جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے بانکے
از، عتیق بزدار
حریت کے عالمی استعارے چے گویرا نے کہا تھا کہ اگر آپ کوئی بھی نا انصافی دیکھ کر غصے سے کانپ اٹھتے ہیں تو آپ میرے کامریڈ ہیں۔ کرانتی کاری دلوں میں مؤجزن یہ جذبہ مختلف زمانی و مکانی حالات میں بارہا سر اٹھاتا رہا ہے اور اس کی حالیہ جھلک جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلباء کی احتجاجی تحریک میں نظر آئی. کامریڈ کنہیا کمار اور کامریڈ شہلا رشید کی زیرِ قیادت اس احتجاجی تحریک نے نہ صرف انڈین سماج کو بھگوے ( Saffron) رنگ میں رنگنے کے بی جے پی اور آر ایس ایس کے بیانیے کے سامنے سپر باندھا بلکہ سیفرانائزیشن کے جہل سمندر میں سیاسی وسماجی شعور کا اک جزیرہ آباد کیا ہے. آج جے این یو انڈیا کا ہائیڈ پارک بن چکا ہے جہاں انڈسڑیلائزیشن کے بغل بچے نیشنلزم، نریندر مودی کےالٹرا رائیٹ ھندوتوا ڈسکورس اور امبانی ٹاٹا کے کیپٹلزم کی کھچڑی سے برآمد ہونے والے کارپوریٹ ہندوازم کے جمہوری و معاشی مینڈیٹ کو جے این یو کے مٹھی بھر طلباء نے تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔
جے این یو انڈیا کی طلباء سیاست کا ایپی سنٹر ہے. دیگر ملکی وغیر ملکی یونیورسٹیوں کے مثل یہ فقط ڈگریاں فروخت کرنے کی منڈی نہیں، بلکہ فکر و شعور بیدار کرنے والی دانش گاہ کے طور سامنے آئی ہے. 1967 میں اندرا گاندھی کے دورِ حکومت میں بنائی گئی یہ درسگاہ اپنے قیام کے چند ہی سالوں میں انڈیا کی صفِ اول کی درسگاہوں میں شمار ہونے لگی. داخلے کا نظام کچھ اس وضع پر استوار کیا گیا کہ علم و دانش کا یہ پلیٹ فارم فقط مین اسٹریم میں پہلے سے ہی موجود متمول لوگوں تک محدود نہ رہے. اور دورافتادہ علاقوں کے غریب طالبعلموں کو برابر مواقع فراہم کیے جائیں. روزِ اول ہی سے شعوری طور پر ادارے کی فکری منہج ایسے خطوط پر استوار کی گئی کہ سوچ کے دائرے کسی باہر سے مسلط کیے گئے ڈسکورس اور ریاست کے سرکاری بیانیے سے متأثر نہ ہوں. جے این یو کے مضبوط نظریاتی تشخص کی اولیں جھلک تب نظر آئی جب اسی درسگاہ کی بانی اندرا گاندھی نے جے این یو کے طلباء سے خطاب کرنا چاہا مگرطلباء نے انہیں یونیورسٹی حدود میں داخل تک نہ ہونے دیا. طلباء اس امر پہ مُصر تھے کہ اندرا ایمرجنسی کے نفاذ اور دورانِ ایمرجنسی ہونے والے سرکاری جرائم پر قوم سے معافی مانگیں.
