ریاست ہماری ماں ہے، اس سےمنصفی؟

درد کے مارے کس سے منصفی مانگیں؟

دھرتی ماں

(ذوالفقارعلی)

تو کیسی ماں ہے؟ تیرے بچے بدحال ہیں۔ نڈھال ہیں نہ کوئی تسلی نہ دلاسا۔ ماں تُو کب میرے درد کا درماں کریگی۔ کب مُجھے اپنی جھولی میں بٹھا کے پیار دیگی میرا تحفظ کریگی۔ ماں 70 سالوں سے ہماری تین نسلیں تیرے پیار کو ترس گئیں۔ تیرے ہوتے ہوئے ہم مرتے رہے، غربت جھیلتے رہے، اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہے۔ تو کب ماں جیسی بنے گی کب ہم دریدہ دامن تیرے وجود سے اپنی درماندگی کو ڈھانپ سکیں گے؟ کب تیرے بچے ایک دوسرے کے درد کو سمجھیں گے اور ایک دوسرے کیلئے آسانیاں پیدا کریں گے۔ ماں بہت ہو چُکا اب اپنی کوکھ سے کرپٹ، فرقہ پرست، دہشت گرد، اقربا پرور، اناپرست، غنڈے، عقل کے بانجھ، جنونی اور کم ظرف جننا بند کر دے۔ ماں اب ان سب کے ہوتے ہوئے تیرا پیار پانا ناممکن ہے۔

ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے؟

بہت ہو چُکا یار۔ ماں تو ہم سب کی ایک ہی ہے نا۔ پھر ہم سب کی خوشیاں سانجھی کیوں نہیں ہیں؟ تُم اپنا کیوں سوچتے ہو۔ اپنی نظر کرم لاچاروں پر بھی کر لو۔ ہم سب مل کے ماں کو بچا سکتے ہیں۔ اپنی ذمہ داریاں لوگوں میں بانٹ دو، ہم پہ اعتبار کرو۔۔ اچھے اور بُرے فیصلے میں ہم عامیوں کو بھی شریک کرو جب تک اندر سے اتفاق نہیں ہوگا، اعتبار نہیں ہوگا، پیار نہیں ہو گا تو ہم باہر کے دُشمنوں سے کیسے لڑ سکتے ہیں؟ ہماری لڑائی بھوک سے ہو، غربت کم کرنے سے ہو، علم و دانش کو پروان چڑھانے سے ہو، وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے سے ہو۔۔ تبھی ہماری جنگ کارگر ہوگی۔۔ جنگی مائنڈ سیٹ سے سیاسی، معاشی اور سماجی مسئلے کا حل نہ تو کبھی ڈھونڈا جا سکا ہے نہ ڈھونڈا جا سکتا ہے۔۔ زبان بندی سے، جبری گُمشدگیوں سے اور غیر آئینی اقدامات سے بھلا کب مسائل کا حل نکالا جا سکا!

سول بیوروکریسی سے؟

یار تُم بھی کیسی دوغلی مخلوق ہو۔ ساری زندگی کمزور کو دبانے میں اور طاقتور کو رام کرنے میں گُزارتے ہو۔ یہ بھی ایک قسم کی غلامی ہے۔ چھوڑو ایسی بے کار زندگی کو جس میں آزادی نہ ہو۔ تُم اگر یہ سمجھتے ہو کہ موجودہ حکمت عملی سے تم اپنے آپ کو محفوظ کر لو گے تو یہ تمہاری بھول ہے۔۔ معاشرہ ایسی کھیتی ہے جو اجتماعی طور پر اُگائی اور کاٹی جاتی ہے۔۔ ہم جس جانب بڑھ رہے ہیں وہاں تُم بھی بچ نہیں پاوگے۔۔ سمٹ جاؤ گے اپنے اپنے غیر محفوظ قلعوں میں۔ ویسے بھی قلعوں میں رہنے والوں کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے۔۔ بالکل زنداں جیسی۔

انسانی حقوق کے اداروں سے؟

پاک وطن میں انسانی حقوق کے ادارے بھی کمزور ہیں۔ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ بھی اسی مٹی کے نہیں ہیں۔ وہ بے چارے ہجرت کرکے یہاں آئے اور اپنے نحیف و ناتواں کندھوں پر انسانی حقوق کا بھار اُٹھا کے زندہ رہے۔ ماں تیرے خمیر سے گُندھی مٹی میں کوئی اس قابل نہ تھا کہ وہ اپنے لوگوں کیلئے انسانی حقوق کی جدو جہد کرتا۔۔ ماں تُجھے پتا تو ہے تیرے بیٹوں نے بغیر کسی حرص و طمع کے یہ فرض نبھایا۔۔ ہاں البتہ وہ اُن کرسیوں پہ نہ بیٹھ سکے جہاں سے اپنے آپ کو کیش کروا سکیں۔۔ ماں تیرے بچڑے آج بھی تیرا قرض چُکا رہے ہیں ۔ وہ قرض بھی جو اُن کے ذمے نہیں تھا۔

