جے آئی ٹی کیا ہے : سوائے عام انتخابات کی ہواؤں کو زیر دام رکھنے کی آخری روش کے
از، یاسرچٹھہ
یقین رکھیے اور پورے افسوس کے احساس کے ساتھ یقین رکھیے کہ وطنِ عزیز میں اخلاقیات کے کوئی نئے خوب صورت جزیرے دریافت نہیں ہو گئے، آن کی آن میں کوئی ضمیر کا، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، کا انقلاب نہیں آ گیا۔
یہ نہ ہی شریفوں کی آپسی خاندانی جنگ ہے۔ ہاں البتہ یہ شرفاء کی آپسی جنگ ضرور ہے۔ ان شرفاء کی صف بندیاں عام طور پر مستقل ہی رہی ہیں۔
بیچ میں کچھ دن افتخار چودھری کے آئے تھے جب tenure والے شرفاء کی صف میں تھوڑی دراڑ آئی تھی۔ جیسا کہ چند ہفتوں مہینوں کے لیے دراڑ آئی تھی۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ جنرل کیانی نے انقلابی ہجوم کے دریائے چناب کے گجرات سے دوسرے والے کنارے سے ابھی پرے ہونے پر ہی پرانی صف بندی بَہ حال کر دی تھی۔
اس کے بعد لا پتا افراد کا معاملہ اہم نہیں رہا تھا، بل کہ این آر او ہی اس کائناتِ سیاستِ پاکستان کا مقدمۂِ اوّل و آخر بن گیا تھا۔ این آراو کے ہتھیار کا بھی کمال ماہرانہ انداز سے چنیدہ استعمال کیا گیا۔ اسے انگریزی ترکیب میں slective justice سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس چنیدہ احتساب کا ہدف صرف عوام کے چنے افراد ہی ٹھہرے۔ این آر او کی اونچی آواز کے مکالموں والی عدالتی کارروائیوں، المعروف ریمارکس، کی گھن گھرج بریکنگ نیوز کا چارہ بنی رہی۔
آپ محترم قاری صاحبان، نظر و فکر رکھتے ہیں، اچھی یاد داشت رکھتے ہیں، ہر نیوز ٹی وی کا پرائم ٹائم شو آپ کے کانوں اور آنکھوں سے زیادہ فاصلے پر نہیں؛ آپ بتائیے اس این آر او کے باقی منفعت اٹھائی گیرے کہاں ہیں، ان کے خلاف کیا کارروائیاں ہو رہی ہیں؟
این آر او میں کیا صرف آصف علی زرداری کا نام ہی تھا؟ آصف علی زرداری کا نام حرفوں میں جوڑنے پر معذرت خواہ ہوں، جانتا ہوں برس ہا برس میں ہم نے انھیں کرپشن کا مترادف لفظ بنانے میں اپنے اپنے میڈیا سیل لٹائے ہیں؛ ہمارا وہ لفظ کاٹیے، اس کی جگہ آپ منتخب صدرِ پاکستان اور سربراہِ پاکستان پیپلز پارٹی رکھ لیجیے۔
اس مضمون کا پہلا جملہ تھا: یقین رکھیے اور پورے افسوس کے احساس کے ساتھ یقین رکھیے کہ وطنِ عزیز میں اخلاقیات کے کوئی نئے خوب صورت جزیرے دریافت نہیں ہو گئے، آن کی آن میں کوئی ضمیر کا، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، کا انقلاب نہیں آ گیا۔
ایسا ہم کیوں کہہ رہے ہیں؟ اس لیے کہ دیکھنے پر سب ہی تو وہی نظر آتا ہے۔
اس سطر سے بالکل اوپر والے جملے پر مزید بات کرنے کے لیے کچھ وقت دیجیے؛ پہلے ہمیں ایک اور قابلِ افسوس بات کرنے دیجیے۔ ہمیں کہہ لینے دیجیے کہ جو افراد ہمارے بڑے بڑے عہدوں پر متمکن ہیں وہ در اصل اپنے اپنے منصب کے قد کے حامل نہیں ہیں۔