سوال کرنے کی صحتمند روایت جے این یو کی فضاء میں رچی بسی ہے. ہوسٹل، میس اور ڈھابوں پر مکالمے اور مباحثے ہوتے ہیں کہ انڈین سماج کی پرداخت کن سماجی اور سیاسی اصولوں پر ہو. گو جامعہ میں کمیونسٹ اور سوشلسٹ سوچ کی حامل جماعتوں کا غلبہ رہا ہے مگر کسی بھی نظریئے کو تقدس اور حتمیت کا غلاف چڑھانے کی روایت نہیں. ڈین کی زیرِ سرپرستی قائم جے این یو سٹوڈنٹس یونین کی صورت جے این یو کے طلباء کو ایک ایسا تنظیمی ڈھانچہ میسر ہے جو سیاسی وسماجی شعور اور فکر و تعمق کو جلا بخشتا ہے. جے این یو سٹوڈنٹ یونین فکری و نظریاتی تنوع کی جیتی جاگتی تصویر ہے. یونین کے صدر کامریڈ کنہیا کمار آل انڈیاسٹوڈنٹ فیڈریشن سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا طلباء ونگ ہے. نائب صدر کامریڈ شہلا رشید اور جنرل سیکرٹری راما ناگا کا تعلق آل انڈیا سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن سے ہے جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ لیننسٹ کا طلباء دھڑا ہے. جوائنٹ سیکرٹری انورابھ شرما اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ کا طلباء دھڑا ہے. اس سٹوڈنٹ یونین نے جامعہ میں اختلافِ رائے، آزادئ اظہار اور بوقلمونی ء افکار کی اک نئی طرح ڈالی ہے. یہاں “باپو” اور بھارت ماتا سے زیادہ بابا صاحب امبید کر، بھگت سنگھ اور چارو ماجومدار سے عقیدت برتی جاتی ہے. نریندر مودی اور رتن ٹاٹا کی کوئی نہیں سنتا مگر گجرات کے ایک غریب لڑکے کنہیا کمار اور کشمیر کی ایک مسلمان لڑکی شہلا رشید کی فقط ایک کال پر ھندو مسلم، سکرٹ بلاؤز و شلوار قمیض، باریش و کلین شیو کی تفریق بھلا کر سب لبیک کہتے ہیں. کسی قسم کی تقدیسوں کی اسیری کو جھٹلاتے ان سچے سجیلے جیالوں کی جرأتیں ریاست کی قوتِ قاہرہ اور ھندوتوا کے سیفرانائزیشن ایجنڈے کے مقابل ڈٹی ہیں۔
نو فروری 2016 کو جے این یو سٹوڈنٹس یونین نےافضل گرو کی ناحق پھانسی کے خلاف ایک کنوینشن کا انعقاد کیا. حسبِ توقع نازک طبع ریاست کو ان طلباء کے نعرے ناگوارِ خاطر گزرے.1860 کے استعماری قانون کی سیڈیشن کی شق استعمال کرتے ہوئے جے این یو سٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیا کمار اور ان کے ساتھیوں کو حراست میں لے لیا گیا. کنہیا اور ان کے کامریڈز کو جھوٹا دوش دیا گیا کہ انہوں نے اینٹی نیشنل نعرے لگائے. ان گرفتاریوں کا واضح مقصد جے این یو میں ریاستی بیانیے کے خلاف بڑھتی ہوئی فکری مزاحمت کو دبانا تھا. طلباء کی گرفتاریوں نے ایک احتجاجی تحریک کو جنم دیا. جے این یو کے بانکوں نے اپنی آزادی ء اظہار پر مودی سرکار کی اس یلغار کے خلاف ڈٹ جانے کی ٹھان لی. یونیورسٹی کا ہر کونا ہر قریہ انقلاب اور لال سلام کے نعروں سے گونج اٹھا. اساتذہ بھی اپنے ان رشید شاگردوں کی صفوں میں آن شامل ہوئے. ریاست اور یونیورسٹی انتظامیہ ایک طرف اور دوسری جانب علم و آگہی سے منور یہ سچے سجیلے جواں ڈٹ گئے. صدر کے پابندِ سلاسل ہونے پر سٹوڈنٹ یونین کی نائب صدر شہلا رشید نے احتجاجی تحریک کی باگیں سنبھال لیں۔
