جے آئی ٹی رپورٹ : ٹھنڈا ٹھار اور مختصر تجزیہ
(مبشر اکرم)
وہی ہورہا ہے جو ہر مرتبہ ہوتا چلا آیا ہے۔ پاکستان کی پڑھی لکھی مڈل کلاس کے سپوت اور سپوتنیاں بے لاگ تبصرے فرما رہے ہیں، اور اپنی اپنی پارٹی کے علم اٹھائے اپنا اپنا کلمہِ حق بلند کیے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان، کل بروز منگل کے چڑھتے سورج کو وزیراعظم بن جائیں گے اور اگلے ساڑھے تین ہزار سال پاکستان میں راوی چین ہی چین لکھے گا، جبکہ مسلم لیگ نواز کے دوست اس بات پر تلملا رہے ہیں کہ جے ٹی آئی نے وزیراعظم کی subservient رپورٹ تحریر کیوں نہیں کی۔
طرفین کی تسلی کے لیے چند اک نکات درج ہیں۔ اپنی اپنی مرضی سے پڑھ لیجیے:
1۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ آئینی طور پر binding نہیں ہے، یہ صرف سفارشات ہیں جو پانچ افراد نے بہت ساری controversy کے بعد تیار کیں، اور سپریم کورٹ کو پیش کر دیں۔
2۔ سپریم کورٹ ان سفارشات کی روشنی میں پانامہ کیس پر اپنی کارروائی آگے چلائے گی۔ تحریک انصاف والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ نواز شریف صاحب اب سیدھا ڈس کوالیفائی ہوں گے، اور مسلم لیگ والے سپریم کورٹ کو اک بلڈوزر کے روپ میں دیکھ رہے ہیں (میں نے کہیں کوئی توہین تو نہیں کردی؟ َ)۔ یہ دونوں پیرائے غلط ہیں۔
3۔ مسلم لیگ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ رد کر دی ہے، اور سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئین میں موجود بنیادی انسانی حقوق کے باب کے حوالے سے یہ معاملہ سپریم کورٹ کو سننا ہی پڑے گا۔ اس سلسلہ میں جواب الجواب کے معاملات ہوں گے۔ اور یہ ڈیڑھ دن میں ختم نہیں ہوگا، تحریک انصاف سے معذرت۔
4۔ اول تو اس کی امید نہیں ہے، مگر سپریم کورٹ بالفرض اگر تحریک انصاف کی مرضی کا فیصلہ دے بھی دیتی ہے، تو اک خیال ہے کہ مسلم لیگ نواز اس فیصلہ کو تسلیم نہیں کرے گی۔ یا تو اس فیصلہ کو چیلنج کیا جائے گا، یا پھر پارلیمان کی طاقت، جو کہ اصل طاقت ہے چاہے برا لگے یا اچھا، سے اس معاملہ پر اپنا بھرپور دفاع کیا جائے گا۔ چیلنج کرنا، یا پارلیمان کے ذریعہ سے اس کا دفاع کرنا، دونوں کسی بھی پارلیمانی جماعت کا بنیادی آئینی و سیاسی حق ہے۔
5۔ جے آئی ٹی نے یہ معاملہ نیب کے سپرد کرنے کی استدعا کی ہے۔ اس میں صاحبان بات یہ ہے کہ میاں صاحب کے دونوں صاحبزادوں پر اصولاً پاکستانی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا، چاہے اچھا لگے یا برا، اور یہ اک رستہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے، جبکہ وزیراعظم کے پاس ابھی استثنیٰ کا حق بھی محفوظ ہے۔ اور ہاں، نیب بھی کوئی ڈیڑھ دن میں اپنا فیصلہ نہیں دے گا، تحریک انصاف سے اک بار پھر معذرت۔
6۔ سپریم کورٹ اگر اک سیاسی معاملہ پر اپنی قانونی رائے کو absolutism کے نظریہ سے نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ڈیڑھ کروڑ ووٹس لینے والی سیاسی جماعت اپنا ردعمل دے گی۔ طرفین کے پاس شاندار قانونی ماہرین موجود ہیں۔ اک بہت عمدہ سیاسی جدوجہد دیکھنے کو ملے گی۔ چاہے اچھا لگے یا برا، میرا ووٹ، سیاسی جماعت کی جانب ہوگا، اور سیاسی جماعت کی جانب ہی ہوتا اگر میاں صاحب کی جگہ گیلانی صاحب یا عمران خان صاحب بھی ہوتے تو۔
7۔ یہ معاملہ فاسٹ ٹریک نہیں۔ سپریم کورٹ اس بات کو سمجھتی ہے، حکومتی ماہرین بھی اور آئین کے ماہر قانون دان بھی۔ یہ قانونی لڑائی کا آغاز ہے، انجام نہیں۔ آنے والے دن ٹھنڈے دل و دماغ والوں کے لیے بہت عمدہ تاریخ لئے ہوں گے۔ گرم دماغ اپنا تعلق پڑھی لکھی مڈل کلاس سے ثابت کرنے میں مکمل آزاد ہیں۔
8۔ آخری: یہ معاملہ اخلاقیات کا ہے ہی نہیں۔ یہ معاملہ سیاسیات اور قانون کا ہے۔ لہذا مسلم لیگ کو کسی بھی قسم کے نام نہاد اخلاقی دباؤ میں آئے بغیر اس معاملہ کو سیاسیات اور قانون کے dynamics کے مطابق ہی دیکھنا چاہیے۔ اس معاملہ کو اخلاقیات کی بانسری بجاتے صاحبان جان لیں کہ پھر یہ لڑھکتا ہوا ”اخلاقی پتھر“ بہت سوں کو ساتھ ہی لیے جائے گا۔
بحیثیت اک سیاسی پاکستانی شہری، میں عوام کے ڈیڑھ کروڑ ووٹوں سے منتخب حکومت کے ساتھ کھڑا ہوں۔ سیاسی معاملات عوام کی عدالت یا پارلیمان میں طے ہوتے ہیں۔ عدلیہ کا احترام سر آنکھوں پر، مگر جسٹس منیر یاد آتے ہیں، مولوی مشتاق مرحوم یاد آتے ہیں، جسٹس نسیم حسن شاہ یاد آتے ہیں، اور جسٹس افتخار چوہدری صاحب بھی یاد آتے ہیں۔ وائن کی دو بوتلیں یاد آتی ہیں۔ کمر درد میں مبتلا دبئی میں ناچتے ایک عظیم کمانڈو یاد آتے ہیں۔ تو لہذا، عمر کے 45 ویں سال میں، اپنی زندگی کے آخری پچیس تیس سال، دائروں میں گھومتے اک سیاسی غلام کی حیثیت سے جینے کا دل نہیں کرتا۔
حکومت، صرف اس سیاسی جماعت کا حق ہے جسے پاکستان کے شہری اپنے ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں۔ مسلم لیگ کو یہ اننگز پوری طرح ڈٹ کر کھیلنا ہوگی، پاکستان کے لیے، پاکستان کے شہریوں کے لیے اور ان نادان جماعتوں کے لیے بھی جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ جماعت گرے گی تو اس کے بعد رام نیازی صاحب اسلام آباد کی چوٹی کے سنگھاسن پر بیٹھے اپنی بغل اور راولپنڈی میں بیٹھی سیتا کو بانسری سناتے ہوئے پانچ سال آرام سے گزار لیں گے۔
اس پہیلی کو سمجھنے کے لیے جناب محمد اصغر خان صاحب سے رابطہ کر لیجیے۔
بشکریہ: ہم سب ڈاٹ کام