جینا ہے کہ مرنا ہے اک بار ٹھہر جائے
از، ڈاکٹر صولت ناگی
ہر نیا آنے والا سانحہ دل میں بھولے بسرے غموں کو کچھ ایسے واپس لاتا ہے جیسے بچھڑے ہوے کعبے میں صنم لوٹ آتے ہوں اور بسا اوقات تو یہ خیال گزارتا ہے کہ
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
نجانے میر اور غالب کس عرصے میں اپنے افکار کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔یا تو اس عرصے میں اہل ہوس کی جنونیت جس کا تذکرہ نہ صرف ہم سنتے آے ہیں بلکہ اس عہد میں اس کی عریاں بربریت کا سامنا کرنے پر مجبور بھی ہیں، اس حد تک نہیں پہنچا کرتا تھا کہ گراں باری ایام برداشت سے ہی باہر ہو نے کا اندیشہ ہوتا یا پھر اس عرصے میں صحرا میں بہت سی ایسی دیواریں ہوں گی جن سے سر ٹکرانے کے بعد وبال ہوش میں کمی آ جاتی ہو گی ۔یہ بھی ممکن ہے کہ شیخ و واعظ اپنی حدود میں ہی مقید کر دیے گئے ہوں یا پھر باہمی تنازعات یا معاملات میں کچھ ایسےالجھے ہوں کہ خطا کاروں پہ ہاتھ اٹھانے کی فرصت ہی میسر نہ ہو۔
غالباً یہی وجہ تھی کہ اس دور میں مشعال جیسے فرزانوں کو سنگ و خشت کی ایذا رسانی سے نہیں گذرنا پڑتا تھا۔ یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ مذهب کے ان سوداگروں کو اہل حشم تک رسائی ہی حاصل نہ ہو جو ان کی مدارات کا سلسلہ ممکن کر دیتے تاکہ ان کے ہاتھوں کو انسانوں کے گریبانوں تک رسائی میسر آ سکے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسا تبھی ممکن ہوتا ہے جب اہل حکم مقتل سجانے کا الزام اپنے سر نہ لینا چاہتے ہوں۔ ایسے میں وہ بے چہرہ قوتوں کو فروغ دیتے ہیں۔ گویا:
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
وگرنہ ایسا کیونکر ممکن تھا کہ یہ عرض گزارنے کے بعد
میر کے دین و مذهب کی کیا پوچھتے ہو اس نے تو کشکا کھنچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
اور غالب کے اس آوازہ منصور کے بعد
نہیں ہے وہ خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
ہو جس کو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
کہ سنگسار نہ کر دیے جائیں۔
کیا آج کوئی خریف مے مرد افگن عیشق موجود ہے جو عہد رفتہ کے لات و منات کے بارے میں اپنی زبان کھولنے پہ تیار ہو جنہوں نے خداوندان مذهب عصر حاضر کے صنم بناے ہوے ہیں اور جن کی شان میں گستاخی نہ صرف خون بداماں کرنے بلکہ آخرت کا سامان کرنے کے لیے بھی کافی ہے۔
کہاں ہیں وہ ثنا خوان تقدیس ریاست جنہوں نے اپنے مفادات کی تکمیل میں پوری قوم کو ابو لہب (دولت ) اور ابو جہل (جہالت ) کا غلام بنا رکھا ہے۔ وہ قومیں جنہوں نے ہمسایہ ملک میں فوجی مداخلت کی خاطر صف زاہداں کو کچھ ایسے صف آرا کیا کہ وہ آج اپنی ہی قوم کا گوشت نوچنے پر مصر ہیں۔
1980 کی وہ قابل نفرت سوویت ریاست جس کے خلاف ہم صف آرا ہوئے۔ اس کا جرم محض یہ تھا کہ وہ انسانیت کو ایک ایسی محنت کی بیگانگی سے نجات دلوانے پہ مصر تھی جس کا تمام تر فائدہ محض چند افراد تک محدود تھا۔ باقی ماندہ انسانیت کی رگوں کا رس نچوڑ کر ہی اپنی رگ جاں کو سانس اور قوت بہم پہنچا رہے تھے۔ خبر نہیں دنیا کا کون سا مذهب ایسا ہو گا جو انسان کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کو کفر قرار دے گا۔ اور کون کہتا ہے کہ سوویت یونین میں مذہبی آزادی موجود نہیں تھی البتہ یہ ضرور تھا کہ مذهب کے ٹھیکے داروں کو جنہوں نے بقول علامہ مشرقی پٹھان کوٹ میں مذہبی بد معاشی کے اڈے بنا رکھے تھے انہیں لوگوں کو ملحد قرار دینے کی آزادی حاصل نہیں تھی۔
