وطن کا حقیقی مفاد بنام جذباتی حب الوطنی
از، بابر ستار
یہ فطری بات ہے کہ کمزور افراد اپنے جیسے کمزور شخص کی حمایت کریں گے جب وہ کسی طاقتور کے سامنے مقابلے کے لیے کھڑا ہوجائے۔ جب پہلی خلیجی جنگ کے دوران امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو کم و بیش پورے پاکستان نے صدام حسین کی جرات کو سلام کیا۔ ہم جوش سے وارفتہ تھے کہ کسی نے تو ایک سپرپاور کے سامنے سراٹھانے کی جرات کی۔ ہم نے یہ خبریں جوش ومسرت سے سرشار ہوکر سنیں اور یقین کرلیا کہ امریکہ نے رات کے وقت حملہ کرکے جن عراقی جیٹ فائٹرز کو تباہ کیا، وہ دراصل ڈمی طیارے تھے۔ گویا بیچ صحرا کے امریکہ کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی تھی۔ بہت سوں کو یقین تھا کہ صدام حسین کے داؤ پیچ امریکہ کو تگنی کا ناچ نچا کر رکھ دیں گے، اور یہ صحرا اُن کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہو گا۔
افسوس، ہماری خوشی کی نمُو صحرا میں بارش کا چھینٹا ثابت ہوئی۔ عراق کی دفاعی دیوار کو زمین بوس ہونے میں مطلق دیر نہ لگی۔ اس کے بعد دوسری خلیجی جنگ نے صدام حسین (اور عراق) کی قسمت کا فیصلہ کردیا۔ اس کی وجہ صدام حسین کی ہٹ دھرمی تھی ۔ لیبیا بھی اپنے آمر حکمران کی حماقت اور تکبر کی وجہ سے تباہی سے دوچار ہوا۔
سوال یہ نہیں کہ ان ممالک کی تباہی کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی، یا کیا اس کی جنگیں بلاجواز نہیں تھیں؟ سوال یہ ہے کہ ان کمزور ممالک کے حکمران ایسی پالیسیاں کیوں نہ بنا سکے جن کی وجہ سے وہ بپھرے ہوئے بیل کے سینگوں کی زد میں آنے سے بچ جاتے ،اور ان کی ریاستوں اور شہریوں کو بے پناہ تباہی سے دوچار نہ ہونا پڑتا؟
کسی طاقتور سے پنجہ آزمائی پر اتر آنا کمزوروں کی بہادری نہیں، نادانی ہے۔ مفادات اور ارادے ایک طرف، اگر امریکہ چاہے تو وہ اپنی سخت اور نرم طاقت سے پاکستان کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ہم متبادل پالیسی وضع کرنے اور پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے پر بحث کرسکتے ہیں۔ لیکن یہاں انااورخود پسندی کے گھوڑے پر سوار کور چشمی امریکہ کی سرزنش کررہی ہے۔ اپنے’’وقار‘‘ کا غوغا کرتے ہوئے طاقتور بیل کو تاؤ دلانے اور اس کے سینگوں کی سیدھ میں کھڑے ہونے کی حماقت حب الوطنی کا پیمانہ ہے۔ عقل اور معقولیت کا تقاضا البتہ یہ ہے کہ ہمیں ایک سپرپاور کے ساتھ کھلی محاذ آرائی سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے۔
ہماری سیکورٹی پالیسی کی طرف امریکہ کی انگشت نمائی اور BRICS (برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ) کی تنقید نے الزام تراشی کا تازہ سلسلہ شروع کردیا۔ چوہدری نثار اور عمران خان کا مورچہ ایک طرف ہے۔ دوسری طرف وزیرِاعظم عباسی، خواجہ آصف اور احسن اقبال کا۔ فریقین مخالف مکتبہ فکر کے نمائندے ہیں۔ ایک طرف جواز کی جولانی ہے، دوسری طرف خود احتسابی کا گہرا ہوتا ہوا احساس ہے۔
ایک فریق کو یقین ہے کہ حب الوطنی موجودہ پالیسیوں کی اندھا دھند پیروی کا تقاضا کرتی ہے، اور اصرار ہے کہ یہ پالیسیاں درست ہیں۔ نیز یہ کہ ہم اپنے بہترین قومی مفاد کا تحفظ اُسی صورت کرپائیں گے جب ہم اُن تمام ممالک کو آنکھیں دکھائیں جنہیں شک ہے کہ ہم انتہا پسند گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔
