اچھے لوگوں کی تقرری : جس کا کام اسی کو ساجھے
از، نصیر احمد
اچھے لوگوں کی تقرری خود کریں گے
چیف جسٹس
قومی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے اتنے زیادہ محکمے ہیں اور ان میں تقرریوں کے معاملات اس قدر پیچیدہ ہیں کہ عدالت جو کہہ رہی ہے وہ کر نہیں سکے گی اور جو عدالت کر نہیں سکتی، وہ کرنے کی کوشش میں معاملات پہلے سے بھی زیادہ بگاڑ دے گی۔ یہ سب محکمے تو مزید بگڑیں ہی گے، عدالت کا کام بھی مزید خرابی کا شکار ہو جائے گا۔
پنجاب میں جیسے کہتے ہیں اساتذہ کی ایک فوج ہے۔ عدالت کیسے ان میں سے اچھے ڈھونڈے گی؟ اور اگر اچھے ڈھونڈ بھی لیے تو بروں کا کیا کرے گی؟ برے نکالے تو
ملتوی مقدموں کی تعداد اتنی زیادہ بڑھ جائے گی کہ عدالت سے مقدمے کا فیصلہ غائب ہو جائے گا اور نہیں نکالے تو انصاف نہیں ہو گا۔ انصاف نہیں ہو گا عدالت کیا کرے گی؟ خود کو جو ناممکن قسم کی ذمہ داریاں اور اختیارات دے دیے ہیں، وہ خود سے بھی چھین لے گی؟ ظاہر ہے ایک نکمی حکومت اگر ان اختیارات کی مستحق نہیں ہے تو انصاف کا تقاضہ تو یہی ہے کہ حکومت کی کوئی بھی نکمی شکل ان اختیارات کی مستحق نہیں ہے۔ یا پھر کوئی اور جلتا ہوا فقرہ یا پھڑکتا ہوا شعر قومی پالیسی بن جائے گا؟
اچھائی کا کیا معیار ہو گا؟ ایک تو لبرل مسئلہ ہے کہ اگر رائج قوانین پر مکمل طور پر عمل در آمد کیا جائے تو اچھائی برقرار رکھنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ چلیں لبرل تو ایک محدود سی اقلیت ہے، نظر انداز کی جا سکتی ہے لیکن اچھائی کے حوالے سے پھر بھی قانون سازی کرنی پڑے گی۔ اور ہر محکمے کے لیے عدالت قانون سازی بھی کرے گی تو ظاہر ہے پارلیمنٹ کی اتنی ضرورت نہیں رہتی اور پارلیمنٹ کی موجودی کے بغیر عدالت اپنے وجود کا کیا جواز ڈھونڈے گی ؟ اور اگر یہ جواز عدالت ڈھونڈ بھی لے تو قانون سازی کیسے کر پائے گی اور اگر اتنے بڑے پیمانے پر عدالت قانون سازی کرے گی تو کیا عدالت کے پاس اس قانون سازی کی صلاحیت بھی موجود ہے؟ نائب قاصد کا کام مختلف ہے، ڈاکٹر کا مختلف ہے، منتظم کا مختلف ہے اور ہر دفتر کے نائب قاصد کے کام کی خصوصی ضروریات ہیں، اور ان ضروریات کے لیے خاص قسم کے قواعد و ضوابط کی ضرورت ہے اور اچھے قواعد وضوابط کے لیے نیا سوچنا پڑے گا۔ اور اتنی تفصیلی قانون سازی سترہ اٹھارہ منصف کیسے کر پائیں گے؟
اور اس بنیادی سوال کا کیا ہو گا کہ عدالت کا کام قانون سازی ہے ہی نہیں؟ اب عدالت ایک ایسا کام کرے گی جو اس کا ہے ہی نہیں تو باقی معاشرے کو غیر متعلق کام کرنے سے کیسے روک پائے گی؟ اور یہ تقرریاں آئین کی خلاف ورزی کا ایک مستقل ذریعہ بن جائیں گی
بگڑے ہوئے معاملات کی وجہ سے عدالت کے ہٹانے کی تحریک چل پڑے گی۔ اب حکومت موجود نہیں ہے اور عدالت نے حکومت کے اختیارات سنبھال لیے اور عدالت سے حکومت کا کام ہو نہیں سکا، جس کی وجہ سے عدالت کا جانا بھی ضروری ہو جائے گا۔
اب حکومت بھی گئی، پارلیمنٹ بھی گئی، عدالت بھی گئی تو کیا ہم روسو کے اشرف وحشیوں یا ہابس کے جھگڑا لو وحشیوں کی طرح زندگی گزاریں گے؟ کیونکہ جو بھی نیا سماجی معاہدہ بنے گا، اس میں اختیارات کی تقسیم تو طے کرنی پڑے گی۔ اور اگر اختیارات کی تقسیم معاشرے کی تنظیم کے لیے ضروری ہے تو موجودہ اختیارات کی تقسیم کو برباد کرنے میں کیا فائدہ ہے؟
اب ہر قسم کی تقرری کا ایک آئینی طریقہ کار ہے اور تقرری کے لیے ذمہ داراتھارٹی کا تعین کر دیا گیا ہے۔ طریقہ کار میں خرابیاں ہیں تو زیادہ سے زیادہ ان خامیوں کی درستی کی بات کی جا سکتی ہے۔ خامیوں کے نام پر کسی کے اختیارات چھین لینے سے تو خامیاں تو بہتر نہیں ہوتیں، اس سے تو چھینا جھپٹی کے ایک کلچر کو فروغ ملتا ہے جس میں اختیارات تو طاقت اور بلیک میلنگ کے ذریعے چھین لیے جاتے ہیں لیکن ان اختیارات سے متعلق ذمہ داریاں ادا نہیں ہو پاتیں۔
