اچھلتا مینڈک
از، نصیر احمد
میں نے اپنی زندگی میں بادشاہ سے زیادہ مزاح پسند آدمی نہیں دیکھا۔ وہ شاید صرف ہنسی مذاق کی خاطر زندہ تھا۔ ایک مزاحیہ کہانی سنانا اور اچھی طرح سے سنانا بادشاہ کا دل جیتنے اور انعام پانے کا بہترین ذریعہ تھا۔ اس کے ساتھ وزرا بھی لطیفہ سازی کے فن کے ماہرین تھے۔ وہ اپنے بادشاہ کی طرح فربہ اندام، چکنی مٹی سے بنے اور بے مثال مسخرے تھے۔
پتا نہیں ہنسی مذاق لوگوں کو موٹا کردیتا ہے یا فربہی میں ایسی کوئی بات ہوتی ہے کہ لوگ مائل بہ مزاح ہو جاتے ہیں۔ میں یہ بات یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دھان پان مسخرہ کم ہی ملتا ہے۔
بادشاہ شستہ جگت جسے وہ مزاح کا سایہ کہتا تھا کو سمجھنے کی مشکل میں کم ہی پڑتا تھا۔ اس کے برعکس وہ طویل اور پھکڑ لطیفوں کا زیادہ شائق تھا۔ وہ مشتاق یوسفی کی نسبت یونس بٹ سے زیادہ محظوظ ہوتا۔علاوہ ازیں شرارتوں کو جگت سے زیادہ بادشاہ کے ذوق سے مناسبت تھی۔
اس داستان کے عہد میں پیشہ ور مسخرے شاہی درباروں سے مکمل طور پر بے دخل نہیں کر دیے گئے۔ براعظم کی کئی حکومتوں نے مسخروں کو درباروں میں برقرار رکھا ہوا تھا جو شاہی دستر خوان کے ٹکڑوں سے فیض یاب ہو نے کے لیے ٹوپیوں اور گھنٹیوں سے مسلح، مختصر سے مختصر نوٹس پر اپنی طبائع کی طراری کا جادو جگانے کے لیے آن موجود ہوتے تھے۔
ہمارے بادشاہ کے پاس بھی ایک احمق ہمہ وقت حاضر تھا۔ در اصل باشاہ کو اپنی اور اپنے وزرا کی بوجھل دانائی کو متوازن رکھنے کے لیے حماقت کا کچھ سامان در کار تھا۔ بادشاہ کا یہ مسخرہ صرف مسخرہ نہیں تھا بلکہ اس کا پستہ قد اور معذوری بادشاہ کی نظروں میں سہ گنا اہمیت کی حامل تھی۔
ان دنوں بونے شاہی درباروں میں مسخروں کی طرح مقبول تھے۔ اکثر حکمرانوں کے لیے بونوں اور مسخروں کے بغیر صبح کو شام کرنا دشوار ہو جاتا تھا کہ مسخرے ان حکمرانوں کو ہنساتے تھے اور بونوں پر وہ ہنستے تھے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ سو میں ننانوے مسخرے موٹے، گول مٹول اور اول جلول سے ہوتے ہیں۔
بادشاہ کے اس مسخرے کا نام اچھلتا مینڈک تھا۔ اچھلتے مینڈک جیسے مزاح کے سہ جہتی خزانے کا مالک ہونا ہمارے بادشاہ کی خود پسندی کی تسکین کا باعث تھا۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اچھلتا مینڈک اس کا اصطباغی نام نہیں تھا بلکہ یہ نام اسے سات وزیروں کی متفقہ رائے کے بعد اسے اس کی چلنے کی معذوری کی وجہ سے دیا گیا تھا۔
اچھلتا مینڈک واقعی میں اچھل اچھل کر چلتا تھا۔ اس کی چال چھلانگ اور لہرا لہرا کے چلنے کا امتزاج تھی۔ ایسی چال جس کی دید باشاہ اور اس کے وزیروں کے لیے باعث عید تھی۔ اس پر مسخرے کا بڑھا ہوا پیٹ اور بڑا سا سر ان کا مزہ دوبالا کر دیتا تھا۔پھر بادشاہ کی خوشی دربار کی خوشی تھی اس لیے ہم سب مسخرے کی معذوریوں پہ ہنستے رہتے تھے۔
