حر ثقلین
زندگی انفرادی ہو یا قومی اس کا مقصد ضرور ہونا چاہیے۔ مقصد کے بغیر زندگی فضول اور بے معنی ہے جس کا کوئی مقصد نہیں اس کا کوئی مستقبل نہیں ۔کامیاب زندگی گزارنے کے لیے مقصد کا تعین ضروری ہے اور یہی بات قوم کے لیے ہے جن قوموں نے ترقی کی ،دنیا میں بلند مقام حاصل کیا اور تاریخ میں اپنا آپ منوایا انہوں نے اپنے مقصد اور نصب العین کا تعین ضرور کیا اس کے بغیر انسان نہ ترقی کی راہ پر سفر کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی قوم بلند مقام حاصل کر سکتی ہے۔
پاکستان کے قیام کا مقصد صرف اور صرف ایک فلاحی ریاست کے سوا کچھ نہ تھا قائداعظم کی وفات کے بعد قوم کو اس کے نصب العین اور مقصد سے دور کر دیا گیا وہ سفر جو 1940میں شروع ہوا تھا اور اس کی منزل کا تعین بھی کیا جا چکا تھا ،وفات قائد پہ آکے رک گیا اب پاکستانی قوم کی حالت ایک بھٹکے ہوئے کاروان کی سی ہے جس کی نہ تو کوئی منزل ہے اور نہ ہی کوئی نصب العین ہے سول اور ملٹری بیوروکریسی نے اس کا خوب استحصال کیا مذہبی رہنماؤں نے فرقہ واریت کو ہوا دے کر قوم کو منتشر کرنے میں اہم کردار ادا کیا سیاست دان مصلحت اور مفاہمت کا شکار رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج عام آدمی پریشان اور فکر مند ہے نہ اسے کوئی مخلص رہبر میسر ہے اور نہ ہی کوئی سنجیدہ رہنماء موجود ہے جو اس قوم کے لیے پھر سے منزل کا تعین کرے اور یہ کارواں پھر سے جانب منزل رواں دواں ہو۔
آج ہر پاکستانی کا نصب العین ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل کے سوا اور کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت فلاحی معاشرہ بن سکتا ہے جب اس میں عادلانہ نظام موجود ہو۔نظام عدل کی بنیاد پر قائم معاشرہ ہی فلاحی معاشرہ ہو سکتا ہے۔ اس بہت بڑی کائنات کا نظام بھی عدل پر قائم ہے عدل کی تعریف یہی ہے کہ جو چیز جس مقام کے لیے ہے اسے اسی مقام پر رکھا جاے اور جس کا جو کردار متعین ہے وہ وہی کردار ادا کرے یہی وجہ ہے کہ کائنات کا ہر جزو اپنے اپنے مدار میں متعین کردہ کردار ادا کرنے میں مصروف ہے اگر کوئی ایک ذرہ بھی اپنے مدار اور کردار سے تجاوز کرے تو اس کائنات میں تغیر رونما ہو گا اور اسی کو قیامت کہا گیا ہے۔ لہٰذا بغیر عدل کے معاشرہ قیامت خیز ہی ہو گا عدل کی ضد ظلم ہے اگر عدل نہ ہو گا تو پھر ظلم کا راج ہو گا۔
ہمارے معاشرے میں جو اس قدر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ عدل موجود نہیں ہے۔ عدل کا ایک محدود اور عامیانہ تصور لوگوں میں پایا جا تا ہے عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ صرف عدالتوں اور اداروں کا کام انصاف کرنا اور عدل قائم کرنا ہے عام آدمی کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے یہ تصور انتہائی خطرناک اور تباہ کن ہے۔ اگر عام آدمی اپنے آپ کو نظام عدل سے بری سمجھنے لگے تو پھر ظلم ہی پروان چڑھے گا آج کل دنیا میں بڑے پر امن طریقے سے ظلم ہو رہا ہے۔