اور پھر جہاد کے نام پہ لہو کی ہولی کس کے مفادات کے تحفظ کے لیے کھیلی گئی تھی۔ ان کے لیے جو آج ہمیں سر بازار رسوا کرنے پر تلے ہوے ہیں۔ وہ جنہوں نے FATF کے دست بہانہ جو کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ہماری ان سانسوں کا حساب رکھے جن پہ ہمارے حکمرانوں نے پہرے بیٹھا رکھے ہیں اور ہماری سسکتی ہوئی معیشت کا گلہ دبا سکے۔
کیا حسن ناصر اور نذیر عباسی جواں لہو کی پراسرار شاہراہوں کے مسافر، اسی عدو کی جناب اشارہ کرنے کے جرم میں زیست سے محروم نہیں کر دیے گئے تھے؟ کیا خطا تھی ان کی وہ تو اپنے عہد کے فرعون کو یہ باور کروانے کی سعئِ لا حاصل میں محو تھے کہ آستینوں میں سانپ پالنے والے ان کے زہر سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔
سرمایہ خود ایک زہر ہے، افعی کی صورت ہو یا شام گل کی شکل میں یہ انسان کا حسن زیست سلب کر کے ہی اپنی بقا کا راستہ تلاش کرتا ہے۔ دنیا بھر کی مارکیٹیں اور بینک عام لوگوں کے لہو کی اشرفیوں سے ہی اپنے کاروبار کو تقویت دیتے ہیں۔ وگرنہ ان کے پاس اپنا اثاثہ کہاں ہوتا ہے۔
ریاست اور اس کی قوت دنیا بھر کے سرمایہ داروں کی حفاظت پہ مامور ہوتی ہے اس لیے کبھی یہ قومیت کا نعرہ بلند کرتی ہے تو کبھی رنگ و نسل کی برتری کا فریب دیتی ہے، اور کبھی مذهب کے نام پہ نفرت کا کاروبار کرتی ہے۔ یہ جنگ کو امن کی پہلی شرط قرار دے کر انسانوں کو تحفظ دینے کے نام پر تقسیم کر دیتی ہے جبکہ دنیا بھر کے محنت کشوں کے پاس تو کھونے کے لیے کچھ ہوتا ہی نہیں۔ ان کی تمام تر زادِ راہ تو محنت اور محبت ہوتی ہیں۔ جنہیں وہ باہم تقسیم کرنے میں کسی تامل کا اظہار نہیں کرتے۔
سڈنی سے اسٹاک ہوم تک اور ویانا سے ٹورانٹو تک مجھے کوئی ایک ایسا محنت کش نہیں ملا جس نے رنگ، نسل یا قومیت کے باعث مجھ سے اظہار نفرت کیا ہو۔ لیکن یاد رہے میرا مخاطب “محنت کش “ہے۔ اسی لیے مارکس کا انقلابی طبقہ ہجوم نہیں بلکہ محنت کش ہے۔ جس کا سماجی اور طبقاتی شعور اس حد تک بلند ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہم دم اور عدو میں فوراً تفریق کر لیتا ہے۔
لوکاش نے کیا خوب کہا تھا “انقلابی راہ کے انقلابی نظریہ دان اپنی قوت ذہانت اور روحانی محنت سے جس منزل پر بھی پہنچیں گے اپنے طبقے کے شعور کی بدولت محنت کش کو وہاں پہلے سے موجود پائیں گے “۔ بشرطیکہ اسے اپنے طبقے کی رکنیت اور اس سے اخذ شدہ نتائج کی خبر ہو”۔
مگر اس لمحے ہمیں اس مقتل کی جانب واپس لوٹنا ہے جو قتل گاہ انسانیت بن چکا ہے جسے ہم پاکستان کہتے ہیں، جہان سر اٹھا کہ چلنے کی رسم تو کبھی کی تمام ہو چکی ہے بلکہ اب تو سر جھکا کے جینا بھی ناممکن ہو چلا ہے۔ فیض کو تو محض “سگ “کے آزاد ہونے کا غم تھا۔ یہاں تو سڑکوں پہ بھیڑیوں کا راج ہے جو راستوں کو پابند سلاسل کر دیتے ہیں ۔جی ہاں مصطفیٰ زیدی کو تو محض اپنے گھر کی راہ میں موجود پتھروں کا زعم تھا یہاں تو راستے ہی میسر نہیں کہ جن پر چل کر کوچہ جاں تک پہنچا جا سکے ۔انہیں بھلا کیسے خبر ہو گی کہ آج دہشت گردی کے عوض خراج کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور ستم یہ ہے کہ جنہیں شہر یار ہونے کا دعوی ہے وہ نہ صرف ان کی پشت سہلاتے ہیں بلکہ مالی امداد فراہم کر کے ان کی دلجوئی بھی کرتے ہیں۔