اگرچہ اچھلتا مینڈک اپنی ٹانگوں کے بھدے پن کے سبب سڑک اور فرش پر بمشکل چل سکتا تھا لیکن اس کے نچلے تن کے ضعف کی کمی اس کے اوپری عضلات کی بے پناہ قوت نے پوری کردی تھی۔ یہ قوت اس کے بازووں میں تھی جن کی مدد سے وہ طاقت کے حیران کن مظاہرے کرنے کے قابل تھا۔ اگر رسی کی مدد سے درخت یا کسی اور اونچے مقام پر چڑھنے کا مسئلہ درپیش ہو تو اس کی یہ قوت کام آتی تھی۔اس قسم کی مشقوں کے دوران وہ مینڈک کی بجائے گلہری اور بندر سے زیادہ مشابہ دکھائی دیتا۔
میں پورے یقین سے تو نہیں کہ سکتا مگر سنا ہے کہ وہ ہمارے بادشاہ کی سلطنت کے کسی دور دراز قبائلی علاقے کا باشندہ تھا۔ وہ اور اس سے ذرا کم ایک بونی لڑکی ان قبائلی علاقوں میں واقع اپنے گھروں سے جبری طور پر بے دخل کر دیے گئے تھے۔ اور بادشاہ کے کسی سپہ سالار نے بادشاہ کی خدمت میں تحفے کے طور پر پیش کیے تھے۔ وہ لڑکی متناسب اعضا کی حامل ایک ماہر رقاصہ تھی۔
مسخرہ اور وہ بونی لڑکی اپنے برے حالات کی وجہ سے ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے تھے اور ایک دوسرے کے قریبی دوست بن گئے تھے۔ اچھلتے مینڈک کے تماشے بھی ہم لوگوں کو بہت پسند تھے مگر اس بونی لڑکی ٹرپٹا کی خدمت کرنے نے مسخرے کو ہر دلعزیز بنا دیا تھا۔ کیونکہ بونی ہونے کے باوجود ٹرپٹا اپنے بے پناہ حسن کے باعث شہر میں بہت پسندیدہ تھی۔
ٹرپٹا بھی بڑے اثرو رسوخ کی مالک تھی۔ اور اچھلتے مینڈک کے لیے اپنے تعلقات استعمال کرنے سے کبھی بھی نہیں چوکتی تھی۔جب بھی اسے موقع ملتا۔
ایک ریاستی تہوار کے موقع پر، جس کا نام میں بھول گیا ہوں، بادشاہ نے نقاب پوشوں کے تماشے کی ٹھانی۔ اور جب بھی دربار میں نقاب پوشوں کے تماشے یا اس قسم کے کسی اور جشن کا انعقاد ہوتا ، اچھلتے مینڈک اور ٹرپٹا کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے لیے ضرور بلایا جاتا۔
خاص طور پر اچھلتا مینڈک جلسہ جلوس نکالنے، نت نئے کردار تجویز کرنے اور نوٹنکی کی شان بڑھانے کے لیے ان کرداروں کے ملبوسات کی آرائش کرنے کے معاملے میں ماہر تھا۔ اس کی مدد کے بغیر نقاب پوشوں کا ناچ تقریبا نا ممکن تھا۔
پھر جشن کی مقررہ شب آ پہنچی۔ ٹرپٹا کی زیر نگرانی ایک شاندار ہال نقاب پوشوں کے ناٹک کا تاثر فزوں کرنے کے لیے ہر ممکن آرائشی سامان سے سجایا گیا۔ جہاں تک ملبوسات اور کرداروں کا تعلق ہے، ہر کسی کو یہ اندازہ تھا کہ معاملات طے ہو چکے ہیں۔ اکثر اداکاروں نے اپنے کرداروں کا ہفتوں اور بعض صورتوں میں مہینوں پہلے اپنے کرداروں کا انتخاب کر لیا تھا۔ درحقیقت بادشاہ اور اس کے وزیروں کے علاوہ کسی کو اس معاملے میں ذرہ برابر بے یقینی نہیں تھی۔
