لطیفے متعصب ہوتے ہیں؟
از، یاسر جواد
لطیفے ہنسنے کی چیز ہیں، لیکن اگر اُن کی تہہ میں جائیں تو وہ ہنسی کی بات نہیں رہتے۔ ان کے ذریعے سے ہم سماجی ابلاغ کرتے ہیں۔ کسی نہ کسی قوم، قبیلے، نسل، رنگ، عقیدے یا جنس کو نشانہ بنانا مقصود ہوتا ہے۔ چُناں چِہ ایک طرح سے تمام لطیفے نسل پرست یا قوم پرست تعصب سے بھرے ہوتے ہیں۔ یہ ہماری زبان کی ساخت کا بھی نتیجہ ہے۔
لیکن بیوی کو کھلے عام نشانہ بنانا عام سی بات ہے، اور اِسے بہ طور فخر لیا جاتا ہے۔ خلیل الرحمٰن قمر ایک ویڈیو میں بہ طورِ لطیفہ کہہ رہا ہے کہ اس کی بیوی نے اصرار کیا کہ مجھے تمھارا ہی خون چاہیے، حالاں کہ اِس کے دو بھائی بھی اُسے ’خون‘ دینے کو تیار تھے۔ اور یہ گھر یا دوستوں کی محفل میں نہیں بَل کہ ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کہہ رہا ہے۔
خلیل الرحمٰن قمر کو اِس لیے سنتا ہوں کیوں کہ یہ ہمارے سماجی سیوریج کا سب سے متعفن گٹر ہے، اور خالص بھی۔ اِن کی باتوں پر غور کیا جائے تو بہت کچھ خام اور خالص شکل میں سامنے آتا ہے، جسے اشفاق احمد اور اس قبیل کے دیگر لوگ ملفوف کر کے پیش کرتے ہیں۔
ہمارے کئی دوست بھی فیس بک پر بیوی کی سال گرہ یا شادی کی سال گرہ پر بھی بہ طورِ مزاح اُسے اچھا محسوس کروانے والی کوئی بات کہنے کی بہ جائے بلا، مصیبت، وبال، پاؤں کی زنجیر، حاکم اور پتا نہیں کیا کیا قرار دیتے ہیں۔
حالاں کہ ہم جانتے ہیں کہ عام گھروں میں حکم اور اجارہ کس کا ہے، کیسے بیوی کو پابند کرنے کے لیے مقدس سہارے لیے جاتے ہیں۔ در اصل شادی شدہ زندگی کو اچھا اور خوشی کا باعث کہنا ایک طرح سے توہین سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ اُس کے سب سے بڑے بَینی فِشری ہم مرد ہی ہیں۔ وقت پر کھانا اور دل کی خواہش کے مطابق سیکس کی سہولت دو مرکزی فائدے ہیں۔
میں نے وقت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا، یا تحریر میں عورت اور بالخصوص بیوی کی بے توقیری کرنے سے گریز سیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ فیمِن ازم کا بھی اثر ہے، بہ شرط یہ کہ آپ اسے صرف محض جسمانی آزادیوں تک محیط نظریہ یا اندازِ فکر نہ سمجھیں۔ یہ نفسیاتی آزادیوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جس پر ہم کبھی توجہ نہیں دیتے یا دینا نہیں چاہتے۔
(نوٹ: ایسا نہیں کہ میں خود اِن تمام خامیوں سے قطعی پاک ہوں۔)