صحافتی دور بینی (طنز و مزاح)
از، نصیر احمد
دور اندیش میں آپ کی اپنی پروین غوغائی آپ کو ویلکم کرتی ہے۔ آج کے پروگرام ہمارے ساتھ ممتاز تجزیہ نگار قسیمی صاحب اور وسیمی صاحب اور ساتھ ان کے سیما موجود ہیں۔ ویسے تو آج میرا خیال تھا کہ اپنی گُت (زلفیں) نوچ کر اور دھمال ڈالتے ہوئے پپو جان جگر کے ڈھول کی تھاپ پر موت کا افریقی رقص بانگو بانگو ملیالم کی تانوں میں ڈبوتے ہوئے وہ آنگڑے بانگڑے (پتا نہیں کیا ہوتے ہیں) کروں کہ آپ جنون کے وفور میں ساتھ بیٹھے ہوئے کو لات مار کر صوفے سے گرا دیں مگر معاملہ گھمبیر ہے، واقعہ سخت ہے اور جان بھی عزیز ہے اور ساتھ میں اتنے سینئیر لوگ موجود ہیں جن کے سامنے میرے آنگڑے بانگڑے ہاتھیوں کے سامنے بکروٹے (بکری کے بچے) ہی لگتے ہیں۔ اس لیے میں جلدی جلدی ان سے سوال پوچھتی ہوں اور آخر میں موقع ملا تو آنگڑے بانگڑے بھی کر لوں گی کہ آپ کی مشتاقی کو مہجور کرنا تو گناہ عظیم ہے۔
قسیمی سر، یہ سزا کے بارے میں تو آپ کی پیش گوئی تو بالکل درست نکلی۔ مان گئے ویسے آپ کو سر۔
قسیمی: پروین بیٹا، ماننا تو پڑے گا۔ عمر کے چالیس پچاس سال صحافت کی خدمت میں ضائع تو نہیں کیے، محنت کی ہے، کام کیا ہے، جو تم نوجوان لوگ نہیں کر سکتے۔ (وسیمی کی طرف دیکھتے ہوئے)۔ خیر کچھ بزرگ بھی ہیں جو سالوں کے بعد بھی اندھے، گونگے اور بہرے ہیں۔ لیکن یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اس سزا کی تو پیش گوئی اندھوں، گونگوں اور بہروں نے بھی کی تھی۔ اصل پیش گوئی جو میں نے کل کی تھی، جس کی طرف یہ جو معروف تجزیہ نگار بنتے ہیں، ان کی نظر ہی نہیں گئی۔
پروین: میں سمجھتی ہوں سر۔
قسیمی: خاک سمجھتی ہو کیا تھی وہ پیش گوئی۔
پروین: سر، آپ خود بتا دیں، اب آپ کے سامنے میں تو کچھ بھی نہیں ہوں، ویسے مجھے کچھ اندازہ ہے۔
قسیمی: تم بہت آگے جاؤ گی۔ پتا نہیں کیا اندازہ تھا لیکن میں نے کل ہفتے کے دن پورے وثوق سے، اپنے تمام ذرائع کو کام میں لاتے ہوئے اور عالمی جریدوں سے اہم نتائج اخذ کرتے ہوئے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ آج اتوار ہوگا۔
پروین: واقعی سر، آج اتوار ہے؟ میں تو حیران ہو گئی ہوں، اب تو میں بال نوچ کر بانگو بانگو تو ضرور کروں گی۔ (اور وہ چکنی چنبیلی کی دھن پر الٹی سیدھی حرکتیں کرنے لگتی ہے)
قسیمی: بس کرو پروین، اگر میں اپنی دوسری پیش گوئیوں کا ذکر کروں تو ہمیں ایمبیولینس منگوانی پڑے گی۔ وہ کون تھا جس نے بتایا تھا کہ ہر چار سال کے بعد لِیپ کا سال آتاہے؟ میرے سِوا اور کون ہو سکتا ہے۔ جب یہ سب اندھیروں میں بوکھلائے پھرتے تھے، کسی کو بھی راہ نہیں سوجھتی تھی، تو میں نے ماچس سُلگا کر یہ خبر دی تھی کہ نومبر کے بعد دسمبر آتا ہے (اور پروین، یار آیا پیار آیا، کی دھن پر آنگڑے بانگڑے کرنے لگتی ہے جن کی نوعیت اور خاصیت پر پروین کی بہن نسرین تحقیقی مقالہ لکھ رہی ہے، امید ہے مقالے کے بعد راز فاش ہو جائے گا۔)