پتا نہیں کیوں بادشاہ اور اس کے وزیروں نے اس معاملے میں حصہ ڈالنے میں تاخیر کر دی تھی۔ ان کے تامل کی وجہ شاید ان کی مذاق پسند طبیعتوں سے شاید جڑی ہو۔ قرین قیاس تو یہی ہے کہ ان کے جسموں پر چڑھی ہوئی چربی باعث تاخیر تھی۔بہرحال ہر کام احسن طریقے سے انجام پایا تو انھوں نے اچھلتے مینڈک اور ٹرپٹا کو دربار میں بلوا لیا۔
جب دونوں دوست شاہی فرمان کی بجآوری کے لیے دربار میں داخل ہوئے تو بادشاہ اور وزیر مے نوشی کی نشست گاہ پر براجمان تھے۔ لیکن بادشاہ کی طبیعت بہت منغض معلوم ہوتی تھی۔
بادشاہ جانتا تھا کہ اچھلتا مینڈک شراب نوشی کو ناپسند کرتا تھا کیونکہ اسے اپنے حواس کھونا اچھا نہیں لگتا تھا۔ ویسے بھی پاگل پن کا احساس اتنا سکوں خیز احساس تو ہوتا نہیں۔ مگر چونکہ بادشاہ شرارتوں کا دلدادہ تھا اس لیے اچھلتے مینڈک کو شراب پلا کر وہ حظ اٹھایا کرتا۔
ادھر آو اچھلتے مینڈک، جونہی مسخرہ اور اس کی دوست نشست گاہ میں داخل ہوئے، بادشاہ نے کہا۔اور اپنے غیر حاضر دوستوں کا جام صحت نوش کرو۔ اس بات پر اچھلتے مینڈک نے آہ بھری۔ بادشاہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ اور ہمیں اپنی خلاقی سے لطف اندوز کرو۔ ہمیں کردار چاہییں، معمول سے ہٹ کرنئے کردار۔ اس ازلی یکسانیت سے ہم بیزار ہو چکے ہیں۔ آو، پیو، شراب تمھاری طرار طبع کو چار چاند لگا دے گی۔
اچھلتے مینڈک نے بادشاہ کے اس حملے کو ایک برجستہ فقرے سے ٹالنے کی کوشش کی مگر اس کی کوشش بار آور ثابت نہ ہوئی۔اس دن بدقسمتی سے اچھلتے مینڈک کی سالگرہ بھی تھی۔ اور اپنے کھوئے ہوئے دوستوں کی یاد میں جام نوش کرنے کا حکم سنتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔اس نے جب ظالم حکمران کے ہاتھوں سے پیالہ لیا تو اس کے آنسو پیالے میں گر گرہے تھے۔
ہا ہا،ہاہا، بادشاہ گرجا جیسے ہی اچھلتے مینڈک نے بادل نخواستہ شراب حلق میں انڈیلی۔ دیکھا، اس جام کا کرشمہ دیکھا۔ تیری آنکھیں چمک اٹھی ہیں۔
بے چارہ، اچھلتا مینڈک، اس کی بڑی بڑی آنکھیں چمکنے کے بجائے وفور غم سے چندھیا سی گئی تھیں۔ شراب کا اس کے جوشیلے دماغ پر تھوڑا بہت تو اثر ہو ہی گیا تھا۔اس نے پیالہ میز پر رکھ دیا اور اہل مجلس کو پاگلوں کی طرح گھورنے لگا۔
ساری محفل بادشاہ کی کامیاب شرارت پہ مسرور تھی۔ اب کام کی بات، وزیر اعظم نے کہا جو کہ ایک موٹا تازہ شخص تھا۔
ہاں ، بادشاہ نے کہا- اچھلتے مینڈک، آؤ، ہماری اعانت کرو۔ پیارے ہم سب کو کردار درکار ہیں۔ ہا ہا ہا ہا
چونکہ یہ قہقہہ داد کے لیے لگایا گیا تھا، اس لیے سات وزیروں نے ہم آہنگ ہو کر، بادشاہ کا ساتھ دیا۔ اچھلتا مینڈک کمزور اور کھوکھلی سی ہنسی ہنس دیا۔