سری نگر کی شعلہ بیاں شہلا رشید کی جوشیلی تقریروں کے شعلہ ء گرمی نژاد نے جے این یو تحریک میں حرارت اور توانائی پھونکی. ریاستی میڈیا کے ارناب گوسوامی جییسے جغادریوں کے بھرپور پراپیگنڈے کے باوجود جے این یو کی آواز دبائی نہ جا سکی. ریاست کو فکری و نظریاتی مورچے پر شکست یقینی نظر آئی تو ریاستی قوتِ قاہرہ وردی پوش اداروں کی صورت کیمپس میں در آئی. یونیورسٹی کیمپس مثل اک جیل کے لگنے لگا. ایسے میں ایک نہتی لڑکی نے جاسوسی کیمروں اور بندوقوں کے مہیب سائے تلے ریاستی جبر اور وطنیت کے جھوٹے فسار تلے پلتی ناانصافیوں کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا تو جے این یو کے جیالوں نے اسے مایوس نہیں کیا. 14 فروری کو شہلا کی ایک کال پہ ہزاروں طلبہ نے یونیورسٹی کیمپس کی جانب مارچ کیا. 18 فروری کو یہ طوفان ٹھاٹیں مارتا جے این یو کی در و دیوار پار کر کے دلی کی سڑکوں پہ اتر آیا. جلوسوں اور ریلیوں کے علاوہ شہلا نے تحریک کا دانشورانہ مورچہ بھی بخوبی سنبھالا. کامریڈ شہلا کی تقریریں ان کے سیاسی و سماجی شعور کی بلند پروازی کا پتہ دیتی ہیں.جب جب کھوکھلے نیشنلزم کے کرتبی دانشوروں نے آزادی ء افکار پر قدغن لگانا چاہی اور ان پُر عزم جوانوں کی سرکشی ء خیال کو غداری پہ محمول کرنا چاہا. تو شہلا نے ہر فورم پر جے این یو کا مقدمہ لڑا. مذہب کے سیفرانی لبادے میں چھپے سرمایہ داروں، ان کے ہمنوا سیاستدانوں اور چیختے چھنگھاڑتے میڈیائی مداریوں کو سرِ عام بے نقاب کیا۔
میں ظالموں کے خلاف نسلوں کی نفرتیں عام کر کے چھوڑوں گا
میں ساری دنیا میں ان کو بدنام کر کے چھوڑوں گا
سیاسی و سماجی اپج اور ادبی و شعری ذوق سے مرصع شہلا کی تقریروں میں فیض اور فہمیدہ ریاض کے انقلابی شعروں اور امبیدکر و بھگت سنگھ کی نظریات کی بازگشت سنائی دیتی ہیں. ان کا ہمیشہ اصرار رہا ہے کہ نریندر مودی کا الٹرا رائیٹ نیشنلزم انڈین سماج کے لئے نا قابل قبول ہے. کاسٹ سسٹم کی تفریق ہو یا اقلیتوں سے ناروا سلوک، شہلا رشید کنہیا کمار اور ان کے کامریڈز نے جرأتمندی سے ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھائی.
شوریدہ سر شاعر اور فلسفی جون ایلیا ایک جگہ لکھتے ہیں “سوچنا کل بھی جرم تھا اور آج بھی جرم ہے. محسوس کرنے میں کل بھی ضرر تھا اور آج بھی ضرر ہے پس کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ سوچنے اور محسوس کرنے کا یہ شیوہ اس دنیا کی ساخت کے یکسر خلاف ہے”. جے این یو کے جیالوں کا جرم بھی مروجہ فکر سے ہٹ کر سوچنا اور محسوس کرنا ہے. ان سچے سجیلے جوانوں کے قلوب تپاں سرکشی ء خیال سے معمور ہیں، یہ بانکے جواں ہمہ لمحہ انسان دوستی کا دم بھرتے ہیں، علم و آگہی سے اپنے نفس کی تطہیر کرتے ہیں، سماج اور جمہور کے طے شدہ ضابطوں کو ازسرِ نو سوچنے پہ مصر ہیں، ان کے دلوں کی فصیلیں ظفر مند ارادوں سے بھری ہیں، ایسے لوگ لامحالہ ایک جبری یقین مسلط کرنے والی متشدد کارپوریٹ ریاست کے لیے خطرہ ہیں. جب دادری میں محمد اخلاق گئو ماتا کے ذبیحے کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں بیدردی سے مارا جاتا ہے تو ریاست کا انصاف نہیں جاگتا مگر جے این یو کے بام و سقف آزادی اور انقلاب کے نعروں سے گونجتے ہیں. اڑیسہ میں “ادی واسیوں” کو اس لیے اپنی زمینوں سے بے دخل کیا جاتا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں وہاں کھربوں روپے کا بکسائیٹ کھود نکالنا چاہتی ہیں.تب بھی جے این یو بولتا ہے. تعلیمی ادارے غریب طالبعملوں کا استحصال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو جے این یو انہیں آڑے ھاتھوں لیتا ہے. القصہ جے این یو ایک استبدانہ معاشرے میں مزاحمت کی دیوار بن کر ابھرا ہے. ایک ایسی دیوار جس کے سنگ و خشت افکار کی رنگا رنگی کے باعث بہم ہیں.
