صحافی کی بپتا
از، وارث رضا
وہ مجھے میرے ملک کے آئین اور قانون کو لتاڑتے ہوئے رات کے بھیگتے سمے لے تو گئے، مگر وہ اس امر سے نا واقف تھے کہ صحافت اور نظریات کی معاشی چکّی میں گُندھے ایک عامل صحافی نے اپنی چھ بیٹوں کی تربیت جبر سے ٹکرانے کے مکمل استعارے کو سامنے رکھ کر کی ہے۔
وہ اس سے بے خبر تھے کہ صحافی برادری اور سماج کی سیاسی و سماجی تنظیمیں میری لیلیٰ رضا ایسی بہادر بیٹی کے ہم قدم ہو جائیں گی اور یہ سب مل کر روشنی کا وہ استعارہ بن جائیں گے کہ جن کی طاقت ملکی و غیر ملکی میڈیا بن جائے گا۔
ایک سیاسی اور نظریاتی باپ کی خواہش کو جب اولاد اور اس کا کنبہ اپنے سیاسی سماجی اور تعلیمی شعور سے سینچنے کے قابل ہو جائے اور وہ خود مشکل گھڑی میں بہادرانہ انداز سے مشکلات کا حل نکالنے لگے تو اس لمحے باپ خود کو نظریاتی طور سے مزید مستحکم پاتا ہے، اور ایسے مواقِع پر باپ خود کو ٹھوس ارادوں کے ایک ایسے گھروندے کا سایہ دار درخت سمجھنے لگتا ہے۔
اس لمحے میں کیوں نہ فاخر ہوں کہ محروم طبقات اور ان کے جمہوری حقوق کا سایہ میری بیٹیاں اپنے چچا عارف رضا کی سرکردگی میں بنیں۔ یہ کنبہ میرے خواب کی جیتی جاگتی تصاویر تھا۔
یہ ہمارے بے ترتیب سماج کے وہ مناظر ہیں جہاں متذکرہ حقیقتیں جب پھوٹتی ہیں تو شکستہ سماج کے چاپلوس افراد یا تو انگشت بَہ دنداں ہو جاتے ہیں، یا پھر جبر کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے ایسی بیٹیوں کے عمل کو سلام پیش کرتے ہیں۔ مگر عملی طور سے اپنی اولاد کو سیاسی شعور اور سماج کی بالیدہ تربیت سے پھر بھی محروم رکھتے ہیں، جو کہ کسی بھی طور سماج کی قدروں، روایتوں اور بہادری کو آگے بڑھانے کا عمل نہیں ہوتا۔
مگر دوسری جانب کنبے کی مشکلات اور کڑے وقت میں جب بیٹیاں باپ کی گُم شدگی پر رونے دھونے یا سہاروں کے بجائے خم ٹھونک کر مشکل صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیتی ہیں تو پورا سماج ان کی جرأت کے ساتھ کھڑا ہو کر جبر و استبداد کا مقابلہ کرتا ہے اور اپنی بہادر بیٹیوں کی آواز پر لبیک کہتا ہوا ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
اس ملک میں قانون کی بالادستی کی بات کرنا ویسے بھی دیوانگی قرار دے دیا گیا ہے۔ مگر اب بھی چند سَر پِھرے سیاسی سوچ کے صحافی سر توڑ کوشش میں جُتے ہوئے ہیں کہ اس دیس کی سوہنی دھرتی میں وہ شہری آزادی، جمہوری قدروں اور اظہار کی آزادی کے آئینی حق کے لیے لڑتے رہیں گے کہ جمہوری آزادی کا یہ حق ان کی دھرتی ماں یا ریاست نے انھیں دیا ہے اور وہ یہ آئینی حق ہر صورت بَہ حال کروا کے دَم لیں گے۔ یہ جمہوری آزادی اور اظہارِ رائے کی ایک حوصلہ افزاء نشانی ہے۔