قسیمی: پروین بیٹا، اب سنبھل جاؤ ورنہ میں فرش پر وہ قلا بازیاں لگاؤں گا کہ کائناتی طبیعات پر ریسرچ کرنے دَنگ رہ جائیں گے۔ لیکن یہ تم میں خوبی ہے کہ کامیاب لوگوں کی پیروی کا ہُنر تمھیں آتا ہے۔
وسیمی: ھاھاھاھا
قسیمی: کیا بات ہے، تمھیں بڑی ہنسی آ رہی ہے۔
وسیمی: کچھ نہیں یار، ویسے اپنی موسیقی سننے کی عادت پر ہنس رہا ہوں۔
قسیمی:نہیں، کچھ تو ہے، بات نہ ٹالو، بتا دو۔
وسیمی: نہیں یار، غیر پارلیمانی ہو جائے گا۔
قسیمی: تمھیں یہ فکریں کب سے ہونے لگی ہیں؟ تمہاری پارلیمانی سن کر وہ بد زبان، بد گو، بد تمیز مرزا صاحب بھی حیران ہو کر تصویر بن جاتے ہیں۔
وسیمی: چلو بتا دیتا ہوں۔ اگر تم ضد کرتے ہو (اٹھ کر کرسی بدل لیتا ہے) وہ میں گانا سن رہا تھا جس کے بول کچھ یوں تھے کہ مجھے اپنی ناکامیوں سے پیار ہے کیوں کہ سب کامیاب لوگ کُتیا کے جَنے ہوتے ہیں۔
(اس کے بعد قسیمی اور وسیمی آپس میں وہ جھگڑتے ہیں کہ سٹوڈیو میں طوفان سا آ جاتا ہے۔ اور پروین دونوں کو بڑھاوے دینے لگتی ہے اور ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ کہتی بھی جاتی ہے،) ناظرین، معاشرتی قدریں زوال پذیر ہیں۔ کمر پہ لات وسیمی صاحب۔ اور ہمارا معتبر پیشہ جس کی روحانی جڑیں اگر ذہن میں رکھیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ جبڑے پہ گھونسا قسیمی صاحب۔ کہاں گئے کہاں گئے باب ووڈورڈ جیسے لوگ، کہاں گئے، ایڈورڈ مرو جیسے صحافت کے درخشندہ ستارے۔ کانوں پر ایک تھپڑ وسیمی صاحب۔ رابرٹ فِسک یہ تماشا دیکھیں تو چِلُّو بھر پانی میں ڈوب مریں۔ قسیمی، ناک پر مکا دے مارو۔ ( کچھ دیر تک یہ ہنگامہ جاری رہتا ہے اور کمرشل بریک آ جاتی ہے۔)
مزید دیکھیے: فکس اپ (طنز و مزاح)
پانامہ ، اپنے مہین خان اور کونڈے
پروین۔ ناظرین، میرے پروگرام میں ایسا دُھول دھپا ہوتا تو نہیں اور میں نے پوری کوشش کی پروگرام کے آداب برقرار رکھوں، مگر آپ جانتے ہیں ہیں کہ صحافت کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔ یہ نیوز رُوم کا دباؤ، تنخواہ سے متعلق پریشانیاں اور خبر تک رسائی کے لیے تیل پلائے سانڈوں جیسا جوش کبھی کبھی نا خوشگواری کا سبب بن جاتا ہے۔ ویسے مزا تو بڑا آیا۔ چلیں اب سیما سے پوچھتے ہیں، کہ وہ کیا کہتی ہیں۔