جب سے نریندر مودی راج سنگھاسن پہ بیٹھے ہیں انڈین سیکولر ازم کا پرانا بیانیہ کہیں پسِ منظر میں گُھٹ مرا اور اب اطراف و جوانب میں کارپوریٹ ھندو ازم کی بنسی بجتی ہے. منافع کی بڑھوتری کے یک نکاتی ایجنڈے سے عبارت سرمایے کا عالمی نظام اخلاقیات کے آفاقی تصور کی ہمیشہ سے نفی کرتا رہا ہے. ہر چند اس نظام میں ایک طرزِ خاص پہ استوار سرمایہ دارانہ نظم اور معاشی ضوابط کا مبسوط نظام تو موجود ہے مگر ایک معاشرے کی اخلاقی بنیادوں پہ استواری انہیں موافق نہیں. اس نظام میں بدلتے ہوئے حالات میں منافعے کی بڑھوتری کے لیے ایک لچک رکھی گئی ہے. اور دانستہ طور پر عالمگیر تصورِ اخلاقیات سے پہلو تہی برتی گئی ہے کیونکہ آفاقی تصورِ اخلاقیات میں اٹل اقدار و ضوابط موجود ہیں. اور ان اٹل ضوابط کی موجودگی میں سرمایہ دارانہ نظام کو بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ رنگ بدلنے کی لچک میسر نہیں. اسی نظام کی چھتر چھایا تلے گجرات کے خون آشام بھیڑیئے نریندر مودی کو ۲۰۰۵ تک امریکہ میں داخلے کی اجازت نہ تھی. مگر جب یہ امر مسلم ہو چلا کہ مودی جی ھندوتوا کے بھگوے جھنڈے تلے ڈیڑھ بلین لوگوں کی تجارتی منڈی کے سربراہ بننے کو ہیں. تو ایسی تمام پابندیاں ہوا میں اڑا دی گئیں. ۲۰۱۴ میں وہی مودی میڈیسن اسکوائر میں خطاب کرتے پائے جاتے ہیں. کیمروں کی آنکھیں چندھیاتی روشنی میں باراک اوباما سے بغلگیر ہوتے ہیں. انڈین سماج میں سرمایہ دارانہ مفادات کو فروغ دینے کیلئے جمہوریت کو مذہب کا تڑکا لگایا گیا. نتیجتاً کارپوریٹ ھندوازم اپنی زعفرانی ضو فشانیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوا. امبانی ٹاٹا اور دیگر بڑی مچھلیوں نے مودی سرکار کی راہ ہموار کرنے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا. الٹرا رائیٹ سیوکوں نےمودی جی کی الیکشن مہم میں نعرہ لگایا “اگر آپ اصلی ہندو ہیں تو نریندر مودی کو ووٹ دیں. ایسے نعروں اور ان سے وابستہ بیانیے پہ شہلا رشید نے اپنی ایک تقریر میں پاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض کے شعروں سے یوں چوٹ لگائی
تم بالکل ہم جیسے نکلے ،
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن
جس میں ہم نے صدی گنوائی
آخر پہنچی دوار توہارے،
ارے بدھائی بہت بدھائی
پریت دھرم کا ناچ رہا ہے
قائم ہندو راج کرو گے ؟
سارے الٹے کاج کرو گے ؟
اپنا چمن تاراج کرو گے ؟
تم بھی بیٹھے کرو گے سوچا ، پوری ہے ویسی تیاری
کون ہے ہندو کون نہیں ہے ، تم بھی کرو گے فتویٰ جاری
سوچنا اور سوال اٹھاناایک صحتمند ذہن کا عملیہ ہے. کامریڈ کنہیا کمار کہتے ہیں
“ہمارا سماج جو کل سوچے گا، جے این یو کو آج اس کی فکر ہے”
“انڈین نیشنلزم کو ایک دھرم یا ایک ذات پہ استوار نہیں کیا جا سکتا”
