سیاسی گند اور عدالتی لانڈری
(افتخار احمد )
پانامہ کیس کے لئے بننے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے کام کی نگرانی کے لئے تشکیل دئیے گئے سپریم کورٹ کے سپیشل بنچ نے پہلی سماعت پر دو سرکاری محکموں کی جانب سے دیئے گئے افسران کے ناموں کو مسترد کر دیا ۔ سپریم کورٹ نے سٹیٹ بنک آف پاکستان اور سکیورٹیز ایکسچینج کمیشن کی جانب سے دیئے گئے ان ناموں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی سپریم کورٹ کے ساتھ گیم کھیلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ بنچ نے دونوں اداروں کے سربراہان کو جمعہ کے روز ہونے والی سماعت پر اپنے محکموں میں موجود گریڈ اٹھارہ سے اوپر کے تمام افسران کی لسٹ ہمراہ لانے کی بھی ہدایت جاری کی تھی۔جمعہ کے روز ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی جانب سے جے آئی ٹی ممبران کے چناؤ کے بعد کم از کم ان افسران کی قابلیت کے بارے میں کسی کو شک نہیں رہے گا۔ اپوزیشن کی جانب سے وفاقی حکومت کے ماتحت اداروں کی جے آئی ٹی میں شمولیت سے متعلق اندیشے بھی شاید اب دم توڑ جائیں کیونکہ سپریم کورٹ بنچ کی نگرانی میں چنے گئے افسران ممکنہ طور پر کسی حکومتی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ جے آئی ٹی کے کام میں شفافیت برقرار رکھنے کے لئے شاید اس سے بڑی کوشش نہیں کی جا سکتی تھی۔
لیکن ایک سوال شاید قانونی حلقوں میں ضرور اٹھایا جائے گا کہ اگر ریاست کی سب سے بڑی عدالت جو کہ اپیل کورٹ کا درجہ رکھتی ہے خود کو ٹرائل کورٹ بنا لے تو پھر اس کے کئے گئے فیصلے کے خلاف اپیل کہاں دائر کی جائے گی؟ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ کی جانب سے ایک وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا، ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ان کے ساتھی معزز جج صاحبان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اس جرم کی پاداش میں نااہل قرار دیا کی انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کرنے کی بجائے آئین کے آرٹیکل 248کا سہارا لینے کی کوشش کی۔ اس وقت کی سپریم کورٹ اس بات پر مصر تھی کی اس وقت کے صدرپاکستان آصف علی زرداری کی مبینہ کرپشن کی انکوائری کو دوبارہ فعال کرنے کے لئے وزیر اعظم پاکستان سوئس حکام کے نام ایک خط تحریر کریں۔ وزیراعظم نے عدالت کے سامنے اپنی مجبوری بیان کی کہ آئین انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ صدر پاکستان کے خلاف ان کے دور صدارت میں کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جاسکتی، ایسے میں کسی غیر ملک کے حکام کو خط لکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کویہ دلیل بالکل بھی نہیں بھائی اور اس وقت کے جج صاحبان نے وزیر اعظم کو عدالت کے احکامات پورے نہ کرنے کی پاداش میں توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرایا اور انہیں تیس سیکنڈ کی علامتی سزا بھی دے ڈالی۔ اسی کیس میں سزا یافتہ ہونے کے باعث یوسف رضا گیلانی کووزیر اعظم کی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑے اور دو سال کے لئے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے بھی نا اہل قرار پائے۔اگرچہ ان کی نا اہلی کی مدت اب ختم ہو گئی ہے مگر یوسف رضا گیلانی آج بھی مختلف عدالتی فورمزپر اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