ایم این ایز، وزَراء، اور سینیٹرز کی شکل میں سیاست دانوں پر لعن طعن کرنا ہمارے یہاں کی کامن سینس بنا دی گئی ہے۔ (یاد رکھیے کامن سینس بھی اب نقارۂِ خدا نہیں ہوتا، بل کہ ان کی رائے ہوتی ہے جو خود کو زمین پر خدا سمجھتے ہیں۔)
ہمیں آپ کو بس ان کی شبیہ کی طرف اشارہ کرنے کی ضرورت ہے؛ آپ بَہ غیر کسی اضافی محنت و مشقت کے اپنی تازہ دم یاد داشت سے ان کے لیے معزز و سند یافتہ مغلظات کو فی الفور دستیاب کر لیں گے۔
سرِ دست ڈان لیکس کو اخبارات کی زینت بنانے کے پیچھے جو بھی ذہنیت کارِ فرماء تھی اس کی سمجھ بوجھ پر کیا بولیں؛ یہ بات درست کہ ہمیں اپنے asymmetrical “دفاعی اثاثوں” کو پالنے پوسنے اور بین الاقوامی سطح پر شرمندگی کا احساس بننے کو سنجیدہ لینا چاہیے؛ یہاں غیر ذمے داری علت بھی ہے، اور معلول بھی ہے؛ ایسے دفاعی اثاثوں کا بنانا بھی کسی طور دانش مندی نہیں۔
مزید یہ کہ اپنی اس نکاح سے باہر کی ذُرّیّت کو آخر کس سے چھپاتے ہیں ہم لوگ اور ہمارے زمینی اوپر والے؟ بہ ہر حال جو اپنا مذاق اڑوانا ہی وسیع تر ملکی مفاد جانیں، ان کی دانش کو کیا کہیں۔
اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجیے: اک منڈی ہے کھلی نت نئے پاکستانوں کی!
اعلیٰ عدالتیں خدا سے اور قیامت سے پہلے انصاف کی آخری آس ہوتی ہیں؛ یہ کسی ملک کی پگڑی اور عزت ہوتی ہیں۔
ہمارا جو عدالتی نظام ہے وہ ایک rational اور سائنٹفک ادارے کے طور پر وجود رکھتا ہے؛ کم از کم جن ثقافتوں سے ہمارے نظام حکومت و ریاست نے اس عدالتی نظام کو ورثے میں پایا ہے، وہاں پر تو یہ سنجیدہ انداز سے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ریمارکس دینے کی جو روایتیں مرتب ہو رہی ہیں یہ جانے کہاں لے کر جا رہی ہیں؟ ایک اور افسوس ناک مشاہدہ یہ پیش کیا جا سکتا ہے کہ ایک حالیہ فیصلے میں ایک جج صاحب کے یک صفحاتی مختصر فیصلے کی زبان تو ایک طرف، انھی کے تفصیلی فیصلے میں آپ فرماتے ہیں کہ وہ انصاف کی فراہمی میں قانونی مُو شگافیوں کے اسیر نہیں ہوتے۔
ہماری عقلِ ناقص میں یہ انصاف کے اعلیٰ ترین ادارے کی سب سے بڑی توہین ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ جناب خدا نا خواستہ ملکِ عزیز کے کونوں کھدروں میں جاری جرگوں کے procedures کو کسی حد تک آئیڈیلائز کرتے ہیں۔
کتنے افسوس کی بات ہے، پھر کیوں نا جرگے کے سستے اور فوری انصاف کو باقاعدہ کر لیا جائے؟ ہمارے آپ کے محنتانے سے کشیدہ ٹیکس کی کچھ بچت کی سبیل تو پیدا ہو جائے گی۔
اسی بلند خیالی کے سلسلے کی ایک حالیہ کڑی مد نظر کیجیے۔ وہ ٹویٹ اور ردِّ ٹویٹ کا معاملہ ذہن میں لائیے۔ نتائج پر پہنچنے میں کیسی عجلت اور اور ان نتائجِ خام کے اظہار کی اس قدر بے چینی … ۔
یقین مانیے اس دن بہت خوف آیا کہ ہماری اہم امانتیں اور ہتھیار… آگے کچھ نہیں بولیں گے، ہمارے مُنھ میں خاک!