“ہم سماج میں بہتری کا سنگھرش کررہے ہیں.ہم بھارتی آئین کے عملی نفاذ کی جنگ لڑ رہے ہیں. ہم صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں”
کامریڈ شہلا کہتی ہیں
“ایک قوم کہلانے کیلئے یہ لازمہء تہذیب ہے کہ مکالمے اور مباحثے کی آزادی کو یقینی بنایا جائے. اگر آپ کو عوام کی چنتا ہے تو ان کے سوال اٹھانے کے حق کو محفوظ بنانا ہو گا” “ہم کسی کو جیل بھیجنے کے حق میں نہیں. نہ ہی ان لوگوں کے جو گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کو شہید مانتے ہیں نہ ہی ان لوگوں کے جو افضل گورو کو شہید مانتے ہیں. ہر دو قبیل کے لوگوں کو اپنا مقدمہ پیش کرنے کی آزادی ہونی چاہیے. ہم بھگت سنگھ کے پروگریسو نیشنلزم کو مانتے ہیں اور آر ایس ایس کے بھگوا جھنڈا لہراتے متشدد نیشنلزم کو رد کرتے ہیں۔”
شہلا، کنہیا اور ان کے ساتھیوں کی یہ جرأتِ گفتار اور فکری تگ و تاز مودی سرکار کو ایک آنکھ نہیں بھاتی. بس اسی پاداش کنہیا کمار، عمر خالد، انیربان اور اشتوش کمار کو حراست میں لیا گیا. الزام دیا گیا کہ انہوں نے بھارت مخالف نعرے لگا کر غداری کا ارتکاب کیا. ان کو پس دیوار زنداں بھیجنے کو 1860 کے فرنگی قانون کا سہارا لیا گیا. ریاست کو گمان تھا کہ زندان کی کٹھنائیاں ان آتشیں خیال جوانوں کی آرزوؤں کا خون کر ڈالیں گی. ریاست شاید اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ ان سرکردہ رہنماؤں کو پابندِ سلاسل دیکھ کر جے این یو کے بانکے حوصلہ ہار دیں گے مگر
رہیں نہ رند یہ واعظ کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں
گرفتاریوں نے تحریک کو اک نئی اٹھان دی. ساتھیوں کی رہائی کے لیے طلباء کا طوفان جامعہ کے در و دیوار پار کر کے دلی کی سڑکوں پر امنڈ آیا. ہزاروں طلباء نے شہلا کی قیادت میں پارلیمنٹ کی طرف مارچ کیا اور ریاست کے آمرانہ رویے کے خلاف بھرپور احتجاج کیا. دنیا بھر کے دانشوروں نے انڈین گورنمنٹ کے اس سامراجی اقدام کی سخت لفظوں میں مذمت کی. نامور دانشور ناؤم چومسکی، نوبل لاریٹ اورحان پاموک سمیت دنیا بھر سے نواسی دانشوروں نے ایک مشترکہ اعلامیے میں استعماری قانون کے تحت طلباء کی غداری کے الزام میں گرفتاری کو انڈین حکومت کا آمرانہ اقدام قرار دیا. اور استعماری قانون کے اطلاق پر گہری تشویش کا اظہار کیا. آخر کار دومارچ کو کنہیا اور ان کے ساتھیوں کو عبوری ضمانت پر رہا کر دیا گیا. انقلاب، آزادی اور لال سلام کے نعروں کی گونج میں کامریڈ کنہیا اور ساتھیوں کا والہانہ استقبال کیا گیا. پورا جے این یو کچھ یوں نعرہ زن ہوا
کامریڈ کنہیا کو لال سلام لال سلام
کامریڈ عمر کو لال سلام لال سلام
ہم لے کے رہیں آزادی
فاسی واد (فاشزم) سے آزادی
سنگھ واد سے آزادی
جو تم نہ دو گے
تو لڑ کے لیں گے آزادی
او لال و لال و لال سلام
پورے جے این یو کو لال سلام
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.