظم کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔

اس کی وجہ وہی روایتی انداز تفسیر تھا کہ ہر آیت کو کسی خاص شان نزول کے تحت دیکھا جانا ضروری سمجھا گیا ہے، جس سے قرآن اپنی ترتیب توقیفی کے باوجود ترتیب نزولی کے تحت سمجھے جانے کوشش لگتی ہے۔ جس سے قرآن نہ صرف ایک بے ربط کلام بن کر رہ جاتا ہے بلکہ وہ تفسیری روایات فہمِ قران کے لیے مدار کا درجہ پا لیتی ہیں، جن کا استناد اور صحت اہل علم کے نزدیک نہایت درجہ مخدوش ہے۔

غامدی صاحب کا ترجمہ قرآن ، 'البیان' : مختصر تعارف، چیدہ چیدہ خصوصیات
البیان

فکر فراہی نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن مجید کو اس کی زبان اور سیاق و سباق کی روشنی میں سمجھا جائے، اس فکر نے اصرار کیا کہ قرآن مجید ایک منظم اور مربوط کلام ہے، اور اس کا نظم فہم قرآن کی شاہ کلید ہے۔ آخر کیا وجہ تھی رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کو اس کی نزولی ترتیب کی بجائے، الگ سے ایک خاص ترتیب سے مرتب کرایا اور اس ترتیب کی خلاف ورزی کی اجازت مطلقا نہیں دی گئی۔

اگر کتابت میں اس ترتیب کا اتنا اہتمام کیا گیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ فہم قرآن میں اس کی کوئی اہمیت تسلیم نہ کی جائے۔ شان نزول کی روایات سے ہی قرآن کو سمجھنا تھا تو قرآن جس ترتیب سے نازل ہوا تھا، ویسا ہی رہنے دیا جاتا۔ شان نزول کی رو سے قرآن مجید سمجھنے کا منھاج نہ صرف غیر ضروری بلکہ قرآن فہمی میں سد راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پر شاہ ولی اللہ کے موقف سے ہمیں اتفاق ہے۔

البتہ قرآن اپنا ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے اور اس کی آگاہی ایسے ہی لازمی ہے جیسے کسی بھی تاریخی اہمیت کی حامل کتاب کے لیے ضروری ہوتی ہے، تاکہ اس کے ماحول کے مطابق اس کے بیانات کے مفاہیم سمجھنے میں کوئی غلطی نہ ہو۔

اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجیے: کیا قرآن کریم کا ترجمہ اصل کا قائم مقام ہو سکتا ہے؟

نیز قرآن مجید کی بعض آیات خود کسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں، ان کا معلوم ہونا قرآن کے مدعا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں عموماً قرآن کے تراجم کی زبان اور انداز ایسا ہوتا ہے کہ عام قاری کو کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہو پاتی۔ ترجمہ کی زبان عموما نامانوس قسم کی ہوتی ہے جس سے مخصوص علمی حلقوں کے زبان و محاورہ کی عکاسی تو ہوتی ہے، لیکن ابلاغ عام بے حد متاثر ہوتا ہے۔

معدودے چند تراجم البتہ اس سے مستثنٰی ہیں۔ پھر قرآن کی آیات کا ربط واضح نہ ہونے کی وجہ سے سمجھ نہیں آتا کہ قرآن میں خطاب کا رخ کیسے اور کیوں بدل جاتا ہے۔ اسی لیے جو لوگ ترجمہ پڑھنے کی ہمت بھی کرتے ہیں تو خود پر ایک جبر سے گزرتے ہیں۔

البیان کے ترجمے میں ہی آیات کا ربط واضح کر دیا گیا ہے۔ قاری جب قرآن کی آیات کے نظم اور ربط کے ساتھ پڑھتا ہے تو اسے سارا تسلسل سمجھ آنے لگتا ہے۔ معلوم ہونے لگتا ہے کہ ایک آیت دوسری آیت سے اور آیات کے پیراگراف ایک دوسرے سے کیسے متعلق ہیں، ایک سورت دوسری سورت سے اور سورتوں کا ایک گروپ دوسرے گروپ سے کیسے مربوط ہے؛ یوں پورا قرآن ایک وحدت کی شکل میں سامنے آ جاتا ہے، اور اس کا بنیادی پیغام بھی واضح ہو جاتا ہے۔