آؤ، آؤ، بادشاہ نے بے صبری سے کہا۔ کیا تمھارے پاس کوئی نئی تجویز نہیں ہے؟
میں ایک نئی چیز کھوجنے کی فکر میں ہوں۔ بونے نے کسی قدر غائب دماغی سے جواب دیا۔
کھوج، بادشاہ غصے میں چلایا۔ کیا مطلب ہے تمھارا۔ ہاں، اب میں سمجھا تمھیں مزید شراب کی طلب محسوس ہو رہی ہے۔ اور بادشاہ نے ایک اور جام بھر کر لنگڑے کو پیش کردیا۔ اس نے نظر بھر کر شراب کی طرف دیکھا اور لنگڑے کی سانسیں اٹکنے لگیں۔
میں کہتا ہوں پیو ۔ کسی عفریت کی طرح بادشاہ چیخا۔ ورنہ شیطانوں کی قسم۔
بونا ہچکچا گیا۔ بادشاہ کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا۔ اور درباری طنزیہ مسکرانے لگے۔لاش کی طرح زرد ٹرپٹا بادشاہ کی نشست کی طرف بڑھی اور گھٹنوں کے بل جھک کر اپنے دوست کی جاں بخشی کے لیے بادشاہ سے التجائیں کرنے لگی۔
ٹرپٹا کی اس بدتہذیبی پر بادشاہ نے اس کی طرف حیرانی سے دیکھا۔ظاہر تھا کہ بادشاہ سے بن نہیں پڑ رہا کہ کیا کرے، کیا کہے جو اس کی نفرت اور توہین کا بھرپور اظہار کر سکے۔بلآخر اس نے کوئی لفظ کہے بغیر، ٹرپٹا کو دور دھکیلا اور لبالب پیالہ ٹرپٹا کے چہرے پر لوٹ دیا۔
بے چاری لڑکی تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس میں آہ بھرنے کا بھی یارا نہ تھا۔ اور میز کے ایک کونے پر اپنی مقررہ جگہ پر جا کے بیٹھ گئی۔کوئی ڈیڑھ منٹ تک ماحول پر موت کا سا سکوت چھایا رہا۔جس کے دوران اگر کوئی پر یا پتا بھی گرتا تو اس کی بھی آواز سنی جاتی۔ اس سکوت کو ایک مدھم، کرخت اور کٹی پھٹی غراہٹ نے توڑا جو بیک وقت نشست گاہ کے ہر گوشے سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
تم کس لیے شور مچارہے ہو۔ بادشاہنے خفگی سے بونے کی طرف مڑتے ہوئے استفسار کیا۔ بونے نے کافی حد تک اپنے اوسان بحال کر لیے تھے۔ اس نے بادشاہ پر معصومیت سے آنکھیں گاڑ کر کہا۔ میں، میں، میں یہ گستاخی کیسے کر سکتا ہوں۔
یہ آواز کہیں بار سے آئی ہے۔ ایک درباری نے خیال ظاہر کیا۔شاید کسی توتے نے کھڑکی کے باہر اپنے پنجرے سے چونچ رگڑی ہے۔
درست۔ بادشاہ کو جیسے اس رائے نے طمانیت بخشی۔مگر جنگجووں کی عزت کی قسم، یہ اسی آوارہ کے دانت پیسنے کی آواز ہے۔اس پر بونا کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ باشاہ ایک مسلم مزاح پرست تھا اس لیے اسے ہنسی پر اعتراض نہ ہوتا تھا۔ بونے نے اپنے بھدے اور مضبوط دانتوں کی نمائش کی اور رضائے شاہی کی تکمیل تک شراب چڑھانے کا عندیہ دے دیا۔اس کی فرمان برداری نے بادشاہ کو شانت کر دیا۔ایک اور پیالہ گلے میں اتارنے کے بعد اچھلتا مینڈک جوش و خروش کے ساتھ نقاب پوشوں کے ناٹک کی منصوبہ سازی میں مصروف ہو گیا۔
