عدالت گاہ اور گورنمنٹ ، از مولانا ابوالکلام آزاد
(شاہد خان)
عدالت گاہ نا انصافی کا قدیم ترین ذریعہ ہے:
” ہمارے اس دور کے تمام حالات کی طرح یہ حالت بھی نئی نہیں ہے. تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمران طاقتوں نے آزادی اور حق کے مقابلے میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے. عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے اور وہ انصاف اور نا انصافی دونوں کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے. منصف گورنمنٹ کے ہاتھ میں عدل اور حق کا سب سے بہتر ذریعہ ہے. لیکن جابر اور مستبد حکومتوں کے لئے اس سے بڑھ کر انتقام اور نا انصافی کا کوئی آلہ بھی نہیں۔
تاریخ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں. دنیا کے مقدس بانیان مذہب سے لے کر سائنس کے محقیقین اور مکتشفین تک، کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو. بلاشبہ زمانے کے انقلاب سے عہد قدیم کی بہت سی برائیاں مٹ گئیں. میں تسلیم کرتا ہوں کہ اب دنیا میں دوسری صدی عیسوی کی خوفناک رومی عدالت اور ازمنہ متوسط ( مڈل ایجز ) کی پر اسرار انکویزیشن وجود نہیں رکھتی. لیکن میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ جذبات ان عدالتوں میں کام کرتے تھے. ان سے بھی ہمارے زمانے کو نجات مل گئی ہے. وہ عمارتیں ضرور گرا دی گئیں. جن کے اندر خوفناک اسرار بلند تھے لیکن ان دلوں کو کون بدل سکتا ہے جو انسانی خود غرضی اور نا انصافی کے خوفناک رازوں کا دفینہ ہے۔”
ایک عجیب مگر عظیم الشان جگہ :
” عدالت کی نا انصافیوں کی فہرست بڑی ہی طولانی ہے. تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہوسکی. ہم اس میں حضرت مسیح علیہ السلام جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں. جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کئے گئے. ہم کو اس میں سقراط نظر آتا ہے، جس کو صرف اس لئے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ سچا انسان تھا. ہم کو اس میں فلورنس کے فدا کار گلیلیو کا نام بھی ملتا ہے جو اپنی معلومات و مشاہدات کو اس لئے جھٹلا نہ سکا کہ وقت کی عدالت کے نزدیک ان کا اظہار جرم تھا. میں نے مسیح علیہ السلام کو انسان کہا. کیونکہ میرے اعتقاد میں وہ ایک مقدس انسان تھے. جو نیکی اور محبت کا آسمانی پیام لے کر آئے تھے. لیکن کروڑوں انسانوں کے اعتقاد میں تو وہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں. تا ہم یہ مجرموں کا کٹہرا کیسی عجیب مگر عظیم الشان جگہ ہے. جہاں سب سے اچھے اور سب سے برے دونوں طرح کے آدمی کھڑے کئے جاتے ہیں. اتنی بڑی ہستی کے لئے بھی یہ ناموزوں جگہ نہیں۔”
موجودہ گورنمنٹ ظالم ہے:
” یقینا میں نے کہا ہے موجودہ گورنمنٹ ظالم ہے. لیکن اگر میں یہ نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟ میں نہیں جانتا کہ کیوں مجھ سے یہ توقع کی جائے کہ ایک چیز کو اس کے اصل نام سے نہ پکاروں۔”
میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں:
میں کم ازکم اور نرم سے نرم لفظ جو اس بارے میں بول سکتا ہوں یہی ہے. ایسے ملفوظ صداقت جو اس سے کم ہو میرے علم میں نہیں۔
میں یقینا یہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارے فرض کے سامنے دو ہی راہیں ہیں. گورنمنٹ نا انصافی اور حق تلفی سے باز آجائے۔ اگر باز نہیں آسکتی تو مٹا دی جائے. میں نہیں جانتا کہ اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ یہ تو انسانی عقائد کی اتنی بڑی سچائی ہے کہ صرف پہاڑ اور سمندر ہی اس کے ہم عمر کہے جاسکتے ہیں۔ جو چیز بری ہے اسے یا تو درست ہوجانا چاہئے یا مٹ جانا چاہئے۔ تیسری بات کیا ہو سکتی ہے؟ جبکہ میں اس گورنمنٹ کی برائیوں پر یقین رکھتا یوں تو یقینا یہ دعا نہیں مانگ سکتا کہ درست بھی نہ ہو اور اس کی عمر بھی دراز ہو۔ ”