قران کا خاص اسلوب، ایجاز، یعنی بیان میں اختصار برتنا ہے۔ ایسا دو وجہ سے ہے۔ ایک یہ کہ خدا یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ذی فہم قاری سے مخاطب ہے۔ جو باتیں خود بخود سمجھ آ جانی چاہئیں، وہ قاری کی ذکاوت پر چھوڑ دی گئیں ہیں۔

دوسرا یہ کہ قرآن مجید کے اوّلین مخاطبین کے سامنے وہ ساری حالت اور سب سیاق و سباق موجود تھا، جس میں قرآن نازل ہو رہا تھا، اس لیے understood چیزوں کو مذکور کیے بغیر مخاطبین سے مخاطبت کی گئی ہے۔

یہ حالات دیگر لوگوں کے سامنے نہیں ہوتے، اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ترجمہ میں ان محذوفات کا اظہار کر دیا جائے تاکہ عام قاری پورے پس منظر اور ربط کے ساتھ کلام کو سمجھ سکے۔

ہم یہی اسلوب اپنے روز مرہ انداز گفتگو میں اختیار کرتے ہیں۔ ہم اپنے براہ راست مخاطب سے بہت سی understood باتوں کو مذکور کیے بغیر ایجاز و اختصار کے اسلوب پر بات کرتے ہیں جو کسی دوسرے کے لیے مکمل طور پر قابل فہم نہیں ہو سکتیں، جب تک ہم اسے اپنے بیان کے محذوفات سے بھی آگاہ نہ کریں۔

بعض تفاسیر میں نظم کا یہ بیان تفسیری نوٹس میں موجود ہوتا ہے، جیسا کہ تدبر قرآن میں خصوصی اہتمام کیا گیا ہے، لیکن غامدی صاحب نے البیان کے ترجمے ہی ان محذوفات کو کھول کر لکھ دیا ہے، جس سے محض ترجمے سے ہی قرآن کا مکمل مدعا سمجھنے کی راہ آسان ہو گئی ہے۔

قرآن مجید کا ایک خاص اسلوب تقابل کے الفاظ کا حذف ہے۔ یہ عربی کا خاص اسلوب ہے، جو کسی حد تک ہر زبان میں ہے۔ لیکن عربی میں بہت زیادہ ہے اس کو نمایاں کرنا غیر عرب کے لیے جو اس اسلوب سے واقف یا عادی نہیں نا گزیر ضرورت بن جاتی ہے۔ مثلاً:

وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم (6.38)

زمین پر جتنے جانور (اپنے پاؤں سے چلتے ہیں) اور (فضا میں) جتنے پرندے اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں، سب تمھاری ہی طرح امتیں ہیں۔

اس میں قوسین کے الفاظ دیکھیے۔ غامدی صاحب اس آیت کے تحت تقابل کے اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“اِن میں مقابل کے بعض الفاظ عربیت کے اسلوب پر حذف ہو گئے ہیں۔ مثلاً جملے کے پہلے حصے میں ’فِی الْاَرْضِ‘ (زمین میں) ہے تو دوسرے حصے میں ’فی السمآء‘ (فضا میں) کا لفظ نہیں آیا۔ اِسی طرح دوسرے حصے میں ’یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ‘ (اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں) کے الفاظ ہیں تو پہلے حصے میں ’تدب علی رجلیہا‘ یا ’أرجلہا‘ (اپنے پاؤں پر چلتے ہیں) کے الفاظ محذوف ہیں۔ ہم نے ترجمے میں اُنھیں کھول دیا ہے۔”

اسی طرح یہ آیت دیکھیے:

لِّيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ۚ وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًا (33:8)

تاکہ اللہ راست بازوں سے اُن کی راست بازی کے بارے میں سوال کرے (اور منکروں اور منافقوں سے اُن کے کفر و نفاق کے بارے میں) ، اور منکروں کے لیے تو اُس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

 

یہاں ‘منکروں اور منافقوں سے ان کے کفر و نفاق کے بارے میں سوال کرے’، محذوف تھا جس کی طرح اشارہ ‘اور منکروں کے لیے تو اس نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے’، سے ہو رہا تھا۔ اس کو ترجمہ میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اس طرح قران کا مکمل مدعا قاری کے سامنے آ جاتا ہے۔