اور ایسی چابک دستی جیسے اس نے کبھی شراب پی ہی نہ ہو۔ بونے نے کہا۔ میں یہ تو بتا نہیں سکتا کہ کس بنا پر یہ خیال میرے ذہن میں آیا لیکن جونہی عالم پناہ نے لڑکی کو دھکیلا اور اس کے چہرے پر شراب لوٹ دی، جیسے عالم پناہ نے یہ سب کچھ کیا اور جب توتا کھڑکی کے باہر بے کار کا واویلا کر رہا تھا تب میرے ذہن میں ایک عظیم الشان عام ڈگر سے ہٹا ہو یہ خیال آیا۔میرے وطن کے لوک ورثہ میں سے نقاب پوشوں کا ایک ناٹک ہم لوگ اکثر کھیلا کرتے تھے مگر یہاں پر وہ کھیل نیا ہو گا۔ شومئی قسمت اس کھیل کے لیے آٹھ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہم آٹھ ہی تو ہیں۔ بادشاہ نے اپنی اس اتفاقی دریافت پر ہنستے ہوئے کہا۔ پورے آٹھ ہیں، میں اور میرے سات وزیر۔
ہم اس کھیل کو آٹھ زنجیر بستہ بن مانسوں کا کھیل کہتے ہیں۔ یہ ایک اعلی تفریح ہوتی ہے اگر ٹھیک طرح سے ادا کی جائے۔
ہم اسے نبھاہیں گے بادشاہ نے اٹھے ہوئے پلکیں جھپکا کر کہا۔
کھیل کی خوبصورتی۔ اچھلتے مینڈک نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، اس دہشت میں ہے جو یہ کھیل خواتین کے دلوں میں پیدا کرتا ہے۔
شاندار، بادشاہ اور اس کے وزیر ایک ساتھ گرجے۔
میں آپ صاحبان کو بن مانس بنا دوں گا، بونے نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ یہ سب آپ مجھ پر چھوڑ دیں، مشابہت اتنی عمدہ ہو گی کہ باقی نقاب پوش ناٹکی آپ کو صیحیح معنوں میں درندے سمجھنے لگیں گے۔ وہ بہت زیادہ خوفزدہ ہو نے کے ساتھ ساتھ حیران بھی رہ جائیں گے۔
اعلی، بہت اعلی، بادشاہ نے جوش سے کہا، اس کھیل کے صلے میں اچھلتے مینڈک میں تمھیں انسان بنا دوں گا۔
زنجیریں اپنی چھنکاہٹ سے ابہام بڑھانے کے مقصد کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ آپ لوگ اپنے نگرانوں سے بھاگے ہوئے قیدیوں کا کردار ادا کریں گے۔ عالم پناہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ نقابوں کے ناٹک کے موقع پر، آٹھ بن مانس جن کو بیشتر لوگ اصلی جانتے ہوں، کیسا تاثر پیش کریں گے۔ وحشیانہ چیخوں کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہوئے، نفیس اور نازک لوگوں کے درمیاں۔ یہ تضاد تو ناقابل نقل ہے۔
ضرور ضرور اور مجلس مشاورت برخاست ہوئی تاکہ اچھلتے مینڈک کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ کیونکہ دیر ہوتی جارہی تھی۔
بونے کا اس منڈلی کو بن مانس بنانے کا طریقہ بہت سادہ لیکن اس کے مقاصد کے حصول کے لیے کافی تھا۔اس طرح کے حیوان مہذب دنیا میں جس وقت میں نے یہ کہانی لکھی تھی شاذ و نادر ہی دکھائی دیتے تھے۔چونکہ کرداروں کو مناسب طرح سے درندوں کی طرح بنایا گیا تھا۔ بہت زیادہ بھیانک بھی۔ اسی طرح سے فطرت کے حقائق کو درست طریقے سے پیش کرنے کی سعی کی گئی تھی۔
