ہم اور جیریمی بینٹ-ھیم (Jeremy Bentham) کی خوشی کی اقسام

خوشی کی اقسام
Jeremy Bentham image via University of South Florida

ہم اور جیریمی بینٹ-ھیم (Jeremy Bentham) کی خوشی کی اقسام

از، نصیر احمد

جیریمی بینٹ-ھیم  (Jeremy Bentham) جو کہ بابائے افادیت Utilitarianism ہیں انہوں نے اپنے حساب سے خوشی کی قسمیں ترتیب دی ہیں، جن میں حِسّی مسرت، دولت کی مسرت، مہارت کی مسرت، اچھے تعلقات کی مسرت، شہرت کی مسرت، طاقت کی مسرت، نیکو کاری کی مسرت، مہربانی کی مسرت، بے مہری کی مسرت، یاد داشت کی مسرت، تخیل کی مسرت، توقع کی مسرت، سلسلوں کی مسرت اور سُکھ  کی مسرت شامل ہیں۔

وہ اس بات کے خواہاں تھے کہ ایسا نظام ہو جو سب کے لیے مسرتوں کے اضافے پر مشتمل ہو اور درد کی ہر ممکن کمی کا باعث بنے۔ ان مقاصد کے لیے انہوں نے بہت سی سیاسی، سماجی اور آئینی اصلاحات تعلیم کی تھیں جو دنیا بھر کے جمہوری نظاموں کا وقت گزرنے کے ساتھ حصہ بنتی گئیں۔

ہمارے ہاں بھی جمہوریت ہے لیکن اصلاحات نے خوشی کے فروغ کی طرف ابھی تک رخ نہیں کیا۔ اس لیے زندگی جا بجا فریاد  کرتی پھرتی ہے:

تیرے بغیر مکمل یہ زندگی نہ ہوئی

خوشی کا نام تو سنا مگر خوشی نہ ہوئی

سب سے پہلے حِسؔی مسرتوں کا ذکر کریں تو ان مسرتوں کو ابھی اعتبار ہی حاصل نہیں ہوا۔ ابھی تک سرورِ اَزلی اور روحانی خوشیوں کے چرچے ہیں اور حِسّی مسرتوں کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔

اس رویے کے نتائج کافی تباہ کن ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کے ملک کے پانیوں میں آرسینک اس قدر زیادہ ہے کہ ساٹھ ملین لوگ آرسینک کی صحت کُش مقدار سے آلودہ پانی پیتے ہیں جس کے نتیجے میں جلد کی بیماریوں، کینسر، پھیپھڑوں کے امراض اور مثانوں کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

یعنی پانی جو زندگی ہے وہی حِسّی مسرتوں کے خاتمے کی وجہ بن جاتا ہے۔ اب اتنی جسمانی تکلیف میں مبتلا لوگوں کے لیے کیسی حِسّی مسرت؟ انھیں تو بس کِشف و کرامات ہی درکار ہیں۔ اور انسانی کیفیات ایسی ہوتی ہیں کہ تھوڑی سی خارش لگی ہو تو جی چاہتا ہے کہ کائنات ہی برباد کر ڈالیں، اتنی خطر ناک پیماریوں کی موجودگی میں تو اچھے تعلقات کی مسرت کون حاصل کرے گا؟ پھر پانی کی یہی جِہت تو نہیں۔ سیلاب بھی ہوتے ہیں۔ ان میں بھی کچھ تندی آ جائے تو متاثرین کی تعداد بیس ملین لوگوں تک جا پہنچتی ہے۔ پھر پانی کا بجلی سے بھی سمبندھ ہے۔ جون جولائی کی گرمی میں جب بجلی پانچ منٹ آتی ہے اور دس منٹ جاتی ہے تو احساس ہو جاتا ہے کہ حِسّی سرور کی دنیا آباد کرنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور پھر ایسی بجلی کے بِل جن کے معاہدے صارفین کو نقصان پہنچانے کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں، حِسّی تکالیف میں اضافے کی وجوہات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں کہ اصلاحات نے، سکون ،سہولت، ایمان داری، تلافی اور تسکین کی طرف سفر ہی آغاز نہیں کیا۔