قرآن میں خطاب کا رخ کس طرف ہے یہ ہر دفعہ لفظوں میں بیان نہیں ہوا ہوتا۔ ہر آیات کا درست مفہوم جاننے کے لیے ان کے مخاطبین کا تعین کرنا ضروری ہے۔ قرآن کے مخاطبین میں سچے مومنین کے علاوہ یہود، نصاری، منافقین، کمزور ایمان والے مسلمان، اہل کتاب کے مذبذبین جیسے مختلف گروہ تھے۔

مومنین کے مختلف طبقات بشمول منافقین کو مومنین کہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ قرآن میں مومنین سے ہمیشہ سچے مومنین مراد نہیں ہوتے، کبھی بظاہر مومنین یعنی منافقین اور کبھی کمزور مسلمین بھی مراد ہوتے ہیں۔ ایک مخاطب کی جگہ دوسرا سمجھ لینے سے سخت غلطی لگتی ہے اور قران کا سارا مفہوم کی الٹ کر رہ جاتا ہے۔

قرآن کے اولین مخاطبین کو یہ سمجھنے میں دشواری نہ ہوتی تھی۔ کس آیت کا مخاطب کون ہے، یہ محض لہجے کے فرق سے سمجھا جا سکتا ہے لیکن عام قاری کے لیے اس کی نشاندہی کرنا پڑتی ہے جو اس ماحول سے خود متعلق نہیں ہوتا اور قرآن کے اس اسلوب سے بھی واقف نہیں ہے۔

غامدی صاحب نے البیان کے ترجمے میں ہی ہر آیت کے مخاطبین کا تعین بھی کر دیا ہے، جس سے قاری کو بات اپنے درست تناظر میں سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مثلاً سورہ احزاب میں ایک ہی واقعہ کے بارے میں مومنین کو خطاب کر کے دو مختلف طرز عمل کا بیان آیا ہے۔ یہاں دونوں جگہ ایک ہی طرح کے مومنین سمجھیں جائیں تو تضادِ بیان لازم آتا ہے۔ پہلی آیت کے مخاطب منافقین اور کمزور ایمان والے ہیں۔

 

إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّـهِ الظُّنُونَا

یاد کرو، جب وہ تمھارے اوپر کی طرف سے بھی اور تمھارے نیچے کی طرف سے بھی تم پر چڑھ آئے تھے، جب (خوف کے مارے) آنکھیں بہک گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آ گئے تھے اور اللہ کے بارے میں تم لوگ طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے۔

 

جب کہ اس کے مقابل اہل ایمان کا رد عمل یوں سامنے آتا ہے:

 

وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَـٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا (22)

اور سچے اہل ایمان (کا حال اُس وقت یہ تھا کہ اُنھوں) نے جب لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ تو وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اُس کے رسول ﷺ نے ہم سے وعدہ کیا تھااور اللہ اور اُس کے رسول کی بات بالکل سچی تھی۔ اور (اُن کے اندر کوئی کمزوری پیدا کرنے کے بجائے) اِس چی زنے اُن کے ایمان و اطاعت ہی کو اور بڑھا دیا۔

 

اس کا ثبوت اس آیت سے بھی دیا جا سکتا ہے جو اسی موقع پر منافقین کے طرز عمل کو بیان کرتی ہے:

 

وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا (12)

اور جب منافقین کہتے تھے اور وہ بھی جن کے دلوں میں روگ ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول نے جو وعدے ہم سے کیے تھے، وہ نرا فریب ہی تھے۔

 

سب سے اہم بات قرآن کے موضوع کا تعین ہے۔ مولانا مودودی نے قرآن کا موضوع انسان کو قرار دیا ہے۔ لیکن فکر فراہی نے قرآن مجید کو رسول اللہ ﷺ کی سرگزشت انذار قرار دیا ہے۔ جس کے نتائج اور اسباق انسانوں کے لیے ہدایت کا سامان ہیں۔

قرآن کا موضوع اگر انسان کو قرار دیا جائے تو پھر قاری قران کے ہر بیان کا مخاطب خود کو سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتا ہے۔ وہ ہر بیان میں خود کو فٹ کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ یہ منھاج قران فہمی میں بڑی رکاوٹ ہے۔