بادشاہ اور اس کے وزیروں کو تنگ ، بھاری قمیصوں اور چوڑی دار پائجاموں میں ملفوف کر دیا گیا۔ پھر ان کے جسموں پر تارکول پھیلا دی گئی۔ اس موقعے پر منڈلی کے ایک رکن نے پروں کی فرمائش کی جو بونے نے مسترد کر دی۔ اور عملی مطاہرے سے ان سب لوگوں کو قائل کر لیا کہ وحشیوں پر فلیکس کے پودوں کے ریشوں سے بنے ہوئے بال زیادہ سجتے ہیں۔تارکول کی تہہ پر فلیکس کی گھنی تہہ جما دی گئی۔ ایک لمبی زنجیر لائی گئی۔ پہلے بادشاہ کی کمر سے یہ زنجیر گزاری گئی اور پھر دوسروں کو اسی طریقے اس زنجیر سے منسلک کر دیا گیا۔
جب یہ زنجیری انتظام مکمل ہوا اور گروہ کے اراکین جو ایک دوسرے سے دور کھڑے تھے ، دائرے کی شکل میں ایک دوسرے کے قریب آگئے تا کہ تماشہ اصلی لگے۔ تب اچھلتے مینڈک نے زنجیر کو محور دونوں سمتوں سے صیحیح زاویوں میں سے گزار دیا۔ ویسے ہی جیسے آجکل ہم لوگ لنگور اور چمپینزی پکڑتے ہیں۔
جس تفریح گاہ میں یہ تماشا منعقد ہونا تھا وہ درحقیقت دائرے کی شکل میں اونچی چھت والا ایک کمرہ تھی۔اس تفریح گاہ میں روشنی صرف بالائی کھڑکی سے اندر داخل ہو سکتی تھی۔رات کے جشن کے لیے تیار کردہ یہ کمرہ ایک بڑے فانوس سے روشن کیا جاتا تھا۔یہ فانوس کمرےکے وسط میں ایک آہنی ڈوری سے بندھا ہوا تھا۔اس ڈوری کی مدد سے فانوس کو اوپر نیچے کیا جا سکتا تھا۔ مگر اس ڈوری کا سرا چھت کے اوپر تھا۔
کمرے کے انتظامات کی نگرانی کے لیے ٹرپٹا کو مقرر کیا گیا تھا مگر چند خاص اوامر میں اسے اپنے بونے دوست کی متواز قوت فیصلہ کی رہنمائی حاصل تھی۔بونے کے مشورے پر اس جشن کے موقع پر فانوس ہٹا دیا گیا تھا کیونکہ اس فانوس میں رکھی موم بتیوں کا پگھلتا موم مہمانوں کے لباس خراب کر سکتا تھا۔ ان مہمانوں کو بھیڑ کے باعث فانوس کے عین وسط سے دور رکھنا نا ممکن تھا۔اور اس گرم موسم میں موم نے تو پگھلنا ہی تھا۔
ہال کے مختلف حصوں میں گزرگاہوں سے ذرا پرے روشنی کرنے کے دیگر ذرائع کام میں لائے گئے تھے۔ دیوار کے ساتھ خواتین کے مجسموں سے بنے ساٹھ ستر ستونوں میں بڑی بڑی شمعیں جلا دی گئی تھیں۔
آٹھوں بن مانسوں نے اچھلتے مینڈک کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ہال کے کھچا کھچ بھرنے کا بڑے صبر سے انتظار کیا۔ جیسے ہی گھنٹال کی بازگشت معدوم ہوئی وہ ہال میں گرتے پڑتے گھس آئے۔ اصل میں زنجیروں کی بندش نے انھیں لڑکھڑا دیا تھا اور وہ ہال میں آتے ساتھ گر گئے تھے۔
