جو بائیڈن کا امریکہ
از، حسین جاوید افروز
آج کے بعد میرے لیے کوئی ریاست سرخ یا نیلی نہیں ہے کیوں کہ میں اب ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا صدر ہوں۔ اگر مجھ سے کہا جائے کہ امریکہ کو ایک لفظ میں بیان کروں تو میرا جواب ہو گا، ”امکانات۔“ نو منتخب صدر جو بائیڈن نے امریکہ کے 59 ویں صدارتی الیکشن میں ایک طویل ترین انتخابی مہم کے بعد الیکشن نتائج اور ووٹوں کی گنتی کے ایک اعصاب شکن دورانیے کے بعد ڈیلاوئیر میں عوام کے نام فیصلہ کن برتری لینے کے بعد اپنی تقریر میں یہ کلمات کہے۔
یہ جیت بائیڈن کی محض انتخابات میں ہی جیت نہ تھی بل کہ یہ اس خواب کی اس مقصد کی جیت بھی تھی جو چار دہائیوں سے جو بائیڈن کے ذہن میں موجزن تھا۔
مجموعی طور پر ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ 69 فی صد رہا اور جو بائیڈن قریباً ساڑھے سات کروڑ ووٹ لے کر امریکی انتخابات کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے صدر بھی قرار پائے۔ دل چسپ اتفاق یہ بھی رہا کہ پنسلوینیا کی ریاست کے ووٹ بائیڈن کی جیت کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوئے اور یاد رہے کہ اسی ریاست میں بائیڈن کا جنم بھی ہوا تھا۔ امریکی عوام کو یقیناً جو بائیڈن کی شکل میں ایسا تجربہ کار، جہاں دیدہ اور شریف النفس صدر میسر آیا جس نے ذاتی زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر سخت ترین حالات میں بھی خود کو مستحکم رکھا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ہنگامہ خیز دور سے امریکیوں کی جان بھی چھڑا دی۔
دورانِ انتخابی مہم ٹاؤن ہال میں میڈیا کے سخت سوالات ہوں یا صدارتی مباحثوں میں ٹرمپ کی زچ کر دینے والی فطرت، بائیڈن نے اپنا سارا فوکس نہایت صبر کے ساتھ اپنے منشور پر رکھا اور عوام کے دل میں دھیرے دھیرے گھر کر لیا۔
ان گرمیوں سے لے کر نومبر تک کے تمام پولز اور سروے موجود ہیں جن میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تمام تر انا پرستی، حقارت آمیز برتاؤ کے با وُجود بائیڈن کی برتری کو ختم کرنے میں یک سر نا کام رہے اور بالآخر وائٹ ہاؤس ہی گنوا بیٹھے۔ انتخابی نتائج کی بات کی جائے تو دونوں امیدواروں نے اپنی اپنی نیلی اور سرخ ریاستوں میں توقعات کے مطابق کام یابی حاصل کی۔ جہاں بائیڈن کیلی فورنیا، واشنگٹن، ایریزونا، نویڈا، کولوریڈو، اوریگن، نیو میکسیکو، مائنوسٹا، الیناس، ڈیلاویئر، نیو ہیمپشائر، ورجینیا، نیو یارک، میین، میساچوسٹس، ورماؤنٹ، نیو جرسی، میری لینڈ، ہوائی میں کام یاب رہے وہاں ڈونلڈ ٹرمپ بھی ٹیکساس، فلوریڈا، ڈکوٹا، ارکنساس، اوٹا، مونٹانا، وومنگ، نبراسکا، کنساس، اوکلوہاما، مسسپی، میسوری، انڈیانا، کنٹیکی، ٹینسی، الاسکا، لوزیانا، اوہائیو، آئیوا میں سبقت لے اڑے۔
مگر اصل ٹاکرا سوئنگ ریاستوں میں دیکھنے میں آیا جہاں مشی گن، پنسلوینیا اور وسکانسن کی صنعتی ریاستوں میں شدید مقابلے کے بعد بائیڈن نے ٹرمپ کو مات دے دی۔ یاد رہے 2016 میں یہی سوئنگ ریاستیں ہی تھیں جنہوں نے ہیلری کلنٹن کو وائٹ ہاؤس کی دوڑ سے آؤٹ کر دیا تھا اور واضح رہے بائیڈن کی فتح میں امریکی ریاستوں میں موجود ان 373 کاؤنٹیوں نے بھی اہم کردار نبھایا جہاں سے ہیلری کو گزشتہ الیکشن میں شکست کھانی پڑی۔
یہاں بائیڈن کی جیت کے ساتھ ذرا ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست پر بھی تھوڑی بات کر لی جائے۔ ہم نے دیکھا کہ گزرے چار برسوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی متلون مزاجی، ضدی پن، انا پرستی اور رعونت سے امریکی مقتدرہ تک کو خود سے شاکی کر لیا۔ جب کہ سیاہ فام آبادی، تارکینِ وطن اور مسلم کمیونٹی تو پہلے ہی سے ان سے شدید متنفر تھے ہی۔