فکر فراہی نے قرآن کو رسول اللہ ﷺ کی سرگزشت انذار (یعنی آپؐ کی اپنی قوم کو دعوت و تبلیغ کی داستان) قرار دے کر قران فہمی کی کلید ہاتھ میں تھما دی ہے جو قاری کو کسی غلط تفہیم پر جمنے نہیں دیتی۔

رسول اللہ ﷺ کی دعوت و تبلیغ اور اس کے نتائج کی سرگزشت سنانے کا مقصد سامعین میں آخرت کی جواب دہی کا احساس بیدار کرنا ہے۔ یعنی جو کام رسول اللہ ﷺ اپنی قوم کے لیے قرآن کے ذریعے انذار کر کے کیا کرتے تھے، وہی کام قرآن مجید تاقیامت تمام انسانوں کے لیے انجام دیتا ہے۔ اسی تناظر میں وہ درست عقائد، اعمال اور قوانین (دین) بھی بتائے گئے ہیں جو دنیا میں خدا کی مرضی کے مطابق جینے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔

قرآن کو رسول ﷺ کی سرگزشت انذار سمجھ کر پڑھنے سے یہ سمجھ آنا شروع ہو جاتا ہے کہ کن آیات کا سکوپ ابدی ہے اور کون سی آیات مخصوص سکوپ کی حامل ہیں۔ ورنہ قرآن کے مطالعہ کے دوران ہوتا یہ ہے کہ مثلاً سیاسی غلبے کے یقینی وعدے جو صحابہ سے ہو رہے ہوتے ہیں، یہاں مسلمان ان وعدوں کا مخاطب خود کو بھی سمجھ لیتے ہیں۔

خدا کہتا ہے کہ غالب تم ہی رہو گے اگر تم مومن ہو، اس ‘تم’ کو ‘ہم’ سمجھ لینے سے ہوتا پھر یوں ہے کہ جذبہ ایمانی سے سرشار مہم جوئیاں برپا کر دی جاتی ہیں۔ لیکن تمام ایمان اور اخلاص کے باوجود، ہر طرح کی قربانیوں، ہجرتوں اور مصائب اٹھانے کے بعد بھی جب خدا کی نصرت آتی ہے نہ فرشتے قطار اندر قطار اترتے ہیں، اور مہم جوئی غلبہ حاصل کرنے کی بجائے ناکامی سے دو چار ہوتی ہے۔

یہ نتائج اس غلط فہمی کے شکار افراد کے لیے حیرت یا تشکیک یا الحاد کا باعث بن جاتے ہیں کہ خدا کا وعدہ ان کے حق میں کیوں پورا نہ ہوا، یا پھر وہ طول طویل تاویلات اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ غلبے سے مراد یہ غلبہ نہیں کوئی اخلاقی یا اخروی غلبہ ہے وغیرہ، یا پھر وہ انھیں خدا کی سمجھ میں نہ آنے والی حکمتیں قرار دے کر داخلِ دفتر کر کے بلا دلیل ایمان محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں اگلی نسل کے لیے ان کی ناکامی، ان کے فہم اور حکمت عملی میں کسی نظر ثانی کی تحریک یا بہتری پیدا نہیں کر پاتی۔

یہ دراصل ابراہیمؑ کی اولاد کے ساتھ خدا کا خصوصی معاملہ ہے کہ وہ اگر ایمان و عمل کے مطلوبہ معیار پر پورا اتریں گے تو اسی دنیا میں غلبہ پائیں گے؛ اور اگر کوتاہی کریں گے تو اسی دنیا میں ذلت اٹھائیں گے۔ اس کا واضح اعلان قرآن مجید اور بائیبل میں بھی موجود ہے۔ اس خاص سنن الہی کو عام قانون سمجھ لینے سے قرآن کی بہت سے آیات کا سکوپ غط سمجھ لیا جاتا ہے۔ البیان میں آیات کی تفہیم میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے، جس سے قرآن کی آیات کا درست تناظر اور سکوپ قاری کے سامنے آتا ہے۔

