جذبہ اور جذباتیت
از، امجد اسلام امجد
جونہی میرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ ہمارے عمومی قومی مزاج میں موجود جذبے اور جذباتیت کے ایک دوسرے سے الجھتے ہوئے رویوں پر بات کی جائے، برسوں پرانی عزیز دوست شمیم اختر سیفی مرحوم کی سنائی ہوئی ایک بات پتہ نہیں کیسے یک دم یاد آ گئی۔ اس نے بتایا کہ گورنمنٹ کالج لاہور سے (جو ان دنوں ابھی یونیورسٹی نہیں بنا تھا) ایم اے فلاسفی کرنے کے دوران اس نے پروفیسر صاحب کی تجویز کی ہوئی ایک کتاب لائبریری سے نکلوائی جس کے پہلے چیپٹر کا عنوان Emotions تھا اور اس کے نیچے کسی نے پنسل سے لکھ رکھا تھا۔
who knows? who cares? ایک علمی مسئلے کی اس رومانٹک تاویل اور تبصرے نے اس وقت اور اس عمر میں جو لطف اور مزا دیا اس کا احساس آج بھی روح میں تازگی سی بھر دیتا ہے لیکن دیکھا جائے تو عملی طور پر واقعی جذبات اور ان کا اظہار انسانی زندگی کا ایک ایسا بھرپور استعارہ ہیں جس سے کسی فرد یا معاشرے کی ایک مکمل تصویر سامنے آ جاتی ہے۔
سلطان باہو نے کہا تھا ’’دل دریا سمندروں ڈونگے کون دلاں دیاں جانے ہُو‘‘ یعنی انسانی دل سمندر کی طرح گہرا اور پراسرار ہوتا ہے اور اس میں پیدا ہونے والے مد و جزر کا حساب کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آ پاتا۔ جذبات ہماری کیمسٹری کا مستقل حصہ ہیں، ان کی شدت اور اظہار کی سطح اور طریقے مختلف ہوسکتے ہیں مگر ان کے بغیر زندگی کا کوئی مطلب اور تصور بھی قائم نہیں ہو پاتا کہ دلوں کی ساری رونق انھی کے دم سے ہے۔ اقبال کا یہ شعر بھی اپنی اصل میں اسی حقیقت کا ترجمان ہے۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
دیکھنے میں آیا ہے کہ جو لوگ طبعاً جذباتی نہیں ہوتے اور ہر سرد و گرم زمانہ کا بڑے توازن‘ تحمل اور سلیقے سے مقابلہ کرتے ہیں، وہ بھی کبھی کبھار (تھوڑے عرصے کے لیے ہی سہی) کسی جذبے کی شدت کی وجہ سے اس کی رو میں بہہ جاتے ہیں جب کہ زیادہ تر لوگ اپنے جذبات کا فوری اور پر جوش اظہار کر کے ان کا حساب ساتھ ساتھ برابر کرتے جاتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ذرا ذرا سی بات پر ایسے شدید جذباتی ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ انھیں سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ عام طور پر کسی معاشرے کے مجموعی مزاج کا تعین اس کے اندر موجود ان تینوں گروہوں کے تناسب سے لگایا جاتا ہے۔
معاشی طور پر آسودہ‘ سوشل سیکیورٹی کے حامل‘ تعلیم یافتہ اور بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت پر عمل پیرا معاشروں میں جذبات کے اظہار میں ’’جذباتیت‘‘ کا مظاہرہ نسبتاً بہت کم ہوتا ہے۔ اول تو اس کے افراد کسی جذباتی غلبے کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے لیکن اگر کبھی ایسی صورت حال بن جائے تب بھی وہ اس ابال کو نہ صرف جلد از جلد واپس کناروں کے اندر لے آتے ہیں بلکہ اس کا اثر بھی بہت حد تک اس کے مخصوص زمان و مکان تک محدود رکھتے ہیں اور اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو کسی مستقل یا طویل نوعیت کے ہیجان میں مبتلا نہیں کرتے جب کہ ترقی پذیر یا پسماندہ معاشروں میں یہ جذباتیت ایک ایسی انتہا پسندی اور جنون کا شکار ہو جاتی ہے کہ ہر چیز اپنا توازن کھو بیٹھتی ہے اور ہر معاملہ کسی حل کے بجائے آر یا پار کے بحران میں جھولنے لگتا ہے۔
