سیاسی اسلام، جنگجو ریاست اور غلبہ گیر وطنیت
نصیر احمد
پاکستان میں جو خیالات مقبول ہیں اور زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں ان کی فلسفیانہ اور سائنسی بنیادیں کھوکھلی ہیں لیکن جذباتی ڈرامے، لفاظی اور ہمہ گیر تشدد کے ذریعے معاشرے میں رائج کر دیے گئے ہیں۔ ان خیالات کی ترویج کے باوجود ان کا کھوکھلا پن ختم نہیں ہوتا لیکن ترویج اور مقبولیت کے باعث معاشرتی رشتے معانی کی عدم موجودی کا ایک بحر ظلمات ہیں جس سے نجات کا رستہ اجا گر کرنا اک کار دشوار ہے، شاید ناممکن بھی۔
اب سیاسی اسلام کو لے لیجیے۔ مذہب کے بارے میں ریاستی غیر جانبداری طے کرتے ہوئے یورپ اور امریکہ نے دو تین صدیاں پہلے ترقی کی طرف بڑھنا شروع کیا اور ابھی تک اس رستے پر رواں دواں ہیں لیکن ہمارے ہاں ان بنیادی حقائق کا اعتراف تو درکنار، ابھی تک بات ہی نہیں شروع ہوئی ہے۔ اور جو تھوڑی بہت شروع ہوئی بھی تھی، وہ پارسائی کے شورِ شر انگیز میں گھٹ کے رہ گئی ہے۔
بیسویں صدی میں کچھ مسلمان پڑھے لکھوں نے اٹلی کے فاشزم، جرمنی کے نازی ازم اور روس کے کمیونزم کے ترجمے کیے اور ان ترجموں کو اسلام کہا حالانکہ یہ سارے نظریات فرد کی نفی اور عام معاشرتی تشدد کے داعی تھے اور یکے بعد دیگرے ناکام بھی ہو گئے لیکن ہم نے مذہب کے نام پر یہ طریقے اختیار کر لیے اور ان کے نتائج بھی ظلم و تشدد کے سوا کچھ نہ نکلے۔
ان خیالات کے زیر اثر جو جماعتیں بنیں، وہ غلبے کی اسیر تھیں، اور جب کبھی انھیں غلبہ حاصل ہو گیا، انھوں نے تخریب و تشدد کے سوا کچھ نہیں کیا لیکن یہ غلبہ منزل مراد بن گیا اور سیاسی اسلام کے نام پر انسان دشمنی کی ایسی ایسی صورتیں سامنے آئیں کہ انسان کو پہچاننا بھی مشکل ہو گیا لیکن یہ غلبہ قائم رہا۔ اور جتنی دیر یہ غلبہ قائم رہے گا انسانیت اپنی جڑیں کھوکھلی کرتی رہےگی۔ اب کوئی امیر المومنین ہو کہ فقیہہ والی، صورت و لباس سے انسانی ناکامیاں نہیں چھپتیں۔
اسی غلبے اور قبضہ گیری کے زیر اثر وطنیت بھی ایک مقبول خیال ہے جس میں علاقہ علاقے میں رہنے والے مکینوں سے اہم ہے۔ مکین مر جاتے ہیں، علاقہ بھی چھن جاتا ہے لیکن وطنیت کی یہ شکل جذباتی ڈرامے، لفاظی اور تشدد کی رومانویت کے سہارے قائم دائم ہے۔ وطن کے لیے جان دینا بہت بڑی قربانی ہے لیکن اس قربانی کے پیچھے ایک اچھی زندگی کی ضمانت بھی تو ضروری ہے اور وطن کے لیے بے گناہوں کی جان لینا تو ایک جرم ہے، جرم ہی رہے گا۔
اسی وطنیت کے زیر اثر ہٹلر کے جرمنی نے لاکھوں بے گناہوں کی جانیں لیں لیکن ہٹلر کے بعد جرمنی نے اس بات کو مقصد بنا لیا کہ وطنیت اس طرح بے لگام اور بے مہار دوبارہ نہ ہو، اسی لیے جب یورپ کے اعلی اصول مہاجرین کے مسئلے پر پسپا ہورہے ہیں لیکن جرمنی کی چانسلر مہاجرین کی مدد کے اصول پر قائم دائم ہیں۔
جمہوریت، انسانی حقوق کے احترام، علم پسندی اور جمہوری اخلاقیات کی پاسداری کے بغیر وطن ایک عقوبت کدہ بن جاتا ہے اور عقوبت کدوں کے خلاف بات کرنا سب سے اہم وطنی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ل فاظی، جذباتی ڈرامے اور تشدد کے ذریعے عقوبت کدے معتبر نہیں ہوتے کہ دنیا سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے کہ کیا چل رہا ہے۔