فریق ِثانی کی دلیل ہے کہ ہمارا بہترین مفاد اس میں ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنا گھر درست کرلیں اور دنیا کو قائل کرنے کی کوشش کریں کہ ہم مسئلہ نہیں، اس کے حل کا حصہ ہیں۔ خوداحتسابی اور موجودہ پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں بہتر بنانا خود کو قصور وار ثابت کرنا نہیں، بلکہ صحت مند پالیسی سازی کا لازمی حصہ ہے۔ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے سے اس وجہ سے خائف رہناکہ اس سے ہمارے دشمن کے لبوں پر مسکراہٹ کھیلے گی اور یا وہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرے گا، درست سوچ نہیں۔
خود احتسابی کی ضرورت پر زور دینے والا مکتبہ فکر درست ہے۔ غلط سوچ پر بنیاد رکھنے والی پالیسی کبھی بھی ثمر بار ثابت نہیں ہوسکتی، چاہے پورا ملک پوری آواز سے ہمہ وقت نعرہ بازی کرتا رہے۔ جذباتی نعرہ بازی حقائق تبدیل نہیں کرسکتی۔ پالیسیوں کا جواز پیش کرنے والا مکتبہ فکر اس التباس کا شکار ہے کہ ہماری ساکھ کو پہنچنے والی زک کی ذمہ داری ’’مارکیٹنگ‘‘ پر ہے۔ اگر ’’سیلز مین ‘‘ اچھی کارکردگی دکھاتے تو دنیا ہمارے صدقے واری جاتی۔ افسوس، بہترین مارکیٹنگ بھی پتھر کو ہیرا بنا کر فروخت نہیں کرسکتی۔ ہمیں کھلے دل سے بات کرنے اور سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا مسئلہ مارکیٹنگ کا ہے یا ہماری پروڈکٹ کا؟
یہ بحث دو بنیادی سوالات کے گرد گھومتی ہے۔ پاکستان کا بہترین مفاد کس میں ہے، اور دوسرا یہ کہ اسے محفوظ بتانے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ لیکن آپ یہ بحث کس طرح کرسکتے ہیں جب ایک فریق بَبانگِ دہل اعلان کرچکا ہو کہ موجودہ پالیسی کا بھرپور طریقے سے دفاع ہی ملک کے بہترین مفاد میں ہے (حالانکہ یہ بھی واضح نہیں کہ پالیسی ہے کیا، یا اس سے کیا مفاد حاصل ہونے کی توقع ہے)؟ اس بیانیے کواس جذباتی اصرار سے تقویت پہنچائی جاتی ہے کہ جو بھی اس پالیسی پر سوال اٹھائے گا، وہ پاکستان اور اس کے دفاعی اداروں کا خیر خواہ نہیں۔
اسے ریاستی پالیسی سمجھ کر اس کا دفاع کیا جاتا ہے، اور چونکہ یہ نافذالعمل ہے، اس لیے اس کی پیروی کی جاتی ہے۔ لیکن چونکہ اس کی ساخت کے لیے اختیار کردہ طریقِ کار مبہم ہے لہذا اسے سمجھنے یا جانچنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ چنانچہ توقع کی جاتی ہے کہ اسے ایک آفاقی سچائی مان کر اس پر اندھا اعتماد کیا جائے، اسے کھنگالنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اب چونکہ اس پالیسی کے ساختی اجزا نظروں سے اوجھل ہیں لہٰذاس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کی ذمہ داری کوئی نہیں اٹھاتا۔
سویلین ادارے اس کے عناصر پر ابہام کا شکار رہتے ہیں، چنانچہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان سے لاتعلقی اختیار کریں۔ وہ اس میں بہتری لانے کی ضرورت سے خود کو بے اختیار، بلکہ بے نیاز سمجھتے ہیں۔
کوئٹہ کمیشن رپورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ نے اس پالیسی اور اس کے نفاذ میں موجود تضادات کا حوالہ دیتے ہوئے چوہدری نثار اور حکومت کو مُوردِ الزام ٹھہرایا تھا۔ جج صاحب کو معلوم ہوا کہ:
’’وزارتِ داخلہ واضح قیادت اور سمت سے محروم ہے، چنانچہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے کردار کے بارے میں واضح نہیں۔ وزارت کی ’’نیشنل سیکورٹی انٹرنل پالیسی‘‘ نافذ نہ ہوسکی۔ وزارت کے افسران کی دلچسپی پاکستانی عوام کی بجائے اپنے وزیر کے مفادات کا تحفظ کرنے میں ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کوئی بامعنی یا فعال پلان نہیں، اور نہ ہی اس کے اہداف کو مانیٹر یا نافذ کیا گیا ہے ۔۔۔ انسداد ِ دہشت گردی ایکٹ کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ کالعدم تنظیمیں بدستور اپنی غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نئی دہشت گرد تنظیموں کو کافی تاخیر کے بعد کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ کچھ دہشت گرد تنظیموں کو تاحال کالعدم قرار نہیں دیا گیا، حالانکہ وہ دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہیں۔‘‘