شاعری کا زیادہ اثر ہے، تارے توڑ لانے کی باتیں کی جاتی ہیں اور ان سب دل کش افسانوں کے زیر اثر محبت بھی ہو جاتی ہے اور پھر سوال اٹھتے ہیں کہ وہ تارے کہاں ہیں؟ تم نے تو جو زیور مائیکے سے ملا تھا، وہ بھی بیچ ڈالا؟ اب کیا ہو؟ اب قربانی کی راگ مالا کا سمے ہے کہ محبت تو قربانی کی سب سے احسن شکل ہے یعنی بچا کھچا بھی ہمارے حوالے کر دو۔
ایسے مگر معاملات چلتے نہیں کہ بنیادی بات ہی غلط ہے کہ تارے کم بخت کئی تو سورج سے بھی زیادہ بڑے ہیں۔ یہاں سورج کی دھوپ تھوڑی زیادہ ہو جائے تو تڑپنے لگتے ہیں، تارے کہاں سے توڑ لائیں گے؟
اب نام کے ہی جمہوری سہی مگر پھر بھی ادارے عشاق کرام کا سا برتاؤ کرنے لگیں تو کوئی کیا کرے؟
جیسے کل لکھا تھا، یہ طامات ہوتی ہیں، جن سے داور کو گریز کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ادارے نا ممکنات پر اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے اچھے نہیں لگتے۔
رہی خبر کی خوش نمائی، وہ تو وقتی سی بات ہے، ماں جیسی ریاست والے منصف بھی حکومت کرنے کے آرزو مند تھے اور ان کے غلط فیصلوں کی بھرپائیاں عالمی عدالتوں کے فیصلوں کے نتیجے میں حکومت ابھی تک کر رہی ہے۔ اب عالمی عدالتیں تو اردو شاعری پر اپنے فیصلوں کی بنیاد نہیں بناتیں۔ وہ تو قانون سے ذرا بھی آگے پیچھے نہیں ہوتیں اور معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے پر حکومت پر بھاری جرمانے عائد کر دیتی ہے۔ اور یہ جرمانے عوام کا پیسہ ہے لیکن عوام نہ تو عدالت سے پوچھ سکتے ہیں اور نہ حکومت سے کہ اتنا پیسہ کیوں ضائع کر رہے ہو؟
میڈیا والوں کو تو ناچتی کودتی خبر مل جاتی ہے مگر ملک کا تو نقصان ہی ہوتا ہے اور نقصان پر ناچنا کودنا تو بالکل ہی احمقانہ حرکت ہے لیکن یہاں تقدیر امم کا رازداں بننا اس قدر آسان ہے کہ یہ لاشوں کے ارد گرد ناچتے سے بھی پوچھو کہ یہ رقص کیوں؟ وہ انقلابی شاعری پڑھتے ہوئے بتانے لگتا ہے کہ وہ حقیقت اعلی کا رازدان ہے اور اس کے اعمال کی گہرائیوں کو ماپنے کے لیے اس کے زاویے میں داخلہ لینا پڑتا ہے۔
وزیر اعظم پتا نہیں کیوں ملنے گئے تھے۔ اگر کوئی ملکی مفاد کی اور اداراتی حدود کی بات کرنے گئے تھے، وہ تو اس قسم کے بیانات سے لگتا ہے سمجھا نہیں پائے کہ عدالت نے تو اپنے آپ کو جوئے شیر، بال ہما، ہفت خواں اور منیر شامی کی الجھنوں، حمام باد گرد اور سامری کے بچھڑے جیسے اختیارات عطا کرنا شروع کر دیے ہیں اور ان سب نا ممکنات کے ارد گرد خبروں کی وہ خوشنمائی ہے کہ وزیر اعظم کٹھ پتلی ہونے کے باوجود عقل کا کچھ بنیادی پس منظر رکھتے ہیں، وہ تو بوکھلا ہی گئے ہوں گے۔
بس ہم سب جب تک یہ عدالت موجود ہے، لگتا ہے، بوکھلاتے اور سٹپٹاتے ہی رہیں گے۔
ارے نہیں، عدالت کی توہین کا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے مگر یہ عملی قسم کے معاملات ہیں، ان پر اب کیسے نہ سوچیں؟
صرف اتنی سی بات ہے کہ جو کام عدالت کے لیے ناممکن ہے، اس کی ذمہ داری اٹھانے میں عدالت کیسے دانائی دیکھ پاتی ہے؟ یہ بات کچھ پلے نہیں پڑ رہی۔
ہمارا خیال ہے اگر مجاز اتھارٹیاں ہی تقرریاں کرتی رہیں تو اگر بھلا نہ ہوا تو کم از کم آئینی انتظام تو شکست و ریخت نہیں ہو گا۔ اور آئینی انتظام کی موجودی سے کم از کم امید تو بندھی رہتی ہے۔ اب کم از کم کا ہی دور ہے، مزید، زیادہ، بہتر، اچھا، بہترین جیسے الفاظ سے اداروں نے اپنی کارکردگی کے ذریعے رشتہ ہی ختم کروا دیا ہے۔