حِسّی مسرتوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی بنیاد اچھی صحت پر ہے لیکن ایک اور رپورٹ کے مطابق کہ کوئی چوالیس فیصد کے قریب پاکستانی بچے بری غذا اور برے ماحول کی وجہ سے بڑھوتری کی خامیوں کا شکار ہیں۔ ایک مسئلہ چھوٹے قدوں کا بھی ہے ۔ بڑے ہو کر کسی دراز قامت سے عشق ہو جائے تو لذت بوسہ کے لیے بھی سیڑھی کا انتظام کرنا پڑے گا۔

تفنن برطرف، لیکن زندگی کا آغاز ہی اگر بری صحت سے ہو گا، تو حِسّی سرور کے امکانات تو کم ہوتے جائیں گے۔ ان امکانات کی کمی ذہانت اور مسائل کے کی صلاحیتیں بھی کم کرتی ہے لیکن ایک بے معنی سی نعرہ بازی اور میر و درد کی غزلوں کے سہارے ہمارے لوگ یہ سب کچھ سہنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔

رہا اچھی صحت کے بارے میں رویہ، ان کو اگر شوگر ہے تو میٹھا ٹھونستے رہتے ہیں کہ سرکاری نوکری ہے، بیمار ہوئے تو چھٹیاں ملیں گی۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا ہو گا؟ اللہ مالک ہے، اس بے لطف سی نوکری کی کُلفَت سے نجات ملے۔ گھر جائیں گے، محلے والوں کی ناک میں دم کریں گے، آج کل تو انھیں کوئی تنگ بھی نہیں کرتا ہوگا۔

اور جس کی اتفاق سے جسمانی صحت اچھی ہو جائے،اس کے بھیجے میں جانے کیا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی اچھی صحت کو معاشرے کا نفسیاتی سکون برباد کرنے میں لگ جاتا ہے۔ سڑکوں پر ڈنٹر پیلتے ملتا ہے کہ لوگ ذرا جلیں، اس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ گاڑی کے نیچے کُچلا جائے گا۔


مزید دیکھیے: خوشیاں اور کارپوریٹ کلچر از، سبین علی

ہمارے اندر ثقافتی گھٹن کیسے پیدا ہوتی ہے!


دولت سے بھی مسرت کا رشتہ کم ہی ہے۔ اگر کچھ دولت کسی وجہ سے پاس آ جائے تو بھتے دے دے کر اتنی تھک جاتی ہے کہ بیرون ملک کا ہی رخ کرتی ہے۔ حکومت ٹیکس لینے میں ناکام ہو جاتی ہے لیکن بھتے والے اپنا حصہ لینے میں نہیں چُوکتے۔ دولت سے نفرت کی ایک تعلیم ہے جس کی وجہ سے دولت کے مَثبت استعمال کا فروغ ہی نہیں پاتا۔

اور پھر جن کے پاس دولت ہوتی بھی ہے، ان کا مقصد بھی دولت میں اضافے کے لیے معاشرے کی تکالیف میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ اب غنڈوں، افسروں اور عدالتوں کے ذریعے سرکاری زمینوں پر قبضے معاشرے کی تکالیف میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔

دولت مند کی سب سے زیادہ پیروی کی جاتی ہے، اچھا لگے یا برا۔ اس کے اعمال میں اگر قانون اور اخلاقیات کی پابندی موجود نہ ہو گی تو جیسے گُرو ویسے چیلے والا سین ہو جائے گا۔ قانون اور اخلاقیات کے بغیر دولت سے کشید کی جانے والی مسرت بڑی سِفلی سی ہو جاتی ہے۔ اُوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے لگتی ہے۔ لا فانی دیوتا زیئس Zeus کی طرح بیل کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور آرزو کو وہ ٹکریں مارتی ہے کہ آرزو دم ہی توڑ دیتی ہے۔