’’پاکستانی عوام کو مسلسل دہشت گرد حملوں کا سامنا ہے۔ اس پر سوالات اٹھتے ہیں۔ پاکستانی عوام کا تحفظ کرنے میں ناکام رہنے والوں کو مُوردِ الزام ٹھہرائے جانے کی ضرورت ہے۔ حالات کو اسی نہج پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اوپری سطح سے احتساب کے بغیر نظام میں تبدیلی ناممکن ہے۔ ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی جگہ کوئی بہتر پلان نافذ کیا جائے۔ ایسا پلان جس کے اہداف واضح ہوں۔ اس کا جائزہ لینے اور اس پر نظر رکھنے کے لیے کوئی جامع میکانزم موجود ہو۔ ‘‘
کوئٹہ کمیشن نے دوٹوک الفاظ میں مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں اپنا گھر درست کرنا ہے۔ یہ مطالبہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف دی جانے والی فوج کی قربانیوں سے انکار نہیں کرتا۔ اس کا تقاضا صرف یہ ہے کہ انتہا پسندوں کے خلاف فعال جنگ ضروری ہے لیکن کافی نہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ دہشت گردتنظیموں سے نمٹنے کی ہماری موجودہ پالیسیاں تضادات کا شاہکار ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ غیر موثر ہیں۔ ایک مرتبہ پھر Rylands vs Fletcher کیس کا حوالہ دینے پر معذرت، لیکن اتنی معقول بات دہراتے رہنے کی ضرورت ہے:
’’جو شخص اپنے کسی مقصد کے لیے کسی خطرناک چیز کو رکھتا ہے، جو آزاد ہونے پر نقصان کا باعث بن سکتی ہے، تو وہ شخص اسے اپنے خطرے پر وہاں رکھے۔ اس سے اگر کسی اور کو کوئی نقصان پہنچا تو وہ شخص اس کا ذمہ دارہوگا۔‘‘
نائن الیون نے ہمیں اپنی افغان پالیسی تبدیل کرنے پرمجبور کردیا تھا۔ ہمارے سابق اثاثے ہمارے لیے بوجھ بن گئے۔ اب وہی اثاثے ہماری فوج کو ’’پرویزی لشکر‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اور ہم اُن سے اپنے علاقے خالی کرانے کی کوشش میں ہزاروں فوجیوں اور شہریوں کی جانوں کا نقصان برداشت کرچکے ہیں۔
اگر ہم کسی روز کشمیر پر کسی مفاہمت پر پہنچ جاتے ہیں تو کیا ہوگا؟ اس پر یقینا طرفین کے جنگجو عناصر مشتعل ہوجائیں گے۔ کیا لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد اور ان سے الگ ہونے والے دیگر جہادی گروہ اپنا ’’مال اسباب‘‘ لپیٹ کر فلاحی کاموں میں مصروف ہوجائیں گے؟ کیا انتہاپسندی کے بارود سے بھرے ہوئے ہمارے چلتے پھرتے انسانی ہتھیار معجزانہ طور پر خود کو ریشمی رواداری میں ڈھال لیں گے؟ کیا ہم معاشرے کے مرکزی دھارے کو انتہا پسند بنانے کی پہلے ہی سماجی، معاشی اور انسانی قیمت نہیں چکارہے؟ ابھی کیا کسر باقی ہے؟
یہ کہنا کفر نہیں کہ ہمارے سیکیورٹی کے ذمہ داروں سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ وہ بھی خطا کے پتلے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سورج کی روشنی بہترین جراثیم کش ہے۔ تو کیوں نہ صحت مندانہ تطہیر کے لیے سب کچھ کھول کر سامنے رکھ دیں۔ مدتوں سے نِہاں خانوں میں پڑے رازوں کو آگاہی کی دھوپ لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ ہماری سیکیورٹی کی پالیسی کا ایک معیار ہونا چاہیے۔ اسے مشکوک حب الوطنی کے سہاروں پر کھڑا نہ کیا جائے۔ اور یاد رکھیں، سیموئیل جانسن نے حب الوطنی کو ’’لفنگوں کی جائے پناہ‘‘ قرار دیا تھا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.