آج سے 47 برس قبل یہی لہو رنگ کھیل کسی اور اسٹیج پر کھیلا گیا تھا۔ وہ خستہ تن بھی اہل وطن تھے جن کی عصمتیں شب کی ظلمت میں تار تار کی گئی تھیں ۔اس سانحے میں “بدر ” و “شمس ” دونوں شامل تھے اور اس شب گزیدہ گھڑی کے بعد میرے وطن میں نہ تو کبھی مہتاب نکلا اور نہ ہی ضو فشاں خورشید طلوع ہو سکا۔ایک خنک تاریک شب ہے جو گزرنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔میں آج بھی جب کبھی اپنے مشرقی بھایوں کا سامنا کرتا ہوں تو احساس جرم سے میری نگاہیں جھک جاتی ہیں ۔مگر وہ بہت حوصلہ مند لوگ ہیں نہ صرف مجھے سر اٹھانے کا کہتے ہیں بلکہ یقین دلانے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ انہیں ہم سے نہیں سپہ سالاروں سے گلا ہے وگرنہ وہ تو بےنام سیاسی آزادی سے خوش نہیں ہیں۔
آج تاریخ پھر سے خود کو دوہرا رہی ہے ۔یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے جس کی خاموشی کے گجر میں ماضی کی صداؤں کی بازگشت سنی جا سکتی ہے۔
آج “شمس” و “بدر ” کی اور بہت سی شکلیں ہمارے گرد منڈلا رہی ہیں۔ خبر نہیں کہاں سے خرف آغاز کیا جائے۔ ہم سہل طلب فرہاد تو ہرگز نہیں ہیں اور جاں کے زیاں کی بھی ہمیں تشویش ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اندیشہ سود و زیاں کی فکر بہت ہو چکا۔ معاملات ہمارے داماں سے نکل کر گریباں تک آن پہنچے ہیں اور اب ہم وہاں ہیں جہاں بقول فیض:
اب موت سے در گزریں یا جاں سے گزر جائیں
جینا ہے کہ مرنا ہے اک بار ٹھہر جائے
اب سوال ہونے یا نہ ہونے کا ہے ہر چہرہ حرف زن ہے کہ اور کب تک زینب ایسی صورتوں کا دکھ اٹھانا ہو گا اور کتنے مشعال اپنے لہو میں نہایں گے اور کتنے ساجد مسیح جرم کی پاداش میں کھڑکیوں سے چھلانگ لگا کر جان دینے پہ مجبور ہوں گے یا پھر صلیب پہ کھینچے جائیں گے۔
اے اہل دل کچھ تو کہو اور کتنا عرصہ انسانوں کو عرصہ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں اجنبی ہاتھوں کا گرانبار ستم سہنا ہو گا ۔مذهب کے نام پر یہ دہشت گردی اور کتنا عرصہ چلے گی ۔یہ نوجوان یہ سخی لکھ لٹ کب تک تاریک راہوں میں مارے جائیں گے ۔مذاہب کی تاریخ اٹھا کر دیکھو ان کی عمر چھ ہزار برس سے زیادہ نہیں ہے جبکہ انسان دھرتی کے بیشتر علاقے پہ لاکھوں برس سے بزم آرائی کر رہا ہے۔ کون مقدم تھا کون بعد میں آیا کون کس کے لیے آیا اور جو بعد میں آیا وہ پہلے آنے والے سے مقدس کیونکر ٹھہرا۔
یہ سوال اٹھانے لازم ہیں اگر یہ سوال نہیں اٹھاے جائیں گے تو ہم کبھی بھی اس سحر کا دیدار نہیں کر پائیں گے جس کا وعدہ روز ازل سے کیا گیا تھا۔
جب تک مکر و فن کے یہ تاج اچھالے نہیں جائیں گے ،خلق خدا راج تو کیا آباد بھی نہ رہ پاے گی۔ بس ایک دبیز سناٹا ہو گا جہاں موت پہرا دے گی۔ اب کوچہ دلبر کے راہرو کے لیے رہزن بننے کا وقت آ چکا ہے۔ اب جاگنا ہو گا یا صفحہ ہستی سے مٹنا ہو گا۔ آج ایک مرتبہ پھر فیض ہم سے ایفائے عہد کا تقاضا کرتے ہیں۔ سنیے وہ کیا کہہ رہے ہیں:
اے ظلم کے ماتو لب کھولو چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے
لکھاری نے مارکسیت اور تاریخ پر کتابوں کے مصنف ہیں۔ آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ saulatnagi.wordpost.com پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے saulatnagi@hotmail پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
محترم عالی مرتبت جناب ڈاکٹر صولت ناگی کی چشم کُشا تحریر نے وہ سارے زخم ہرے کردئے جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھ۔ ۱۹۶۹/۱۹۷۰ مشرقی پاکستان میں تھااور یہ جبر کی چیرہ دستی اپنی معصوم آنکھوں سے یہ سب زخم لئے واپس مغربی پاکستان جواب پاکستان ہے۔ جہاں اس وقت سنگ وخشت مقید ہیں اور سگ آزاد۔