سیما: اپسی ڈیزی، میں سوچ کری کہ تم تو مجھ کو فارگیٹ ہی کر بیٹھی ہو۔ اوپر سے یہ میل شاونسٹک انپلیزنٹ اکورینسز۔ کھیر ہوتا ہے، کھتم بھی ہو جاتا ہے۔ ویسے مجھے بُل فائٹنگ، باکسنگ، سوکر اینڈ ڈوگ فائٹ جیسے کھیل اَن ہیومین لگتے ہیں مگر جب کوئی ذلیل کمینہ، گھٹیا، لُچا اور لفنگا آئی مِین سکاؤنڈرل بیلوں کی دوڑ میں پچھواڑا تڑوا بیٹھتا ہے تو مجھے ہسٹوریکل جسٹس کی فِیلنگ ہو تی ہے۔ اس اَن ہیومین سکرمِش نے تو مردوں کی وحشیانہ نیچر کو ایسے ایکسپوز کیا ہے کہ میرے پاس ورڈز ہی نہیں ہیں۔ آئی مِین، اٹس روڈ بٹ جیسے مایا اینجلو کا ورس ہے کہ مرد کی ذات کتے کی ذات کے برابر ہوتی ہے۔
پروین: یہ اپنی خالدہ کا اصلی نام مایا اینجلو ہے۔ یہ تو وہ اکثر وہ کہا کرتی ہے اور اپنے اکرم سے جھانپڑ بھی کھاتی ہے۔
سیما: ھی ھی ھی، ہاؤ سٹُوپڈ، ہاؤ کروعل۔ تمہیں نہیں پتا مایا اینجلو کون ہے؟
پروین (جہالت پر پشیمان ہو کر غصے میں آ جاتی ہے): سیما پلیز، تم تھوڑی اردو بولنے کی بھی کوشش کرو کہ سب ناظرین کے رشتے دار امریکہ نہیں ہوتے۔ کم بختو، کھاتے پاکستان کا ہو اور گُن انگریز کے گاتے ہو۔ کیا اپنی خالدہ مایا اینجلو جتنی لائق نہیں ہو سکتی؟ کیا وہ عورت نہیں ہے؟ کیا اُپلے تھاپتے ہوئے زندگی کے حقائق زیادہ نہیں سمجھ آتے؟ کیا کہا تھا اپنے مرشد محترم کانواں والی سرکار نے، کالا سرمہ طور دا اکھیں وچ گھتیندے۔ تم جعلی گوری بننے کی کوشش نہ کرو، اپنی قومی زبان بولو۔
سیما: او لارڈی ،او لارڈی، پروین مجھے پتا ہے تم ایک درندے سماج کی وِکٹم ہو لیکن اس اگنورینس کو سورٹ آؤٹ کرنے کی کوشش کرو۔ مایا اینجلو گوری نہیں ہے اور گوروں کے بارے میں بھی ریسسٹ نہیں ہونا چاہیے ورنہ ہم اگنورینٹ فولز ہی رہ جائیں گے جن کو ٹانگا نیکا کا بھی پتا نہیں ہے۔
پروین: یہ کون ہے تیرا خصم؟
سیما: ھی ھی ھی، بائی گاڈز وونڈز، اٹس نو یوز، یہ تنزانیہ کا پرانا نام ہے۔
پروین: اچھا، وہ تانیا کی بہن، وہی تانیا جو الیکشن کی بیٹ پر کام کرتی ہے۔
سیما: وہی وہی، ان بروٹ میلز نے ہم عورتوں کو کیا میک کر دیا ہے۔ لیکن ہم آپسی کے جھگڑے میں اصل موضوع سے ہَٹ گئے ہیں۔ اسی وجہ سے پروگریس نہیں ہو رہی۔ فوکس نہیں آرہا۔ میں نے بھی کچھ پریڈکٹ کیا تھا، بتانا چا رہی ہوں۔ ہم عورتوں میں پریڈکشن کی ایبلٹی زیادہ ہوتی ہے کیوں کِہ نیچر نے ہمیں فیوچر سے بیسٹو کیا ہے؟
پروین: یہ تو ہے، مگر تم نے کیا پیش گوئی کی تھی جو سچ ثابت ہوئی؟
سیما: میں نے ایک گھنٹا پہلےکہا تھا اگلے گھنٹے میں سکسٹی منٹ ہوں گے اور ایسا ہی ہوا۔
پروین: سبحانا واؤ۔ شکریہ سیما۔ ناظرین وقت کی کمی کی وجہ سے میں اجازت چاہوں گی۔ لیکن جاتے جاتے یہ پیش گوئی کرتی جاؤں گی کہ اگلے منٹ میں ساٹھ سیکنڈ ہوں گے۔ امید ہے میری کم علمی اور نا تجربہ کاری کے باوجود میری یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوتی ہے۔
خدا حافظ