قانون ساز اسمبلی سے؟

کیسے قانون ہیں جو لاگو نہیں ہوتے۔ کیسے قانون ہیں جو پیروں تلے روندے جاتے ہیں۔۔ کیسے قانون ہیں جو دھرتی واس کےسماجی، معاشی اور سیاسی حقوق کا تحفظ نہیں کر پاتے۔۔ اسمبلی میں بیٹھنے والو تمہیں لوگ کیوں چُنتے ہیں۔ اس لئے کہ تُم عوام کے حقوق کیلئے لڑ سکو۔۔ قانون سازی کے ذریعے اصلاحات کر سکو۔ معاشرے میں ناہمواری اور طبقاتی تفریق کوختم کر سکو مگر تُم ڈرپوک ہو۔ مصلحتوں کا شکار ہو اور تُمہاری سوچ بہت چھوٹی ہے۔۔ خود بھی مرو گے اور اپنے عوام کو بھی مرواو گے۔

مصنف کی تصویر
ذوالفقار علی
عدلیہ سے؟

کیسا ایوان عدل ہے، جس کی زنجیر بادشاہ کے ہاتھ میں ہے۔ جہاں انصاف کا ماتھا داغدار ہے جہاں عدالتی قتل کی اصطلاحات زبان زد عام ہیں۔۔ جہاں کیس لڑتے لڑتے عمر بیت جاتی ہے جہاں انصاف مانگنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔۔ کتنے اہم فیصلوں کی فائلیں دراز بند ہیں۔ سستا اور فوری انصاف کا نعرہ ہمیشہ نعرہ ہی رہا کبھی یہ نعرہ عملی طور پر سچ بھی ثابت ہو گا۔ کمزور کو انصاف نہیں ملے گا تو وہ اور کمزور ہو جائیگا۔۔جہاں انصاف نہیں ملتا وہاں ویرانیوں کے بسیرے ہوتے ہیں۔

جب مٹ جایئگی مخلوق تو انصاف کرو گے،
گرمُنصف ہو تو حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے؟

قانون نافذ کرنے والے اداروں سے؟

ارے تُم کس مرض کی دوا ہو۔ اپنے فرض میں کیوں کوتاہی برتتے ہو۔ قانون کے جال میں صرف چھوٹی مچھلیاں کیوں پھنساتے ہو کبھی کوئی مگر مچھ کو بھی تو لے جاو۔ مگر ایسا نہیں ہوگا کیونکہ تُم بھی مجبور ہو اپنے آقاوں کے ہاتھوں۔۔عام لوگ ہی آپ سے ڈرتے ہیں اور وہی آپ کے ستم کا شکار ہیں۔ عام لوگوں میں اب اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ اس جبر میں اپنے آپ کو زندہ رکھ سکیں۔۔اپنے تئیں جو کچھ ہو سکتا ہے کرو یہی وقت ہے اس مٹی کے قرض چُکانے کا۔۔ عام آدمی پے روا ظلم بند ہونا چاہئے۔

سول سوسائٹی سے؟

نہ بھائی یہاں کوئی سول سوسائٹی نہیں ہے۔ یہاں افراد ہیں جو تنخواہ لے کے سول سوسائٹی کا راگ الاپتے ہیں۔ دل کے کمزور، لوگوں سے کٹے ہوئے، مقامی کلچر سے نا آشنا، دانش سے محروم اور بادشاہ سلامت کے خیر خواہ۔۔ اکا دُکا لوگوں کو چھوڑ کے اور کوئی نہیں جو عام لوگوں کا پُرسان حال ہو۔عام لوگوں کے ساتھ جینا سیکھو اُن کو سمجھنا سیکھو اپنا علم اور دانش اُن پر لاگو مت کرو بلکہ اسی مٹی میں محبت اور مزاحمت کے بیج موجود ہیں اُن کی آبیاری کرو تبھی ہم عام لوگوں کو کچھ دے سکتے ہیں ورنہ حالات دن بدن دگرگوں ہوتے جائیں گے۔