لیکن کیا ٹرمپ حالیہ صدارتی انتخاب ہارنے کے بعد سیاسی کیریئر کے اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ کیا ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہو چکا ہے؟ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کیوں کہ بائیڈن کے ہاتھوں شکست کھانے کے با وُجود ٹرمپ بھی سات کروڑ سے زیادہ ووٹ بٹورنے میں کام یاب رہے اور ان کے بیگ میں 24 ریاستوں میں حاصل کی گئی کام یابی بھی موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ دھاندلی کا شور مچانے یا عدالتی جنگ میں الجھنے کی بَہ جائے اگر سِنہ 2024 کے انتخاب کی دوڑ میں جگہ بنانے کی منصوبہ بندی کریں تو شاید وہ بہت کچھ مستقبل میں بھی کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ حالیہ انتخابات سے امریکی سیاست اور سماج میں جو شدید قسم کی پولرائزیشن دیکھنے میں آئی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ خود ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے اپنی ہنگامہ خیز زندگی میں وہ پہلی بار نا کامی سے دوچار ہوئے ہیں اسی لیے اسے ہضم کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ کیوں کہ اس بار نہ تو ان کے ہاتھ بائیڈن کے خلاف کوئی سکینڈل لگا جس کو وہ دوران انتخابی مہم بیچ پاتے اور نہ ہی ان کے پاس انتخابی دھاندلی کے حوالے سے کوئی ثبوت موجود ہے۔
اس پر ستم یہ کہ اہلیہ میلانا سے بھی ان کی طلاق کی خبریں گرم ہیں۔ لیکن ٹرمپ جہاں بھی رہیں گے ایک ہنگامہ برپا کرتے ہی رہیں گے۔ چاہے وہ دوران صدارت میڈیا اور امریکی مقتدرہ کے خلاف ہی رہے ہوں، چاہے انھوں نے جان بولٹن، میک ماسٹر، ریکس ٹائلر سن، ایسپر اور جیمز میٹس سمیت 503 ٹاپ آفیشلز کو بے ڈھنگے انداز سے بر طرف ہی کیا ہو مگر کچھ ایسے کام ضرور مثبت ہوئے جن کا کریڈٹ ان کو دینا چاہیے۔ مثلاً ان کے دور میں امریکہ جنگ و جدل سے گریزاں رہا۔ شمالی کوریا کے مرد آہن کم جونگ سے بھی ان کے مراسم نہایت بے تکلفانہ رہے اور کرونا کی آمد سے قبل وہ امریکی معیشت کو بھی ٹریک پر ڈال چکے تھے۔ یقیناً اپنی لا ابالی پن اور اوٹ پٹانگ حرکات کے با وُجود ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ وائٹ ہاؤس میں قیام کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے۔
بَہ ہر حال، بیس جنوری کو جو بائیڈن حلف اٹھا کر وائٹ ہاؤس کا کنٹرول سنبھال لیں گے اور ہم ایک عمیق جائزہ لیتے ہیں کہ وہ اپنے منشور میں کیے گئے وعدوں سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں؟ خارجہ امور میں بائیڈن روس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ولادی میر پیوٹن کے سامنے ایک ٹھوس شخصیت بن کر ابھریں گے اور اوباما یا ٹرمپ کی طرح کم زوری نہیں دکھائیں گے۔
چین کے ساتھ انڈو پیسفک اور تجارتی جنگ کا ماحول بَہ دستور گرم رہے گا مگر بائیڈن چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ اپنی بے تکلفی کو دونوں ممالک کے درمیان متعدل تعلقات کے حوالے سے عمدگی سے استعمال کرنے کی قدرت بھی رکھتے ہیں۔ جب کہ عالمی ماحولیات کے حوالے سے بھی چین اور امریکہ ایک صفحے پر دکھائی دیں گے۔
تاہم مشرقِ وسطیٰ میں بائیڈن ایران کے ساتھ ٹرمپ پالیسیوں پر یُو ٹرن لیں گے اور ایرانی جوہری معاملہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیں گے۔ یہ خبر جہاں تہران کے لیے باعث طمانیت ہو گی وہیں تل ابیب اور ریاض میں اس کا رد عمل شدید تر ہو گا۔ اب جب کہ ٹرمپ کے داماد جیرالڈ کُشنر بھی وائٹ ہاؤس میں موجود نہ ہوں گے تو اسرائیل اور امریکہ تعلقات میں گرم جوشی میں کچھ کمی بھی متوقع ہے۔ جب کہ یمن جنگ کے حوالے سے بھی بائیڈن سعودی مفاد سے کنارہ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
