جو ثقافتی فلسفہ انسان دشمنی کو فروغ دیتا ہے؟
از، نصیر احمد
سوچ رہے تھے کہ اتنی زیادہ پنجابی، اردو، ہندی اور فارسی شاعری یاد ہوتی تھی کہ کوئی سخن فہم مل جائے تو بات چیت کم اور بیت بازی زیادہ ہوتی تھی۔ لیکن اب ذہن سے ٖاترنے لگی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ دل چسپی کم ہو گئی اور دل چسپی کی کمی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر یہ شاعری دوروغ، بے دردی اور انسان دشمنی کی کہانی ہے، اب ان باتوں سے کہاں تک لطف لیا جائے۔ بس اس شاعری سے ہمارا یہ معاملہ یہ ہو گیا ہے نہ کتا دیکھے نہ کتا بھونکے۔
کہنے کا مطلب ہے کہ جب بات میں دوروغ، بے دردی اور انسان دشمنی عیاں ہو جائے تو بات سے چمٹے اور لپٹے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
اور اس شاعری کی خرابیوں کے سلسلے کیسریا بالم سے ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر منو کی سمرتی میں لکھا ہے کہ اگر کوئی کم ذات کسی اونچی ذات والے کا پیشہ اختیار کرے تو راجا کا یہ فرض ہے کہ وہ کم ذات سے اس کی ساری جائیداد چھین لے۔ ادھر اپنے وارث شاہ کہتے ہیں
کہ وارث شاہ فقیر نئیں ہندے پتر جٹاں، موچیاں تے تیلیاں دے۔ کہ جاٹ، موچی اور تیلی فقر کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اسی طرح سمرتی میں لکھا ہے کہ عورتیں عیار ہوتی ہیں، مردوں کو گمراہ کر دیتی ہیں اور وارث شاہ کہتے ہیں
رناں مار لڑائے امام زادے مار گھتیا پیریاں والیاں نوں۔ کہ عورتیں اس قدر عیار ہوتی ہیں کہ پیروں اور امام زادوں کو مروا دیتی ہیں۔
ہیر وارث شاہ شاعری کا شاہکار سہی، لیکن نفرت اور تعصب کی ایک گٹھڑی بھی ہے۔ اب اس نفرت اور تعصب کی اس گٹھڑی کو اخلاقیات کی مشعلِ راہ بنا لینا تو انسانی عظمت، انسانی مساوات اور انسانی حقوق کی پامالی کا جہان ہے اور بھارت ماتا کے سارے اچھے قوانین معطل کرتے ہوئے سمرتیوں کی بحالی بھی انسانی حقوق کی پامالی ہی ہے۔
اب مودی مہودے جو مسجدوں کو عظیم ہندوستان کی بحالی کے نام پر کیسری کر رہے ہیں تو برا کر رہے ہیں۔ ایک تو سچی بات یہ ہے کہ ہندوستان انسانی اقدار کے حوالے سے کبھی بھی عظیم نہیں تھا اور نہ اب ہے۔ اور شاید کبھی بھی نہ ہو۔ اور گنیش جی ہندوستان میں سرجری کی ترقی کا ثبوت نہیں ہیں بلکہ فنکارانہ تخیل کا کمال ہیں۔ اس لیے اگر بھارت کیسری ہوتا رہا تو انسانیت لہولہان ہوتی رہے گی۔
یہ ساری ہندتوا کی بات ہی ناٹزیوں کا چربہ ہے۔ جس میں ایک روشن ماضی کے نام پر ایک روشن مستقبل کا سُندر سپنا اجاگر کیا جاتا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ماضی بھی گھناؤنا تھا اور اگر حال اور مستقبل پر ماضی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو جیسے خسرو کہتے تھے آوارہ تر بادا صورت حال پہلے سے بدتر ہو جائے گی۔
پڑوس میں بدھ زندگی کو جو نارنجی کر رہے ہیں اسے انسانیت کا بحران کہتے ہیں۔ اور ادھر جو ہم جگنی کو سر سبز کرتے رہتے ہیں تو انسانی عزت اور انسانی حقوق کے حوالے سے ہمارے ہاں بھی نتائج کچھ اچھے نہیں۔
اسی طرح طیب اردوان بھی جو زبانِ یار کو ترکی تک ہی محدود کرنا چاہتے ہیں تو اس کے نتائج کُردوں کے لیے کچھ اچھے نہیں ہوں گے۔ یا پھر ٹرمپ ہیں جو امریکہ کو سفید رکھنے کے نام پر انسانیت دشمنی کو فروغ دینے کی کوشش کرہے ہیں وہ ریاست ہائے متحدہ کے لیے ابھی تک بدنامی کا سبب ہے لیکن اگر یہ رُجحان جاری رہا تو ریاست ہائے متحدہ کی بربادی کا باعث بن جائے گا۔
مسئلہ یہ ہے تعصب کے نام پر ترقی ایک عارضی سی بات ہے۔ یہ سارے لوگ ناٹزیوں کی شاگردی کے شوق میں ناٹزیوں کے ہاتھوں انسانیت کی بربادی اور ناٹزیوں کا انجام بھول گئے ہیں۔