بھیگتی رات کے تین بجے کے سمے جب چھ بیٹیوں کے صحافت کرنے اور قلم کی آبیاری کرنے والے باپ کو غیر قانونی انداز سے گھر کی بیٹیوں کے سامنے تفتیش کے بہانے اٹھا کر لے جایا جائے تو اس لمحے وہ منظر نا قابلِ بیان ہوتا ہے، جس میں محلے، اعِزّاء اور احباب کے ذہن میں مختلف منفی و مَثبت خیالات جنم لیتے ہیں اور متعلقہ فرد یا مجھ ایسے صحافی کی بیٹیاں سب کے سامنے سوالیہ نشان بن جاتی ہیں۔
یہی وہ موقع اور لمحہ ہوتا ہے جب آپ کا بیٹیوں کو دیا ہوا سیاسی اور سماجی شعور کام آتا ہے اور اس لمحے لیلیٰ رضا اپنی چھوٹی بہن مرضیہ رضا، چچا عارف رضا کی معِیّت میں اپنے بابا کی غیر قانونی و غیر آئینی گم شدگی پر خم ٹھونک کر مقابلے کے لیے میدانِ عمل میں آ جاتی ہیں اور سیاسی شعور کی حکمتِ عملی سے سماج کی تمام پرتوں میں صدائے حق کی ندا دیتی ہیں۔
یہ وہ لمحہ تھا کہ جب لیلیٰ رضا اور مرضیہ رضا اپنے علمی رجحان سے منصوبہ بندی کر کے ایک گم شدہ باپ کے مقابلے میں ہزاروں باپ کی بیٹیاں بن جاتی ہیں۔ وہ صحافتی کنبے اور سماج کے شعور کو جھنجھوڑتی ہیں تو ان کے باپ سمان فہیم صدیقی، حامد میر، مبشر زیدی، طلعت حسین، ناصر زیدی، شہزادہ ذوالفقار، افضل بٹ، نجم سیٹھی، مطیع اللہ جان، مظہر عباس، اظہر عباس، سہیل وڑائچ، حمید فاروقی، نظام صدیقی، ریاض سہیل، مرتضی سولنگی، اویس توحید، فرحان رضا، رضا رومی، اسد علی طور، عامر میر، اقبال ملاح، میاں طاہر، جان خاصخیلی، لالہ اسد پٹھان، حارث خلیق، کمال شاہ اور دیگر ہزاروں صحافی دوست لیلی رضا سمیت چھ بیٹیوں کے مدد گار بن کر لیلیٰ رضا اور مرضیہ رضا کے ہم قدم ہو جاتے ہیں۔
عاصمہ شیرازی سے لے کر محترمہ شمسہ میری بیٹی کی ڈھارس ہو جاتی ہیں۔ عارف، سلمان، عباس، فاطمہ اور خرم کی مدد اور ساتھ لیلیٰ رضا و مرضیہ رضا کے سنگ ان کے غیر قانونی طور سے گم کردہ “باپ” کی رہائی کے لیے سر بَہ کف ہو جاتے ہیں۔
اس موقع پر صحافیوں کی مرکزی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس اور کراچی یونین آف جرنلسٹس لیلیٰ اور مرضیہ رضا کے ہم قدم ہو کر نہ صرف ان کے حوصلوں کو تقویت دیتے ہیں، بَل کہ ان سے مسلسسل رابطے میں بھی رہتے ہیں۔
اس مشکل گھڑی میں سیاسی شعور رکھنے والے طلباء، ٹریڈ یونین رہ نما، دانش ور تنظیمیں، انجمن ترقی پسند مصنفین کے ذمے داران، کمیونسٹ پارٹی اور ترقی پسند سوچ کے دوست اور صحافت سے وابستہ تمام احباب یک آواز ہو کر ہمارے کنبے کی قوت بن جاتے ہیں اور سیاسی و سماجی شعور کے نتیجے میں “غیر قانونی و غیر آئینی” عمل کے خلاف ایک ایسی تحریک بن جاتے ہیں جو قانون کی بالادستی کو اپنا ایمان جان کر اپنی دھرتی ماں یا ریاست سے وفا داری اور جمہوریت کی بالا دستی کا حلف اٹھاتے ہیں اور آخرِ کار گُم شدہ بنانے کے غیر قانونی و غیر آئینی عمل کو شکست دے کر سماج کے اجتماعی شعور کو آگے بڑھاتے ہیں۔