سیاسی جماعتوں کے سر براہوں سے؟

سیاسی جماعتیں سیاسی ہی نہیں رہیں۔ کمپنیاں بن گئی ہیں۔۔ پیٹنٹ کی حامل کمپنیاں۔ خاندانوں کے نام پر رجسٹرڈ، غیر جمہوری اور غیر سیاسی۔ جب پارٹیاں ہی غیر سیاسی ہیں تو سربراہ بھی غیر سیاسی ہوئے نا۔ تبھی تو ان کی سیاست کوئی اور کرتا ہے۔ تبھی تو عام لوگ ان سے کٹتے جا رہے ہیں اُن کی اُمیدوں کا مرکز اب وہ ہیں جو سیاست کرتے ہیں۔ یہ ٹرینڈ لمحہ فکریہ ہے۔ 25 فیصد 30 فیصد لوگ ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔۔ مگر ان کو سمجھ نہیں آ رہی۔۔پیارے سر براہو برانڈڈ سوچ سے باہر نکلو دُنیا بدل رہی ہے وقت آپ کے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے۔۔عام لوگوں کی سیاست کرو عام لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑو۔۔ اپنے منشور بدلو خدا کیلئے وقت کی نبض کو سمجھو۔

جاگیر داروں سے؟

یہ لوگ مقامی سطح پر کارگر ہیں مگر اب ان کا وقت گنا جا چُکا ہے۔۔ تھانے کچہری کی سیاست سے باہر آو یار ورنہ زمانے کے چال سے پچھڑ جاوگے۔

میڈیا کے اجارہ داروں سے؟

کاروباری شخص ہیں سب کے سب۔۔ان کا کاروبار اُس وقت تک چلتا رہیگا جب تک مارکیٹ میں ان کی ڈیمانڈ رہے گی۔ان کو استعمال کرنے والے ان کا استعمال کریں گے مگر یہ بات لوگوں کو آہستہ آہستہ سمجھ آ رہی ہے۔۔ان پر زیادہ سر کھپانے کی ضرورت نہیں ہے وقت کے ساتھ ساتھ یہ خود بخود بدل جائیں گے۔

سینٹ سے؟

یہ ادارہ کبھی کبھی کچھ ایسا کر دیتا ہے جس کا تعلق غریب اور عام عوام کے مفادات سے ہوتا ہے۔ عام لوگوں کی توقعات ان سے بہت زیادہ ہیں اور ایک موہوم سی اُمید بھی ہے کہ آنے والے وقت میں یہ ادارہ اور مضبوط ہوگا۔

یو این او سے؟

عام لوگوں کو یو این او سے بھلا کیا مطلب۔۔اس کا کردار اُس بابے جیسا ہے جو بُڑھاپے میں کر تو کُچھ نہیں سکتا بس اپنی اولاد کو لقمے دیتا رہتا ہے جو سُنی ان سُنی کر دیتے ہیں۔

امریکہ بہادر سے؟

طاقت کا سمبل ضرور ہے مگر آج کل اسے بہت سارے اندرونی معاملات سُلجھانے ہیں۔ لہذا اسے نظر انداز کرو اور ان سے کوئی اُمید نہ رکھو ویسے بھی یہ مُلک طاقتوروں کو بچاتا ہے اور اُن سے ہی ڈیل کرتا ہے ہم جیسے عامیوں سے اس کا کیا واسطہ۔
چین سے؟
جو مُلک اپنے لوگوں کے انسانی حقوق پائمال کرتا ہو، جہاں انسانی حقوق کے ادارے کمزور ہوں وہ ہمیں کیا دے گا۔ یہ تو بس سرمایہ کاری کرتا ہے جنگ سے مفلوج مُلکوں میں، کمزور حکمرانوں کو شہہ دینے میں اور ماحول دشمن سرگرمیوں سے سرمایہ اکٹھا کرنے میں۔۔ افریقی عوام اس کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں ہونی والی نام نہاد ترقی سے بھر پور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ ہم بھی اُٹھائیں گے بہت جلد اس کے ثمرات ہمارے سامنے ہونگے۔