نقاب پوش رقاصوں میں ولولہ بہت تھا اور اس ولولے نے بادشاہ کو بہت مسرور کیا۔بیشتر مہمان اس دہشت انگیز مخلوق کو فی الحقیقت کسی نوع کے درندے سمجھ بیٹھے تھے۔ بن مانس نہ سہی۔ اکثر خواتین تو خوف سے بوکھلا گئی تھیں۔ اگر بادشاہ نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ہال سے ہتھیا اٹھوا نہ لیے ہوتے تو اس منڈلی کے کپڑے ان کے اپنے ہی خون سے رنگین ہو جاتے۔
توقع کے مطابق بوکھلایا ہوا یہ ہجوم بیرونی دروازے کی طرف بھاگا۔ لیکن بادشاہ نے دروازے مقفل رکھنے کا انتظام کر لیا تھا۔ اس نے اپنی آمد کے بعد بونے کے مشورے پر چابیاں اس کے پاس رکھوا دی تھیں۔ جب یہ افراتفری انتہا تک پہنچ گئی اور ہر ناٹکی کو اپنی جان کے لالے پڑگئے اور وہ ڈوری جس سے فانوس لٹکا ہوتا تھا، وہ فانوس ہٹانے کے بعد اوپر کھینچ لی گئی تھی۔ اس ڈوری کو کسی نے آہستگی سے نیچے کھینچ لیا۔ حتی کہ اس کا کنڈا فرش سے صرف تین فٹ اوپر رہ گیا۔
اس کے فورا بعد بادشاہ اور اس کے رفقا جو ہر سمت میں دھما چوکڑی مچا رہے تھے زنجیر کے ساتھ ٹکراتے ہوئے ہال کے وسط میں داخل ہوئے۔ اور بونا انھیں ہنگامے پہ اکسا رہا تھا۔ جب وہ ڈوری کے ساتھ لگے کھڑے تھے تو بونے نے اس دوسری زنجیر جس کے ساتھ وہ بندھے تھے، زنجیر کا وہ حصہ تھام لیا جو دائروں کو کاٹتے ہوئے درست زاویوں کا مرکز تھا۔ بونے نے بڑی پھرتی سے فانوس والی زنجیر کا کنڈا اس زنجیر میں ڈال دیا جس میں وہ بندھے تھے اور کسی ان دیکھی قوت نے فانوس والی زنجیر کو اوپر اٹھا لیا۔ جس کے نتیجے میں آٹھوں بن مانس زنجیر میں لپٹے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے آ گئے۔
دوسرے نقاب پوش ناٹکی اپنی ابتری سے تھوڑا بہت سنبھل چکے تھے۔ اور پورے معاملے کو ایک سوچی سمجھی تفریح جاننے لگے تھے۔ انھوں نے بن مانسوں کی حالت زار پر قہقہے لگانے شروع کر دیے تھے۔
انھیں مجھ پر چھوڑ دو۔ اچھلتا مینڈک چیخ اٹھا، انھیں میں دیکھتا ہوں۔ میرا خیال ہے انھیں میں جانتا بھی ہوں۔ اگر میں ام کا بنظر غور جائزہ لے سکا تو جلد بتا بھی دوں گا یہ کون لوگ ہیں؟
یہ کہتے ہوئے وہ تماشائیوں کے سروں پر سے کودتے پھاندتے دیوار تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ ستونی مجسموں سےایک مشعل اٹھائے وہ کمرے کے وسط میں پہنچ گیا۔ وہ ایک بندر کی سی تیزی سے بادشاہ کے سر پر سے اچھلا اور چند فٹ اونچی زنجیر پر چڑھ گیا۔ اس نے آٹھ بن مانسوں کے چہرے دیکھنے کے لیے مشعل جھکائی اور چیخا ، میں جلد ہی پتا چلا لوں گا کہ یہ کون ہیں؟
اب جبکہ بشمول بن مانسوں کے سارا مجمع ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا تھا، بونے نے ایک تیز سیٹی بجائی، سیٹی بجنے کے ساتھ ہی زنجیر فرش سے تیس فٹ اوپر کھنچ گئی۔ اور چھت والی اس زنجیر کے ساتھ پریشاں، ہاتھ پیر مارتے بن مانس بھی اوپر اٹھ گئے۔ پھر زنجیر ان بن مانسوں کو فرش اور چھت کے پیچ لٹکا کر ٹھہر گئی، اچھلتا مینڈک بھی ابھی تک زنجیر سے چمٹا ہوا تھا لیکن وہ بن مانسوں سے کافی فاصلے پر تھا۔ ابھی تک وہ ان پر مشعل کی روشنی بھی پھینک رہا تھا جیسے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ اور انھیں پہچاننے کی کوشش کا ڈھونگ بھی کر رہا تھا۔
