بلا ستر کے جو اسٹیبلشمنٹ نکلی
از، مولانا عمار خان ناصر
اسٹیبلشمنٹ پچھلے دو تین سالوں میں جس طرح بلا ستر سامنے آئی ہے، فی الحال زیادہ تر دیکھنے والے اسی پر متحیر ہیں اور بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں تو یہ سیاسی حرکیات میں ایک ایسی مفید ڈویلپمنٹ ہے جو مآلِ کار جمہوری جد و جہد کو مضبوط کرے گی۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس بے ستری کو چھپانے میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتی جس سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ یہ سب کچھ کسی وقتی مُوڈ میں یا ہنگامی ضرورت کے تحت نہیں، بَل کِہ قصداً اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور اس سے ایک کھلا اور واضح پیغام دینا مقصود ہے کہ باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں ہے، اس لیے جس کو اقتدار میں کچھ حصہ چاہیے، اسے “عن ید وھم صاغرون” کی شرائط پر ہمارے ہی ساتھ معاملہ کرنا ہو گا۔
میرے نزدیک یہ پر عزم ننگا پن ایک بڑی تلخ حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے جس کا سامنا جذباتیت سے نہیں کیا جا سکتا، یعنی اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری قوتوں کے ما بین طاقت کا غیر معمولی عدم توازن، جس پر جمہوری قوتوں کی باہمی تفریق، کسی بھی شرط پر اقتدار میں حصہ داری کی اندھی خواہش اور سب سے بڑھ کر حقیقی اخلاقی قوت سے محرومی مستزاد ہے۔
88ء کے بعد انتخابات کے تسلسل نے جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونے اور میثاق جمہوریت کی صورت میں جمہوری قوتوں کی یکسوئی کا جو تاثر پیدا کیا تھا، وہ درحقیقت ایک واہمہ تھا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کی جو اصل قیمت ہم نے دی ہے، وہ سول حکومت کی بے وقعتی کی صورت میں دی ہے اور اس کا کوئی فائدہ اگر کسی کو ملا ہے تو عسکری ادارے کو، جرات اور حوصلے اور اعتماد میں غیر معمولی اضافے کی صورت میں ملا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ بے ستری اسی اعتماد کا ایک مظہر ہے۔
مزید دیکھیے: 1۔ طے شُدہ آئین پر سوال کی حیثیت
2۔ مولانا مودودی کی دینی فکر اور شدت پسندی کا بیانیہ
پاکستانی سیاست کی اصل اور بنیادی حرکیات سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے بہت سے اہلِ صحافت، گورننس کے انداز میں تبدیلی کی توقع پر، اس مرحلے پر اسٹیبلشمنٹ کے عزائم اور فیصلوں اور ان کے محرکات کو سمجھتے ہوئے بھی ان کی کھلی یا چھپی تائید کر رہے ہیں۔
رائے قائم کرنے کا حق ظاہر ہے، انہیں حاصل ہے۔ لیکن جلد ان پر واضح ہو گا کہ انہوں نے گٹر کی بندش کھولنے کے لیے سیلاب کی مدد قبول کرنے کی “دانش مندی” کی ہے۔
فسوف تری اذا انکشف الغبار
افرس تحت رجلک ام حمار
“ذرا غبار چھٹ جائے تو تمہیں پتا چلے گا کہ تم گھوڑے پر سوار ہو یا گدھے پر۔”