قرآن فہمی سے عمومی عدم رغبت اور علمی مباحث اور فتاوی میں قرآن سے استدلال نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ خیال ہے کہ قرآن کے الفاظ میں ایک سے زائد احتمالات ہوتے ہیں؛ ایک ہی بیان کے بیک وقت کئی مطالب ہوتے ہیں۔ اب کون سا مطلب مراد لینا ہے، اس کے تعین کا کوئی اصول، کوئی طریقہ طے نہیں، جو چاہے جس طرح چاہے مطلب نکال سکتا ہے۔ بس لغت میں اس کا معنی کسی نہ کسی طرح موجود ہونا چاہیے۔

خود سوچیے ایسا کلام کیا کسی کو متاثر کر سکتا ہے، اور کیسے حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔ حالانکہ قرآن کا دعوی یہی ہے کہ وہ میزان اور فرقان بنا کر نازل کیا گیا ہے تاکہ لوگ اپنے تنازعات میں اس کے ذریعے فیصلہ کریں۔

خدا رحمت فرمائے فکر فراہی کے اساتذہ پر، جنھوں نے ان حجابات کو دور کیا اور قرآن فہمی کی راہ کھولی۔ فکرِ فراہی نے بتایا کہ قرآن مجید محتمل کلام نہیں۔ اس نے سمجھایا کہ لغت میں ہر لفظ کے متعدد معنی تو ہوتے ہیں، لیکن ایک مصنف جب انھیں اپنے کسی مضمون میں استعمال کرتا ہے تو اپنے مضمون کے سیاق و سباق کے لحاظ سے کوئی ایک ہی معنی اس کے پیش نظر ہوتا ہے۔

سوائے یہ کہ مصنف کا مقصد ہی ابہام پیدا کرنا یا ذو معنی کلام کرنا ہو، لیکن اگر مقصد اپنے مدعا اور مفہوم کو دوسروں کو سمجھانا اور پیغام کا واضح طور پر پہنچانا ہو تو مصنف کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کلام کو ایسا بیان کرے کہ ایک سے زیادہ معنی مراد نہ لیے جا سکیں۔ قرآن کو محض لغت کی مدد سے حل کرنے کی روش قرآن کے امکانات کو وسیع نہیں کرتا، بلکہ اس کی فرقان اور میزان ہونے کی حیثیت کو کالعدم کر دیتا ہے۔

قرآن مجید کا سیاق و سباق، اور اس کا نظم، قطعی طور پر ایک ہی معنی متعین کرتے ہیں۔ احتمالات البتہ، قاری کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ کلام کا نقص یا خوبی نہیں، ایسا ہر علم میں ہوتا ہے، کسی بھی علم کے بیان کے سمجھنے میں اختلاف فہم سے اختلاف آرا ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر کوشش ہمیشہ یہ کی جاتی ہے کہ مختلف احتمالات کی صورت میں قطعی مرادی مطلب تک پہنچے کے لیے درست طریقے سے زیادہ سے زیادہ تدبر کیا جائے؛ یہی اصول قرآن کے بارے میں بھی ہے۔

غامدی صاحب کا ترجمہ قرآن، ‘البیان’، یہ بات بالکل واضح کر کے دکھا دیتا ہے کہ قرآن ایک مربوط اور غیر محتمل، قطعی الدلالہ کلام ہے۔ قرآن مجید کے ترجمے میں کلام کے سیاق و سباق، اس کے نظم، ربط آیات، کلام میں مختلف مخاطبین کے تعین، محذوفات کے کھولنے اور عربیت کی باریکیوں کو مدنظر رکھا گیا ہے، اس نے قرآن فہمی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس کی قدر کرنے والے تو کر ہی رہے ہیں؛ تاہم، اس کی قدر و قیمت آنے والے وقتوں میں سامنے آتی چلی جائے گی۔

غامدی صاحب کا یہ عظیم الشان ترجمہ بھی حرف آخر نہیں۔ یہ ترجمہ خود غامدی صاحب کی مسلسل نظرثانی میں رہتا ہے، ان کے شاگردوں اور اہل علم متعلقین کی تنقید سے گزرتا ہے اور کوئی معمولی سے معمولی سقم بھی اگر پایا جائے تو اسے دور کرنے اور ترجمہ میں مزید بہتری لائی جاتی ہے۔ قرآن مجید کے تراجم کی تاریخ میں ایسا علمی رویہ شاید پہلی بار اختیار کیا گیا ہے۔