ایک لمحے میں ہیرو زیرو اور زیرو‘ ہیرو بن جاتا ہے۔ ایک کامیابی تمام ناکامیوں کا خوں بہا بن جاتی ہے اور ایک ناکامی کا ملبہ ساری کامیابیوں پر پھیلتا چلا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اس حوالے سے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اینٹری کا حق دار ٹھہرتا ہے کہ ہم نے جذبے کا نام بھی ’’جذباتیت‘‘ رکھ چھوڑا ہے اور یوں ہٹ دھرمی‘ عدم برداشت‘ حقیقت پسندی سے انحراف اور انتہا پسندانہ فوری فیصلوں کی بدنظمی اور بے ترتیبی ہمیں ایک ایسے ذہنی انتشار میں مبتلا رکھتی ہے کہ ہم واقعات کو تخلیق کرنے کے بجائے ان کے ردعمل میں زندہ رہنا شروع کر دیتے ہیں اور یوں نہ ہم اپنی ناکامیوں سے کچھ سیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی کامیابیوں کو ان کی صحیح جگہ پر رکھ پاتے ہیں۔
یوں تو ہماری ساری تاریخ اور روز مرہ کی کارکردگی اسی رویے کے گرد گھومتی ہے لیکن گزشتہ کچھ دنوں میں رونما ہونیوالے ایک واقعے سے اس صورت حال کو بہت بہتر طریقے سے دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
میری مراد قصور میں ہونے والے زینب کیس سے ہے۔ اس معصوم بچی پر ہونے والے بہیمانہ تشدد کے حوالے سے جو تحقیق‘ واقعات اور نتائج سامنے آئے اور ان میں انصاف انسانی ہمدردی‘ احتجاج‘ معاشرتی ذمے داری اور ظلم سے نفرت کے حوالے سے جو جذبات سامنے آئے بلاشبہ وہ بہت سچے‘ قابل تحسین و تقلید اور ہمارے اجتماعی ضمیر کی بیداری کے نمایندہ اور ترجمان تھے لیکن اس دوران میں مختلف اطراف سے جس جذباتیت کا مظاہرہ کیا گیا اور میڈیا پر افواہوں‘ سازشوں‘ انتظامیہ کی بدنظمی بعض حکومتی نمایندوں کی غیرذمے داری اور قاتل کی تلاش اور گرفتاری کے مراحل کو جس طرح سے پیش کیا گیا وہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات‘ بیانات‘ تردیدی حقائق‘ عدالتی نوٹس اور ان کو مبینہ جھوٹ کی سخت ترین سزا دینے کی جو باتیں کی تھیں۔
ان میں بھی تقریباً ہر طرف سے جذبے سے کم اور جذباتیت سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شاہد نے اس کیس کے پس منظر میں کار فرما جس گھناؤنے کاروبار اور بچوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کی کہانی کی تفصیلات جمع اور بیان کیں اسے ان کی جلد بازی اور نتائج پر بھی چھلانگ لگانے کی جذباتیت نے بلاشبہ بری طرح متاثر کیا ہے لیکن اس کے ردعمل میں جس جذباتیت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جذبے اور جذباتیت کی اس افراط و تفریط سے اصل نقصان اس خوب صورت جذبے کو پہنچے گا جس نے ہمارے اجتماعی ضمیر کے دروازے پر دستک دے کر اس نیند سے بیدار اور عمل پر آمادہ کیا تھا۔
جذبہ زینب پر ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف انصاف کے حصول اور ظالم کو قرار واقعی اور مثالی سزا دلوانے کے ساتھ ساتھ اس امر کا بھی متقاضی ہے کہ اس مسئلے کی جڑ تک پہنچ کر ایسا راستہ وضع کیا جائے جس پر چل کر آیندہ کے لیے اس طرح کے ظلم کے محرکات کو ختم کیا جا سکے اور اس گھناؤنے کاروبار کا سدباب کیا جائے جس میں عمران جیسے جنسی جنونی کردار ایک مستقل خطرے کی علامت کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
سو مسئلہ اس کے مبینہ بینک اکاؤنٹس کے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں اس کاروبار کا ہے جو کہیں نہ کہیں چل رہا ہے اور جس کی آگ کا رزق زینب جیسے معصوم بچے بنتے چلے جا رہے ہیں۔ سو ضرورت اس جذبے کو زندہ اور متحرک رکھنے کی ہے نہ کہ اس جذباتیت کو ہوا دینے کی جو ہمیں منزل سے قریب کرنے کے بجائے اس سے دور لے جاتا ہے۔
بشکریہ: ایکسپریس اردو