عام حالات میں کیسز ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے مرحلے سے گزر کر سپریم کورٹ تک آتے ہیں، بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کیس کی پہلی سنوائی ہی سپریم کورٹ کی سطح پر کی جائے۔ لیکن سابقہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے زمانے سے سپریم کورٹ نے سو موٹو اختیارات کے استعمال میں کافی فراخدلی سے کام لیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی پوسٹنگ سے لے کر ،بلوچستان میں تانبے کی کانوں تک سپریم کورٹ نے بہت سے ایسے معاملات کی شنوائی کی جو شاید ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے تھے۔ سپریم کورٹ کے لئے ایسا کرنا اس لئے بھی ممکن ہوا کیونکہ پاکستان میں موجود دیگر ریاستی ادارے اپنے کام کو درست انداز میں سرانجام دینے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ایسے میں جو خلاپیداہوا اسے بھرنے کے لئے سپریم کورٹ کو آگے آنا پڑا، اگر سرکاری محکمے اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہوتے تو شاید اس زمانے کی سپریم کورٹ بھی سوموٹو اختیارات کے استعمال میں اعتدال کا مظاہرہ کرتی۔ چونکہ اس وقت کی حکومت کے بارے میں عمومی تاثر کچھ اچھا نہیں تھا اس لئے سپریم کورٹ کو کھل کر معاملات چلانے کا موقع ملا لیکن کیا ان اقدامات سے کوئی دور رس نتائج حاصل کئے جا سکے ؟ کیا اس سپریم کورٹ کی جانب سے مجرم قرار دے دیئے جانے والے وفاقی وزیر مذہبی امور بعد ازاں ان کیسز سے باعز ت بری نہیں ہوئے؟ جوڈیشل ایکٹوزم کو بنیاد بنا کر عدلیہ کی جانب سے انتظامی امور میں مداخلت کو جسٹس افتخار چوہدری کے بعد کوئی خاص پذیرائی نہیں حاصل ہو سکی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سپریم کورٹ کے ادارے کو آہستہ آہستہ اس بات کا ادراک ہو گیا کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہئے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے۔ کسی بھی ملزم کو انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے بغیر مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا، یہی وجہ ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری کے زمانے میں بڑی تعداد میں سو موٹو لینے کے بعد سے سپریم کورٹ نے گنے چنے واقعات میں ہی اس اختیار کا استعمال کیا ہے۔
پاکستان کا آئین سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184(3) کے تحت عوامی نوعیت کے ان مقدمات کے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار ضرور دیتا ہے جن میں کسی فرد کے ان بنیادی حقوق کو سلب کیا جا رہا ہو جن کی یقین دہانی آئین پاکستان میں کروائی گئی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ ایسا کرتے ہوئے عموماََ سرکاری محکموں کو صرف ہدایات جاری کرتی ہے۔ لیکن جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کی تفتیش کی نگرانی کے لئے سپیشل بنچ تشکیل دینے کے بعد سپریم کورٹ ایک” اَن چارٹرڈ ٹیرٹری” میں داخل ہو گئی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم کی اہلیت کے بارے میں جو فیصلہ سپریم کورٹ کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے وہ شاید عام حالات میں اس کے دائرہ اختیار سے باہر تھا۔سپریم کورٹ کی جانب سے اس کیس کی سنوائی نے ایک نیا ” پریسی ڈینٹ” ضرور سیٹ کر دیا ہے اس” پریسی ڈینٹ “کے نتائج منفی ہوں گے یامثبت یہ تو شاید آنے والے وقت ہی بتائے گا ۔
سپریم کورٹ کی ایک امریکی سکالر کے قول کے حوالے سے یہ آبزرویشن کہ ” سیاسی گند عدالتی لانڈری میں نہیں دُھلنا چاہیے” سو فیصد درست ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے لئے اپنے ادارے کے وقار اور تقدس کوبرقرار رکھنا انتہائی اہم ہے۔ مگر وہیں یہ سوال بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ اب جب یہ معاملہ عدالت میں آچکا ہے اورریاستی ادارے جن کا کام کرپشن کا سدباب کرنا ہے یہ کام انجام نہ دے رہے ہوں اور سیاسی اثر و رسوخ کے تابع ہوں تو اعلیٰ عدلیہ کے پاس مداخلت کے سواکیا آپشن باقی رہ جاتا ہے؟