ہمارا دل صرف خدا کا گھر ہے اگر اس دل میں خدا کے سوا کوئی موجودہو تو کیا یہ ظلم نہیں ہے ؟یہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ جس کا جو مقام ہے اسے اسی پر رکھا جاے تو کیا یہ ظلم نہ ہو گا کہ ہم خدا کے سوا کسی اور کو اپنے دل میں جگہ دیں توحید پرستی میں ہی ہماری بقاء ہے۔ خالق کے بنائے ہوئے قوانین سے انحراف ظلم ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کی عام انسان کو بھی عدل اپنانا ہو گا اور خود عادل بننا ہو گا اپنے فرائض کا ادا کرنا اور اپنے حق سے تجاوز نہ کرناہی عدل ہے آج اگر عام پاکستانی کے کردار کا جائزہ لیا جاے تو بیگاڑ کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ سڑک پر رھیڑی یا ٹھیہ لگا کر مال بیچا جاتا ہے اور اس کمائی کو بھی حلال کہا جاتا ہے۔ دوسروں کے رستے میں رکاوٹ ڈال کر کونسا اچھا کام کیا گیا ہے۔
یہی حال دکانداروں کا ہے ملاوٹ ،ذخیرہ اندوزی ،ناپ تول میں کمی کیا ان کے کردار میں متعین ہے؟ اگر نہیں تو وہ ظلم کرتے ہیں نہ کہ عدل ۔ملازمین کا دفتر دیر سے جانا اور مقررہ وقت سے پہلے رخصت ہو جانا بھی خلاف عدل ہے فرائض سے کوتائی برتنا بھی خلاف عدل ہے۔ ان کے متعین کردہ کردار میں یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ ہڑتالیں کریں دھرنے دیں اور لوگوں کو پریشان کریں کیا یہ ظلم نہیں کہ ملازمت کے حصول کے لیے ہر جائز و نا جائز حربہ اختیار کیا جاتا ہے آنکھیں بند کر کہ معاہدہ ملازمت پہ دستخط کر دیے جاتے ہیں مگر جوں ہی ملازمت پکی ہوئی اپنے حقوق یاد آنے لگ جاتے ہیں فرائض سے غفلت برت کر ہڑتالیں کی جاتی ہیں مظاہرے ہوتے ہیں۔
ملک میں ایک عرصہ سے ڈاکٹر بھی ہڑتالیں کر رہے ہیں جس کی بدولت مریض ہسپتالوں میں مر رہے ہیں لوگ برباد ہو رہے ہیں ڈاکٹروں کا مطالبہ ہے کہ ان کی ملازمت کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا جاے یہ ایک درست مطالبہ ہے مگر کیا اس مطالبے کو منوانے کے لیے لوگوں کی جانوں سے کھیلنا لازمی ہے اگر آپ کو شرائط ملازمت پسند نہیں تو اسے خیر آباد کہہ دیں یا احتجاج کرنا ہی ہے تو ڈیوٹی کے اوقات کے بعد احتجاج کریں قوانین کے مطابق سرکاری ملازمین ہڑتال پر نہیں جا سکتے ہیں اور قانون کی خلاف ورزی عدل کی خلاف ورزی ہے تمام ایسے ملازمین کو غور کرنا چاہیے کہ خلاف عدل کام کرنے سے کہیں وہ ظلم تو نہیں کر رہے یہ ایک بڑا حساس اور نازک مسئلہ ہے ہر آدمی کو اس پر توجہ دینی ہو گی حکومت اور اس کے اداروں، سیاستدانوں، مذہبی رہنماؤں اور ہر فرد کو اپنے متعین کردہ کردار کے اندر رہ کر ہی کام کرنا ہو گا اپنے حق اور کردار سے تجاوز ظلم کی طرف قدم ہو گا۔
وکلاء کی آئے روز ہڑتالیں بھی کئی سوالات کو جنم دیتی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ آج قوم کے ہر فرد کا نصب العین عدل ہونا چاہیے ایک عادلانہ نظام ہی اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا مقصد ہواور بغیر عدل کہ نہ فرد ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی قوم مقام عروج حاصل کر سکتی ہے ۔زندگی کا حسن و جمال اور زیبائش عدل کی بنیاد پر ہے جہاں اس عدل میں خلل پیدا ہو گا وہاں اس زندگی کا چہرہ بگڑ جائے گا ۔حسن ختم اور زندگی کا مزہ مقدر ہو جاے گا گویا لطف زندگی عدل ہے اور یہی مقصد حیات ہے اور اگر عدل نہیں تو ظلم ہے اور ظالم پر خدا کی لعنت ہے۔