معیشت کے شعبہ میں بائیڈن کرونا کی بَہ دولت ریاستوں میں کاروبار بَہ تدریج کھولنے کے حامی ہیں اور اشرافیہ پر زیادہ سے زیادہ ٹیکسز لگانے پر یقین رکھتے ہیں۔ جب کہ بائیڈن کا نعرہ کہ ہر امریکی کو پندرہ ڈالر فی گھنٹہ اجرت ملنی چاہیے اب امریکیوں کے لیے سب سے اہم ہو گا کہ کب وہ اس پر عمل در آمد کو یقینی بنائیں گے؟
علاوہ ازیں امریکی مصنوعات کو اولیت دینے کا فیصلہ امریکی معیشت میں کیا اثرات مرتب کرے گا یہ بھی خاصا دل چسپ ہو گا۔ تاہم نسلی امتیاز کے حوالے سے کَملہ ہیرس بَہ طورِ نائب صدر جو بائیڈن کے لیے توازن قائم کرنے والے پہیے کا کردار نبھائیں گی اور جارج فلائیڈ اور بلیک لائف میٹرز تحریک میں بھی نمایاں کمی نظر آئے گی۔
اسی طرح تارکین وطن طبقات بھی بائیڈن کی وائٹ ہاؤس میں آمد سے خاصے مطمئن ہیں اور ٹرمپ دور کی سخت پابندیوں سے بھی انھیں نجات ملتی دکھائی دیتی ہے۔ جب کہ کرونا کے تدارک کے حوالے سے ہر امریکی کی نگاہ جو بائیڈن پر مرکوز ہے۔ کیوں کہ یہی وہ نکتہ رہا جہاں ٹرمپ کے مضبوط قَلعے میں ایسا شگاف ڈالا گیا جس سے وہ صدارت ہی کھو بیٹھے۔
کیا بائیڈن امریکہ کی نوے فی صد آبادی کو سستی انشورنش فراہم کر سکیں گے؟ کیا وہ سارے ملک میں مفت ٹیسٹنگ کے عمل کو یقینی بنا پائیں گے؟ ان وعدوں کی تکمیل پر سبھی کی نظریں مرکوز رہیں گی۔ آخر میں گلوبل وارمنگ کے سلگتے چیلنج سے بائیڈن کیسے نمٹیں گے یہ بھی خاصا دل چسپ ثابت ہو گا۔ یاد رہے بائیڈن نے اس مقصد کے لیے دو ٹریلین ڈالر مختص کرنے کا عہد کیا ہے جس کے تحت فوسل فیولز پر انحصار کم سے کم ہو گا اور پیرس معاہدے میں امریکہ کی اَز سرِ نَو شمولیت کی راہ بھی ہم وار کی جائے گی۔
سب سے اہم بات کہ سِنہ 2025 تک گرین ہاؤس گیسز کی شرح میں 28 فی صد کمی لائی جائے گی۔ اگر ان تمام کوششوں میں کام یابی ملی تو امید ہے امریکہ شاید 2050 تک کاربن فری ملک بن سکے گا۔ تاہم مجموعی طور پر کرونا کی روک تھام، امریکی معیشت کی اٹھان اور امریکی عالمی امیج کی بَہ حالی ہی جو بائیڈن کا اولین مشن ہے۔
آخر میں: جو بائیڈن کی آمد سے پاک امریکہ تعلقات میں کیا فرق پڑھے گا یہ اہم سوال ہے۔ سب سے پہلے تو اس بحث کو اب سمیٹنا ہو گا کہ اسلام آباد کے لیے ڈیموکریٹس بہتر ہیں یا پھر ریپبلکنز؟ اب جنوبی ایشیاء میں واشنگٹن کے لیے نئی دلی ہی تزویراتی اور فطری حلیف ہے۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے حوالے سے ضرور بائیڈن انتظامیہ سنجیدگی سے کام کرنے پر زور دے گی مگر اب ان کا اصل ہدف مشرقی بعید میں انڈو پیسفیک ڈاکٹرِن پر عمل کرنا ہی ہے؛ تا کہ چین کو حربی اور تجارتی طور پر جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے ساتھ مل کر لگام دی جا سکے۔ یہ درست ہے کہ جو بائیڈن پاکستانی سیاسی کی حرکیات سے اپنے سابقہ صدور کی نسبت زیادہ با خبر رہے ہیں اور وہ گزشتہ ایک دھائی میں دو بار اسلام آباد آ بھی چکے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ بَہ طورِ صدر امریکہ ان کا دورہ پاکستان اگلے چار سالوں میں خارج از امکان ہی دکھائی دیتا ہے۔ کیوں کہ تاریخ ہماری یہاں رہ نمائی کرتی ہے کہ صدر جانسن ہی آخری امریکی صدر گزرے ہیں جو ساٹھ کی دھائی میں خاص طور پر پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔
اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ کشمیر پر دورانِ انتخابی مہم بائیڈن نے خاصی جذباتیت دکھائی تھی مگر نہیں لگتا کہ وہ بَہ طورِ صدر اس حوالے سے کچھ کردار نبھا سکیں گے۔ یاد رہے بین الاقوامی تعلقات میں ریاستیں مفادات کی روشنی میں ہی مخاصمت یا گرم جوشی اختیار کرتی ہیں۔ لہٰذا صدر جو بائیڈن اسی اصول کی عینک سے ہی اسلام آباد کا جائزہ لیتے رہیں گے۔