پھر تصوف ہے جس کے بنیادی خیالات فرد کی عزت اور اہمیت کے منافی ہیں اور محبت کا ایسا مثالیہ پیش کرتے ہیں جس میں تشدد کرنا اور تشدد سہنا روحانی رفعتوں کا مسافر کر دیتا ہے اور ایسے خیالات سیاسی اسلام، جنگجو ریاست اور غلبہ گیر وطنیت کے داعیوں کے لیے کافی مددگار ہیں لیکن تصوف کی لفاظی، جذباتی ڈرامے اور ہمہ گیر تشدد میں فرد کی بھلائی، انسانی حقوق، علم و فضل معاشی ترقی اور آزادی سب کا ضیاع ہو جاتا ہے۔
اس ضیاع کی کامرانی اور کامیابی سمجھنے کے لیے اپنے ساتھ بڑے ناٹک کرنے پڑتے ہیں لیکن تصوف کو بھی بہت سماجی حمایت حاصل ہے، اس لیے ملت میں گم ہونے کی خواہش کو حقائق سے زیادہ اہمیت حاصل ہو جاتی ہے اور گرو چیلے کا کھیل چلتا رہتا ہے۔
پھر رسم رواج ہیں جو دیکھنے میں بڑے سہانے لگتے ہیں لیکن ان کے پیچھے جو خیالات ہیں وہ کسی طبقے یا صنف کی مکمل اور مسلسل پامالی کے جتنے بھی جواز ہیں ان کو تقدس اور تفریح کے درجے پر فائز کر دیتے ہیں۔
اس کے بعد اشتراکیت ہے جس کی فاش، ظاہر اور برملا ناکامی کو آمروں اور قاہروں سے عقیدت کے ذریعے فراموش کر کے یوری گاگرین کی مدح سرائی کی جاتی ہے۔ اور جرجنسکی، یو گوڈا، یوژیف اور بیریا کرتے رہے اس کو فیض صاحب کی کھوکھلی لفاظی، تشدد پسندی اور ڈرامے بازی کے ذریعے توقیر دینے کی سعی کی جاتی ہے لیکن کمیونسٹ بلاک کی خون ریزی چھپائے نہیں چھپتی۔
حالانکہ اشتراکی بھی تند و تیز گفتگو کے ہنگامے میں اشتراکی حکومتوں کے جرائم سے توجہ ہٹانے کے ماہر ہیں۔ چونکہ اشتراکی بھی پارٹی کی غلامی کو انسانیت کی معراج سمجھتے ہیں اس لیے وہ بھی تصوف کو انقلابی خیالات سے منسلک کر دیتے ہیں۔
اس کے بعد جمہوریت بچتی ہے اور جمہوریت کی اک آرزو عوام میں موجود ہے لیکن یہ آرزو سیاسی اسلام، غلبہ گیر وطنیت اور تصوف سے آلودہ ہے۔ اس لیے سیاسی لیڈر ساتھ کے شہری نہیں نجات دہندوں کے طورپیش کیے جاتے ہیں اور تیس چالیس سال بعد کچھ ہوش آ جائے تو کبھی کوئی سمت طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے خلاف غداری کا شور برپا ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد این جی اوز مارکہ جمہوریت کی باری آتی ہے جو دنیا بھر میں رائج کاروباری ماڈل کی پیروکار ہے اور روشن خیالی دام و درہم تک محدود رہ جاتی ہے اور لالچ اتنی صاف دکھائی دیتی ہے کہ معاملہ کسی روشن خیال تحریک کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔
ان سب خیالات کی موجودگی کے نتائج ہیں اور نتائج غربت، پسماندگی، تشدد، جنون، امتیاز، دہشت گردی، خِرد دشمنی اور انسان دشمنی کی صورت میں روزانہ رونما ہوتے ہیں، لیکن کسی اور طرف سفر کرنے کی معاشرے میں قابلیت ختم ہوتی جارہی ہے اور اس قابلیت کی بحالی کے لیے ہم سب کو اپنے تعصبات کا سامنا کرنا پڑے گا وگرنہ غم کو خوشی، نفرت کو محبت، امتیاز کو انصاف تو جانے کب سے کہتے آرہے ہیں لیکن سوائے نسلوں کے ضیاع کچھ نہیں ہاتھ آیا نہ آئے گا۔