اور جو ہم جیسے لبرل یا معاشرتی جمہوری ہیں وہ وائمر جرمنی کے سوشل ڈیمو کریٹس کی طرح اونی انسانیت پسندی اور پھسلتی ہوئی آزادی پسندی کے زیر اثر اس عالم گیر بدی کی کچھ خاص روک تھام نہیں کر رہے۔
یہی ہوتا ہے کہ لالچ اور کمزوری کی وجہ سے ایک اصولی موقف پر قائم نہیں رہا جاتا اور بعد میں خوف کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتا کہ انسانیت دوستی پر قائم رہا جا سکے۔ بس چند دلاور اور ان کی قربانیوں کے قصیدے رہ جاتے ہیں، باقی سب کچھ بدی کھا جاتی ہے۔
بارک اوباما بڑی اچھی تقریریں کرتے تھے، مگر مودی مہودے کو ایک عالمی مجرم کی پاتال سے ہٹا کر ایک سمجھ دار نیتا کی مسند پر بٹھاتے رہے اور بھارت کیسری ہوتا رہا۔ اب کیسری رنگ ہونا چاہیے کہ زندگی کا رنگ ہے لیکن صرف کیسری رنگ ہی تو زندگی کا رنگ نہیں کہ یہ جانم کسیریا بالم کو ویشیا، کنٹا یا چھنال لگے لیکن اس کے رنگوں کی تو گنتی ہی نہیں اور یہ اپسرا انھی رنگوں کی وجہ سے ہی ہے، اب کیسری کے لیے اس کو باقی سب رنگوں سے بے صفت تو سیاہی کے پریت پشاج ہی کرتے ہیں کوئی نارمل انسان ایسے سوچ بھی نہیں سکتا۔
اب یہ ہندتوا کیا ہے؟ اس کے اولین نظریاتی ساورکر تھے جنھیں مولانا ظفر علی خان ظلم کا جھکڑ کہتے تھے ان کے مطابق ہندتوا سوچ کے ہر زاویے سے لپٹی ہے اور ہماری ہندو نسل کے مکمل وجود کی فعالیت ہے۔
تو ناٹزی بھی اسی قسم کی باتیں کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ناٹزی نظریہ ساز الفریڈ روزنبرگ یہ کہتا تھا کہ کہ فرد کچھ نہیں ہے وہ شخصیت تب ہی بنتا ہے جب وہ اپنی فکر اور جذبات کو آبا و اجداد کے ورثے میں مکمل طور پر گم کر دیتا ہے۔
اور جیسے کونرڈ ہینلین کہتا تھا کہ جو کچھ جرمنی میں ہوا ہے اور جو کچھ جرمن خون میں ہے اور جو کچھ جرمن بولتا ہے وہی جرمنی ہے۔
اب یہ شاعرانہ سی گفتگو لمحہ بھر کے لیے اچھی لگتی ہے، مگر جب بھارت اسی تکمیل کی آرزو پوری کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف امتیاز کو پالیسی بنا لے گا کہ وہ ہندتوا کے معیار پر پورے نہیں اترتے تو امتیاز کی اگلی منزل اگر بھارت پر عالمی دباؤ نہیں ہو گا تو مسلمانوں اور ہندتوا سے دور دوسرے سب لوگوں کا خاتمہ بھارت کے لیے آسان ہو جائے گا جس طرح ناٹزیوں نے ریاست پر قبضہ کرنے کے بعد اصلی جرمن کی آڑ میں اپنے سارے مخالفین کو قیدو بند، تشدد، قتل و غارت، نسل کشی اور جنگ میں جھونک دیا تھا۔
نہ صرف بھارت بلکہ جو لوگ بھی ثقافتوں کے احیاء کے نام اقلیتوں سے نفرت کی راہ پر گامزن ہیں، وہ نسلی، مذہبی یا ثقافتی طہارت کے نام پر انسانیت کے خلاف مظالم اور جرائم میں مسلسل اضافہ کرتے رہیں گے۔
ہم تو کہتے ہیں ثقافتوں کا تحفظ اس طرح نہ کریں کہ دوسروں کا جینا ہی مشکل ہو جائے۔ اور جو ثقافتی فلسفہ انسان دشمنی کو فروغ دیتا ہے، اس فلسفے کو زندگی کا استاد بالکل ہی نہ بنائیں۔
وہ جیسے مصطفی زیدی کا شعر ہے
اس راہ پر خطر میں اے میرے تجربہ نا شناس
غیروں سے نہ ڈر مگر اپنوں سے احتیاط
یہ تو شعر ہی ہے لیکن زندگی کو انسانیت دشمنی سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں دوروغ، بے دردی اور انسانیت دشمنی پر مبنی خیالات کی شاگردی نہیں کرنی چاہیے۔ ورنہ انھی خیالات کو باعث نجات سمجھتے ہوئے انسانیت کے مجرم بن جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اب آخر میں ایک اور شعر آپ کو سناتے ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے کہ بیتے دنوں کی باتوں کی اچھائی برائی دیکھنی پڑتی ہے۔
بمکتب آمد طفل پری زاد
مبارک مرگ نو بہ استاد
اس شعر میں جس بات کے گُن گائے جا رہے ہیں، وہ در اصل انسانی کردار کا ایک انتہائی گھناؤنا روپ ہے اور یہی ناٹزی ازم، فاشزم اور ہندتوا ہے، انسانی کردار کا ایک گھناؤنا روپ۔
2 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.