مہارت سے تو ٹاکرا ہی نہیں ہوتا۔ اگر ہو جائے تو ماہرین شرمندہ شرمندہ سے عرضیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں کہ ہماری سن لو فلاح پاؤ گے۔ بڑھوتری کی خامیوں میں مبتلا دولت مند طَرّار اور نَخوَت کا شکار ثقافتی بیل مہارت کی اسی وقت سنتے ہیں جب سننے کا کوئی فائدہ ہی نہیں رہتا۔ اب اس بے کسی اور بے بسی میں مہارت کیا مسرت دیتی ہو گی؟ زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ مہارت مسرت کشی کے ثقافتی پروجیکٹ کا حصہ بن جاتی ہے یا پھر میری سنو کی سسکتی صدائیں بلند کرتی رہتی ہے۔ مہارت تو کبھی کبھار کا قصہ ہے ورنہ زیادہ تر نہ مہارت ہوتی ہے اور نہ مسرت۔ اب تو جھگڑے برپا کرتے ٹیلی اینکر ہیں، وہ پانی سے کاروں چلانے والوں کے انٹرویو لیتے پھرتے ہیں اور ملکیوں کی صلاحیتیوں کے گُن گاتے رہتے ہیں۔

اچھے تعلقات کی مسرت تو ہمارے عالمی تعلقات میں دیکھی جا سکتی ہے کہ قریبی سے قریبی دوست بھی بہانے بناتے رہتے ہیں کہ تمھاری حمایت کا تو کچھ فائدہ ہی نہیں۔ پڑوسیوں میں زیادہ تر نالاں ہی ہیں اور جن کو فائدے نظر آتے ہیں وہ اپنے سرمائے کے تحفظ کے لیے ایسی کڑی شرائط عائد کرتے ہیں کہ ہمارے لیے قرضوں کی واپسی کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے اس سے پہلے ہم اپنی بھلائی کے لیے حاصل کیے ہوئے قرضوں کو خرچ کرنے کے لیے کچھ منصوبے بنا سکیں۔

بزنس انسائڈرز business insiders کے مطابق انتہا پسندی کی وجہ سے انتہائی بری شہرت کے حامل ملکوں میں ہمارا نمبر تیسرا ہے۔

عالمی کا تعلق مقامی سے جڑا ہوتا ہے۔ کسی مصروف سڑک پر آپ خود دیکھ لیں کہ لوگ اچھے تعلقات کی مسرتوں میں کیسے اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ پاس سے گزرنا ہی جھگڑے کا سبب بن جاتا ہے۔

شہرت کی مسرت کا بھی تعلق بھائی کے اچھے ہونے سے نہیں، بھائی سے سب کے ڈرنے سے ہے۔ اور اگر بھائی کسی سرکاری اہل کار کے دو تین تھپڑ جما دے تو بھائی پورے معاشرے کا ہیرو بن جاتا ہے۔

نیکو کاری کی مسرت کا بھی ضیاء الحق اور جماعتِ اسلامی نے یہ حشر کیا ہے کہ اگر کوئی نیکی کی باتیں کرنے لگے تو لوگوں کو جان و مال اور عزت کی فِکریں گھیر لیتی ہیں۔

یاد داشت کی مسرت کا تعلق بھی زیادہ بھول جانے سے ہے۔ زیادہ تر فوکس دوسری کی مہربانی اور اپنی بدی کے بھول جانے پر ہے۔ اور اجتماعی طور پر یاد داشت کا مطلب یہ ہے کہ جو واقعات کبھی نہیں ہوئے ان کو ذوق و شوق اور جوش و جذبے سے بیان کیا جائے اور جو ہوئے ہیں ان کا ذکر ہوتے ہی بات بدلنے کی کو شش کی جائے۔

باقی معشوقوں کی یاد میں شاعری تو آپ اکثر پڑھتے رہتے ہوں گے، اس شاعری میں یاد سے مسرت کا تناسب خود نکال لیں۔