میں غیر قانونی اغواء کے چودہ گھنٹے کے پٹی بندھے عمل کو کیسے بھول سکتا ہوں جس میں تابڑ توڑ سوالات میری تحاریر سے متعلق، کے یو جے اور پی ایف یو جے کے متحرک ہونے پر ہوتے رہے۔ صحافت پر قدغن لگانے کی کوشش کے مُجوّزہ قانون پی ایم ڈے اے اور پارلیمینٹ ہاؤس کے سامنے صحافتی دھرنے سے متعلق ہوتے رہے۔ ان گھنٹوں کے دوران مجھ سے گو انتہائی شائستہ اور دوستانہ رویہ رکھا گیا۔ جو ایک مَثبت قدم ہے۔
مگر قیدِ تنہائی کا وہ عذاب کیسے بھلایا جا سکتا ہے جو میرے کمیونسٹ خیالات کی وجہ سے متزلزل تو نہ ہو سکا مگر میرے اوسان میں سوالات کا ایسا جال ضرور بنا گیا جس کی گرہیں سلجھانے میں مجھے ایک وقت تو لگ سکتا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ غیر قانونی عمل اور ایک خوف زدہ ماحول طاری کرنے کی یہ کوششیں مجھے محلے اور سماج کے ان سوالات سے کیسے بچا پائیں گی جو بلا ضرورت کیے جاتے رہیں گے۔
جب یہ ملک آئین و قانون کے مطابق چل رہا ہے یا چلائے جانے کا عندیہ دیا جا رہا ہے تو اس پر تفتیشی عمل کو بھی آئین و قانون کے تابِع کیوں نہیں کیا جاتا۔
آپ تفتیش کریں بالکل کریں مگر اس کا قانونی طریقہ اختیار کیا جائے تو نہ سر بَہ کف ہونا پڑے گا اور نہ ہی احتجاج کی نوبت آئے گی۔ آپ نوٹس دے کر بلائیں۔ ہم صحافی اپنی تفتیش کروائیں گے اگر ہمارا عدم تعاون ہو تو آپ کی شکایت بَہ جا۔ مگر غیر قانونی عمل در اصل نہ صرف لے جانے والوں کو کم زور کرتا ہے بَل کہ وہ ریاست کے آئین و قانون کو بھی ایک ایسا سوال بنا دیتا ہے کہ جس پر عام فرد بھی اعتبار کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔
ہم صحافی بَہ یک وقت ریاست کی بالا دستی اس کی حرمت، شہری آزادی، جمہوری قدروں کی سلامتی اور عوام کو با خبر رکھنے کے شعوری فرض سے آگاہ ہوتے ہیں، ریاست ہماری وہ ماں ہے جو سگی ماں سے بلند ہو کر ہمیں اپنے شکم اور بانہوں میں لوریاں دیتی ہے۔
ہماری دھرتی ماں تو ہمیں جنم دینے والی ماں سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ تبھی تو ہم اس کی بقاء و سلامتی اور اپنی ریاست کی آئینی حیثیت برقرار رکھنے پر کوڑے، قید اور اغواء کی صعوبتیں چھیلتے ہیں۔
آج بھی غیر آئینی و غیر قانونی عمل کرنے والوں سے سوال ہے کہ وہ دوبارہ سوچیں کہ کیا وہ کہیں تاریخ کے مجرم بننے کی جانب تو گام زن نہیں؟