سعودی عرب سے؟

بھگوڑوں کو سنبھالنے میں اسکا بہت اہم کردار رہا ہے۔ باقی آپ کو پتا ہوگا وہاں ہمارے مُلک سے گئے ہوئے عام لوگ وہاں کیسے کفیل کے رحم و کرم پر زندہ رہتے ہیں۔ ہاں یہ پیسے دیتا ہے تحفوں کی شکل میں جو عام لوگوں کیلئے نہیں ہوتے بلکہ خاص الخاص لوگوں کیلئے ہوتے ہیں۔ جو زیادہ تر حربی ذرائع کو تقویت دینے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ جس کا سب سے زیادہ شکار عامی ہی بنتے آئے ہیں۔
ایران سے؟
ایران بھی ہمارے عوام کواپنے سٹریٹیجک مقاصد کیلئے فنڈنگ کرتا ہے اور مختلف تنظیموں کے ذریعے اپنی صلاحیت کو لوہا منوا چُکا ہے۔ جس کے منفی اثرات عام لوگوں نے بھگتے ہیں۔ ہاں البتہ ایران کی بدلتی ہوئی صورتحال سے فائدہ ضرور اُٹھایا جا سکتا ہے کیونکہ ایک تو یہ ہمارا ہمسایہ ہے دوسرا ہمارے جیو پولیٹکل مفادات ایک جیسے ہیں۔ تیسرا ایران کی دوسرے ممالک سے لابنگ ہمارے لیے معاشی طور پر کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر یہ تعلقات اس وقت تک ثمر آور ثابت نہیں ہو سکتے جب تک اس میں فرقہ واریت کا پہلو برقرار رہیگا۔
مذہب کے عالی حضرتوں سے؟
یہ لوگ شروع سے انسانوں کو راہ راست پر لانے کیلئے عام انسانوں کو خواب بیچتے رہے ہیں۔ کبھی پادری خواب بیچتا تھا مگر اُس کا دھندہ ماند پڑ گیا کیونکہ وہاں کے لوگوں کو اس کاروبار کی نوعیت کی سمجھ آ گئی تھی۔ مگر ابھی مولانا ، پنڈت، بھکشو وغیرہ اس خواب کو اپنے اپنے مُلکوں میں بیچ کر خوب نفع کما رہے ہیں اور عام لوگ اپنی بچی کُھچی جمع پونجی ان کی جیبوں کی نظر کر دیتے ہیں۔ یار آپ لوگ اب بس کرو ۔۔یا جو اللہ تعالی کا پیغام ہے اُس کو ویسا ہی رہنے دو جیسا مستند ہے۔ اپنی اپنی مرضی کی ترامیم کر کے آپ لوگ اچھا نہیں کر رہے اس سے عام لوگ بہت متاثر ہو رہے ہیں۔ میری آپ سے نہایت مودبانہ گُزارش ہے کہ امن کا پیغام دو ، عقل و دانش کی بات کرو۔

نام نہاد لبرلز سے؟

یہ نیا طبقہ ہے جو ایکشن اور ری ایکشن پر یقین رکھتا ہے۔ اس کو یقین ہے کہ یہ سہی راستے پر ہے۔ یہ دُنیا کے تمام مسائل کا ذمہ دار مذہب پرستوں کو سمجھتا ہے۔ حالانکہ مسائل صرف مذہب پرستوں سے نہیں پیدا ہوئے اس کے پیچھے اور بھی بہت سارے عوامل کارفرما رہے ہیں۔ ان کو سب سے بڑا مسئلہ بُنیاد پرستی سے ہے۔ آئے لبرلز بھائیو کچھ رحم کرو لوگوں کو اُن کی بُنیادوں سے نہ کاٹو۔ کلچر، ثقافت، فوک، کھانا، پہننا ، گیت ، خوشی اور غمی کے سوتے مقامی حوالوں سے جُڑے ہوتے ہیں۔ مقامی طور اطوار کی عزت ہر شخص پر لازم ہے تاکہ دُنیا کی رنگا رنگی کو قائم رکھا جا سکے۔

حاصل بحث

اوپر کے سب عوامل اور رجحانات عام لوگوں کو سپورٹ نہیں کرتے جس کی وجہ سے عام آدمی دن بدن پچھڑتا اور کٹتا جا رہا ہے۔ ترقی ایک ایسا دھوکا ہے جس میں عام آدمی کا کوئی حصہ نہیں وہ آج بھی زندگی کی بُنیادی ترین سہولتوں سے محروم ہے اور دن رات محنت کر کے زندہ رہنے کی جدوجہد میں سرگرم ہے۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے کم و بیش پوری دُنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد مختلف حوالوں سے کسمپرسی کی زندگی گُزارنے پر مجبور ہے۔ اب دُنیا کو نئے سرے سے حقوق کی تشریح کرنی پڑیگی، موجودہ تجربات کو سامنے رکھ کر زندگی، ماحول، خوشی، ترقی اور خوشحالی کی تعریفیں کرنا ہونگی تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے ورنہ موجودہ سیٹ اپ اور تشریحات سے دُنیا کے مسائل کم ہونے والے نہیں۔

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