لیکن بن مانسوں اور بونے کی اس اچانک پرواز پر سارا ہجوم کچھ دیر سے موت کی خاموشی سے دوچار رہا۔ اس خاموشی کو ایک مدھم، کرخت غراہٹ نے توڑا۔ ایسی ہی غراہٹ بادشاہ اور اس کے وزیروں نے اس وقت سنی تھی جب بادشاہ نے ٹرپٹا کے چہرے پر شراب انڈیل دی تھی۔ لیکن اس بار اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ آواز کہاں سے آئی تھی۔
یہ آواز بونے کے نکیلے دانتوں سے آئی تھی جس نے منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے بن مانسوں پر دانت پیسے تھے۔ ساتھ ہی بونے نے بادشاہ اور اس کے ساتوں احباب کے اوپر اٹھے ہوئے چہروں پر ایک قہر آلود نظر بھی ڈالی۔ غضب کی جنونی کیفیت سے بھرپور نگاہ۔
ہاہ ، غضب ناک مسخرے نے کہا، اب میں ان لوگوں کے چہرے دیکھ سکتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے بادشاہ کے چہرے کو قریب سے دیکھنے کا چھل کرتے ہوئے اس نے مشعل سے فلیکس کی تہہ کو آگ دکھا دی جس نے بادشاہ کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔
ایک زوردار دھماکے سے دھڑا دھڑ شعلے جلنے لگے۔ آدھ منٹ کے وقفے کے بعد بن مانس بری طرح جلنے لگے، تماشائیوں کی چیخوں کے درمیان جو نیچے سے ان کی سمت ایک دہشت کے عالم میں گھرے ہوئے دیکھ رہے تھے مگر وہ بن مانسوں کی کچھ مدد نہ کر سکتے تھے۔
اب میں واضح طور پر دیکھ سکتا ہوں کہ یہ بن مانس کس قسم کے انسان ہیں۔ اچھلتے مینڈک نے کہا، یہ ایک بادشاہ اور اس کے سات وزیر ہیں، ایک بادشاہ جو ایک مجبور لڑکی کو پیٹتا ہے اور جسے طیش کے عالم میں خوف خدا نہیں ہوتا۔ اور سات وزیر جو اس بادشاہ کے اشتعال کو ہوا دیتے ہیں۔ اور میں تو آپ جانتے ہی ہیں ایک اچھلتا مینڈک ہوں، ایک مسخرہ، امید ہے کہ آپ نے میرے اس آخری تماشے سے خوب لطف اٹھایا ہو گا۔
بونے نے اپنی مختصر تقریر ختم کی ہی تھی کہ تارکول اور فلیکس کی زود سوختگی نے انتقام کا یہ کھیل تمام کر دیا۔آٹھ لاشیں ، اپنی زنجیر پہ جھول رہی تھیں۔ ایک وحشت خیز، سیاہی آلود، ناقابل شناخت انبار۔
لنگڑے نے مشعل پھینکی، چھت پر چڑھ کے کھڑکی کے راستے یہ جا وہ جا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس رات ٹرپٹا بھی چھت پر موجود تھی اور بونے کی آتش انتقام کی شریک کار تھی۔ اور دونوں اپنے ملک طرف فرار ہو گئے تھے۔ کیونکہ پھر انھیں کسی نے نہیں دیکھا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.