اور آج کل کی نئی فلم جو پورے اخباری، ٹی وی اور ٹھنڈے ڈرائنگ روموں میں شرّارے کی صورت ہے، وہ ہے جے آئی ٹی، یعنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم۔ selective justice کی ڈھال کے لیے خوش نما دلائل ہیں کہ احتساب اوپر سے ہونا چاہیے۔
پاکستانی نظام حکومت و ریاست میں کون اس قدر بھولا ہے کہ جو نا جانتا ہو کہ پاکستان میں اوپر والے کون ہیں۔ آف شور کمپنیاں ایک گمبھیر مسئلہ ہے، مگر کچھ اور لوگوں کی پاناما پیپرز میں کمپنیاں نکلیں ان کے خلاف کارروائیاں کس راڈار پر نظر آتی ہیں، ذرا نظر کرنے پر آشکار ہو جاتا ہے کہ معاملہ کیا ہے؟
یہ صرف انتقام کی کوئی شکل، بڑے عہدوں پر متمکن افراد کی باہمی چپقلش، اور اپنے بڑے عہدوں کے مطابق ظرف نا ہونے کی ایک تمثیل کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
ایک اور سوال کا جواب سوچنا کچھ نئے دریچے کھولے گا کہ انصاف اگر کرنا ہی ہے اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں ہی اگر آج انصاف کا جدید کردار ہیں تو جج صاحبان اصغر خان کیس پر ایک نظر کر دیکھیں: نواز شریف تو شاید پھر حاضر ہو جائیں کسی جنرل مرزا اسلم بیگ کو بھی بلا دکھائیں؛ اور اس 3 نومبر کو لگی ایمرجنسی میں ہو سکتا ہے کہ کسی موجودہ منصف کے بچے بھی جوڈیشل کالونی میں محصور ہوئے ہوں؛ اس محصوری کے ذمے دار کسی کمر کے نہال کو جج صاحبان کیوں نہیں بلا بھیجتے۔
صرف رقص کے قابل ٹوٹی کمر کو عدالتوں کو اپنے پاس بلا کر قانون کا بول بالا کرنا بہت احسان کا کام ہو گا۔
بہ صورتِ دیگر ہمیں شیکیسپیئر کی انتقام و سزا کے بنیادی تھیم پر صدیاں پہلے تحریر شدہ ٹریجڈی کا یہ مکالمہ یاد آ جاتا ہے:
Something is rotten in the state of Denmark
ہم شکسپیئر کی انتقام و سزا کی ٹریجڈی سے وفا نبھاتے ہیں، ہم ڈنمارک کی جگہ پاکستان نہیں لکھیں گے؛ ہمیں اپنا ملک عزیز ہے۔
لگتا تو یوں ہے کہ جے آئی ٹی اور اس کی اونچی اڑانیں ہر انتخاب کی طرح کچھ بڑے عہدوں پر متمکن افراد کی اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کی ہوا کو پرانی عادات کے مطابق اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش ہے۔ ان ہواؤں کا رخ کوئی اور مرغ باد نما نہیں دکھا پاتا۔
پاکستانی نظام سیاست و حکومت میں electables کی اڑان کی سمت ہوا کے رخ کا پیمانہ بنتی ہے۔ پنجاب میں گُوجراں والہ ڈویژن کے مردانِ با وفا electables کا پی ٹی آئی میں جانا اندرونی سرکار کے پنکھوں کی ہواؤں کے رخ کا پتا دیتا ہے۔
لیکن ہواؤں کے رخوں کو اپنی باندی سمجھنے والوں کو کتنی بار باور کرنا ضروری ہے کہ یہ انھیں کئی دفعہ چاروں شانے چت بھی کروا چکی ہے۔
آخر میں کہنے دیجیے، خدا ہمارے ملک کو محفوظ و مامون رکھے، اے کاش ہمارے بڑے لوگ اپنے عہدوں جتنے بڑے ہو جائیں۔ آمین